امریکی وزیر خارجہ انتونی جے بلنکن نے محکمہ خارجہ
کی تیار کردہ انسانی حقوق سے متعلق45ویں سالانہ رپورٹ31مارچ 2021کو جاری
کرتے ہوئے بھارت میں غیر قانونی، اور ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کی
تصدیق کی ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض فورسز کے ہاتھوں
32کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل اور فرضی جھڑپوں کے واقعات پر روشنی ڈالی
گئی ہے۔اس سے پہلے ا مریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی نے مقبوضہ جموں وکشمیر
میں انسانی حقوق کی صورتحال اور ہندوستان میں انسانی حقوق اور مذہبی
آزادیوں کی بگڑتی صورتحال پر کمیٹی نے شدید تشویش ظاہر کی تھی اور شہریت سے
متعلق قانون میں مذہب کا خانہ شامل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔بھارت میں
لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی، جلسے جلوس ، مذہبی آزادی اور قانون کی
بالادستی سے متعلق کیا گیا۔ رپورٹ میں جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی
(جے کے سی سی ایس) کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں بتایا گیا کہ
سال2020 کے پہلے 6 ماہ میں 107 کیسز میں 229 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں
بھارتی جیلوں اور انٹروگیشن سنٹرز میں کشمیریوں کی حالت زار کا تذکرہ کیا
گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) کو
انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے قیدیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں تاہم
سول سوسائٹی کے نمائندوں کا خیال ہے کہ جیل کے محافظوں یا عہدیداروں کی
جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے بہت کم قیدیوں نے شکایات درج کرائیں۔
نئی دہلی کی جانب سے5 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو خود مختار
حیثیت فراہم کرنے والی ایک خصوصی آئینی حیثیت آرٹیکل 370اور35اے کو منسوخ
کرنے کے بعد ہندوستانی حکام نے بغیر کسی مقدمے کے کشمیری سیاستدانوں کو
نظربند رکھنے کے لیے عوامی تحفظ کے ظالمانہ قانون’’ پی ایس اے‘‘ کا استعمال
کیا جبکہ رہائی پانے والے افراد کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کے
جبری معاہدے پر دستخط کرنے کا پابند کیا گیا۔بدنام زمانہ کالا قانون پبلک
سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاگو ہوتا ہے، حکام کو
بغیر کسی الزام کے عدالت میں زیر حراست افراد کو خاندان سے ملاقات کے بغیر
دو سال تک نظربند رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔اس رپورٹ میں عشرت جہاں کیس کا
زکر نہیں ملتا کہ جنھیں بھارتی پولیس نے دن دہاڑے جعلی جھڑپ میں قتل کر
دیا۔17سال گزرنے کے باوجود وردی پوش قاتلوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ
انہیں بری کر دیا گیا۔ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس کے آخری تین ملزمین کو
بھی17سال بعد چند روز قبل بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں خفیہ
تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ سے ڈسچارج کردیا۔ سی بی
آئی کے اسپیشل کورٹ کے جج وی آر راول نے ملزم پولیس افسران ترون باروٹ،
انجو چودھری اور آئی پی ایس افسرگریش سنگھل کی مقدمے سے ڈسچارج کی پٹیشن کو
منظور کرتے ہوئے کہا کہ ملزمین / عرضی گزار اپنی (معصوم اور نہتے مسلم
نوجوانوں کو ماورائےء عدالت قتل کرنے کی )ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ گجرات
حکومت نے اپنے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔
ممبئی کے ممبرا علاقے کی رہائشی مسلم دو شیزہ 19سالہ عشرت جہاں کو تین مسلم
نوجوانوں سمیت گجرات پولیس نے15جون 2004ء کو قتل کر دیا اور الزام لگایا کہ
وہ گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو قتل
کرنے کے لئے ممبئی سے گجرات آ رہے تھے۔ پولیس نے یہ کہانی پیش کی کہ یہ
چاروں دہشت گرد تھے ۔گجرات ہائی کورٹ کی تشکیل شدہ خصوصی تفتیشی ٹیم نے
اپنی جانچ میں تصدیق کی کہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔اس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ
کی ہدایت پرسی بی آئی نے اس معاملے میں مقدمہ درج کیا۔ مگر جب پولیس
اہلکاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے جو بھی کیا وہ اپنے فرائض کی انجام
دہی کے دوران کیا اس لئے حکومت کی اجازت لینا لازمی ہے تو سی بی آئی کو
حکومت سے اجازت لینے کی ہدایت دی گئی۔ حکومت نے اجازت نہیں دی جس کے بعد
کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’مرکزی اور ریاستی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں
کہ ملزمین کا عمل ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھا،اسی لئے حکومت سے مقدمہ کی اجازت
مانگی گئی مگر اس نے انکار کردیا۔‘‘ حیرت انگیز طورپر کورٹ نے مقتولین کے
تعلق سے بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے
جس کی بنیاد پر بادی النظر میں بھی یہ تصور کرلیا جائے کہ وہ دہشت گرد نہیں
تھے یا ان کے تعلق سے انٹیلی جنس کا الرٹ غلط تھا۔یہ ہے بھارت کا انصاف اور
مسلم دشمن عدلیہ کے فیصلے۔ یعنی معصوم اور نہتے مسلمانوں کو جعلی جھڑپوں
میں قتل کرنا بھارتی قانون نافذ کرنے والے کی ڈیوٹی ہے۔ جس کے خلاف کوئی
کاررائی نہیں کی جا سکتی۔ عشرت جہاں کی والدہ شمیم کوثر بھی بھارت کے اس
انصاف کو متوقع سمجھتی تھیں۔ جب بھارتی حکومت کی تشکیل کردہ سپیشل انوسٹی
گیشن ٹیم نے رپورٹ میں کہا کہ جھڑپ فرضی تھی اور اس میں گجرات کے اعلیٰ
پولیس افسران ملوث تھے تو آج ان مجرموں کو بری اور معصوم مسلم نوجوانوں کو
دہشگرد قرار دیا گیا۔ بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اسی انصاف کی توقع کرنا
چاہیئے۔ ان کے بچوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے اور عدالتیں انہیں
دہشتگرد قرار دے رہی ہیں۔تاریخی مساجد کو شہید کر کے مندر تعمیر کئے جا رہے
ہیں ۔مسلم دنیابھارت میں مسلمانوں پر مظالم اور ریاستی دہشتگردی پر خاموش
ہی نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی و ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا
کر رہی ہے۔
|