گیت تو سب کو ہی اچھے لگتے ہیں مجھے سچ پوچھیں سب اچھا
کشور کا لگا جب جب ماضی میں جاتا ہوں گنگناتا ہوں جانے کہاں گئے وہ دن کچھ
دیر پہلے وائس آف امریکہ سے برادر افسر امام سے بات ہورہی تھی کیا شخص ہے
پیار محبت کا ایک چشمہ نہیں سر چشمہ کہہ دیجئے کہنے لے آپ اسلام آباد میں
مقیم سید بلال کو جانتے ہیں فورا کہا جی بلکل جانتا ہوں اور اچھی طرح جانتا
ہوں سید بلال کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور غالبا نامور دانشور خرم جاہ
مراد کے داماد ہیں فورا ہی انہیں بھی کانفرنس کال میں لیا اور ماضی کی
خوبصورت یادیں تازہ کیں ۔ہم سب کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے جمعیت
کی نر سری سے نکلے لوگ جہاں بھی ہیں ان کا سر گرم ہی رہتا ہے ہمارا دور
جاوید ہاشمی کے بوسن روڈ ملتان کے کالج کے دور سے جڑا ہوا ہے مجیب الرحمن
شامی کا رسالہ زندگی طالب علموں کی سر گرمیوں سے بھرا رہتا تھا ہفت روز
چٹان بھی اپنے جوبن پر تھا ۔گجرانوالہ میں حافظ آباد روڈ کے اوپر ایک
راجباہ ہوتا تھا اسی راجباہ کے چوک میں مدرسہ اشرف العلوم واقع ہے ۔مدرسے
کی چند دکانیں تھیں ایک میں جماعت اسلامی کا دفتر تھا دارلمطالعہ میں
روزانہ کے اخبارات جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھنے کو مل جاتا تھا میرے گروپ
میں سید طاہر شہباز اور قاضی آصف ہوا کرتے تھے قاضی آصف ڈاکٹر بن گئے اور
امریکہ چلے گئے شاہ جی نے سول سروس جائن کی آج کل پاکستان کے محتسب اعلی
ہیں ہم بھی کیا سست شئے ہیں سوائے شادی بیاہ کے آنا جانا نہیں ہے ۔باتوں
باتوں میں برادر مرحوم حافظ سلمان بٹ کا تذکرہ چل نکلا جو میرے کالج کے
زمانے میں لاہور کے ایک مبڑے مشہور طالب علم رہنما تھے ۔میں ناپنے چند
دوستوں کے ساتھ ہم ت کر کے پولی ٹیکنک ریلوے روڈ میں اسلامی جمعیت کا ایک
یونٹ بنایا میرا خیال ہے یہ ۱۹۷۲ کا دور تھا ۔کالج میں ہی ایس ایف کا دور
دورہ تھا اس کے بھی دو گروپ تھے ایک کو حاجی عزیز الرحمن چن لیڈ کر رہے تھے
دوسرے گروپ کو محبوب بٹ شدیان خان موسی خان اور ان کے ساتھی ۔دونوں ہی
سرکاری پارٹی کے نمائندے تھے شرافت نام کی چیز ان کے پاس سے بھی نہیں گزری
تھی کالج میں غنڈہ گردی تھی کسی نہ کسی لڑکے کو زدوکوب کرتے تھے ایسے میں
اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام کوئی آسان کام نہ تھا یہ دور وہ تھا جب پنجاب کے
بیشتر کالجوں اور پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ چھائی ہوئی تھی
۔لیکن چند کالجوں میں جمعیت اب بھی کمزور تھی دیال سنگھ کالج اسلامیہ کالج
لاہور ایم اے او کالج شائد ان میں جمعیت کی یونین نہیں تھی انجنیئرنگ
یونیورسٹی میں جہاں تک مجھے یاد ہے احمد بلال محبوب جنرل سیکرٹری بنے جو آج
کل پلڈاٹ کو ہیڈ کر رہے ہیں نعیم سرویا اور اکمل جاوید کا مجھے اس لئے یاد
ہے کہ جمعیت کے قیام کے لئے یہ دو افراد ہمارے کالج آئے تھے جہاں کالج
کنٹین میں انہیں چائے پلائی تھی اور یوں دعائے خیر کر کے اسلامی جمعیت طلبہ
قائم ہو گئی۔میں اس کا پہلا بانی ناظم تھا ۔کالج کے انتحابات میں جمعیت کے
نام سے الیکشن لڑنا مشکل تھا میں ۱۹۷۱ کے پہلے سیمیسٹر میں ہی اپنی کلاس کا
سی آر بن گیا یہ کوئی باقاعدہ الیکشن نہین تھا لیکن پانی کے مسئلے کے اوپر
طلبہ کا ایک احتجاج ہوا میں نے ہمت کر کے پرنسپل صاحب کے کمرے میں جا کر
بڑے ادب سے دست بستہ عرض داشت پیش کی جو منتحب سی آر شیخ اصغر مجید نہیں
پیش کر سکا اس وجہ سے اسے ہٹا کر مجھے بنا دیا گیا۔دوسرے سال میں مجھے ہوش
آ گئی تھی میں روزانہ کی بنیاد پر گجرانوالہ سے ٹرین پر لاہور آیا کرتا تھا
وقت ہمیشہ ہی سخٹ رہا ہے ٹرین کا ماہانہ پاس پہلے پہل بارے روپے اور ساٹھ
پیسے کا تھا جو غلام مصطفی جتوئی کے دور میں پندرہ روپے کا ہو گیا ہے مجھے
آج بھی یاد ہے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمر دو پر اگر آپ داخل ہوں تو
بائیں جانب کونے میں وزیر صاحب کھڑے تھے میں نے کہا سر آپ نے طالب علموں پر
زیادتی کی ہے ایک دم بارہ روپے سے پندرہ روپے ماہانہ کر دیا ہے مہر بانی
کریں ورنہ بغیر ٹکڑسفر کا رحجان بڑھ جائے گا انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا
جو بغیر ٹکٹ سفر کرے گا اسے ہم گاڑی سے پھینک دیں گے میں نے راستہ ناپا
مجھے ڈر تھا کہ گرفتار نہ کر لیا جاؤں ۔میں اسی ٹرین پر گجرانوالہ سے لاہور
آتا رہا ہوسٹل کی ماہانہ فیس سات روپے تھے اور کھانے پینے کا ثرچ ڈبل تھا
میں گھر سے پکی ایک روٹی لاتا اور وہیں ریلوے اسٹیشن کے سامنے بسوں کا
اڈہمہوتا تھا درخت کے نیچے چار آنے کی حلیم کھا کر مٹکے کا پانی پی کر کالج
میں لیڈری کیا کرتا تھا دوسرے سال میں بین القلیاتی مباحثوں میں حصہ لینے
کی وجہ سے میں کالج کا ایک معروف لڑکا بن چکا تھا مجھے راہی کے نام سے جانا
جاتا تھا کیا زمانے تھے ۔میرے پاس ایک براؤن کلر کی سوفینی کی پینٹ ہوا
کرتی تھی ایک دو شرٹیں بعض اوقات کوئی پوچھنے بھی آ جاتا تو لمبے تڑنگے کی
نشانی کے ساتھ لڑکے میری پینٹ کے کلر کا بھی حوالہ دیتے تھے کہ وہ افتخار
ہے۔اس سال ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی ہم دوسرے سال ایک گروپ کی
حمائت کی وحید نامی لڑکے کو صدر کا مقابلہ کرنے کے لئے نامزد کیا میرا کام
یہ ہوتا ہر کلاس میں جا کر اپنے اس پینل کا تعارف کراتا اس طرح میں بھی
کالج کا معروف ترین لڑکا بن گیا ۔جمعیت نے مجھے بہت کچھ دیا ادھر گجرانوالہ
شہر کی جمعیت کے ساتھ تعلق بن گیا میں نے سلیم منصور خالد ڈاکٹر یاسر مجیب
الرحمن بٹ کے ساتھ کام کیا ۔اس دوران میں بے شمار کالجوں میں گیا تقریری
مقابلوں میں حصہ لیا ملتان سے جہلم تک سفر کئے سرگودھا اور سیالکوٹ میں
جاتا رہا فیصل آباد سھوبی گھاٹ کے مقابلوں میں حصہ لیا بڑی جد وجہد کے بعد
اسی سال کے آخر میں انعام ملنے شروع کئے ۔ہمارے دور کے بہترین مقررین میں
اکرم شیخ منظور بھٹی عاشق حسین عاشق ارشد ملک سلمان کھوکھر نعیم ناز
تھے۔گجرانوالہ سے سلمان کھوکھر پنجابی میں یرے آئڈیل مقرر تھے ان کا انداز
بیان ہمیشہ مجھ پر چھایا رہا میں آج بھی انہیں استاد مانتا ہوں ویسے سکھانے
میں عاشق حسین عاشق کا بڑا رول تھا ۔گجرانوالہ میں اس وقت دو ہی مقرر مشہور
تھے جن میں ایک نام سلمان کھوکھر کا تھا اور دوسرا نوید انور نوید کا ۔
نوید بڑی شہرت پائی ان کی زندگی مختصر تھی پہلے ان کی زوجہ فوت ہوئی پھر وہ
چلے گئے۔میں دو حصوں میں بٹا ہوا شخص تھا لاہور اور گجرانوالہ تیسرے سال
میں اسلامی جمعیت طلبہ نے طے کیا کہ اس بار جمعیت کے پلیٹ فارم سے الیکشن
لڑیں گے ۔آتے کا بیس کلو کا تھیلا اٹھارہ روپے میں آتا تھا ہمارے گھر میں
آٹے کا مصرف زیادہ تھا میں نے پہلا بینر بنوایا جو میرا خیال ہے چار آٹے کے
تھیلوں سے بنا تھا بے جی نے اسے اپنے ہاتھوں سے سی کر دیا ہم نے اسے ایک
پینٹر سے لکھوایا جس نے اس وقت کے مطابق ہم سے خطیر رقم لی سات روپے میں
ایک بینر لکھا گیا ایک جانب جمعیت کا اﷲ اکبر کا سائن تھا شائد یہ بیچ میں
تھا ہم چار امیدوار تھے ایک خالد محمود برائے صدارت دوسرا نائب افتخار راہی
نائب صدر جنرل سئکرٹری کے لء قمر زمان چٹھہ جائنٹ سیکرٹری ہم نے مغل پورہ
ورکشاپس سے لیا جس کا نام قاسم علی ثاقب تھا یہ سال ۱۹۷۳ تھا تقریبا پچاس
سال پہلے۔میری تقریر کی شعلہ بیانی نے دھوم مچا رکھی تھی مخالفیم کی خواش
تھی کہ افتخار کے پاس مائیک نہ جائے اگر اس نے تقریر شروع کی تو غضب ہو
جائے گا ۔جب سالانہ فائنل متقریریں ہوئیں تو یہی ہوا ایک شور مچ گیا کھر کا
زمانہ تھا یہ لوگ اس کے کڑچھے تھے طاقت ان کے پاس تھی میری پوری خواہش تھی
کہ میں تقریر کر لوں مگر پچھلے لان میں چھ سات سو لڑکوں نے شور مچا رکھا
تھا میں نے جیب سے ٹوپی نکالی اور تلاوت شروع کر دی آہستہ آہستہ خاموشی چھا
گئی میں نے قران پاک کی ایک آئیت جو میں آج کل بھی انڈین چینل پر پڑھتا ہوں
تلاوت کی و جاء الحق و زحق الباطلا ان الباطلا کان زہوقا حق آیا اور باطل
بھاگ گیا بے شک جھوٹ کے مقدر میں بھاگنا ہے ۔کچھ تھوڑی تفسیر بیان کی آخر
میں کہا حق کقن ہے اور بال کون فیصلہ کر لیجئے یوں میں نے میدان مار لیا
سارا الیکشن میے اوپر تھا میں نے نائب صدارت اس لئے لی کہ سامنے مقابلے میں
بھی ایک دوست تھا جو صدر کے لئے الیکشن لڑ رہا تھا جس کا نام خواجہ اصغر
سعید تھا-
الیکشن کا دن میرے لئے قیامت کا دن تھا ہم اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم
کو بتا رکھا تھا کہ ہمارے ووٹ تو ہیں لیکن ان کا تحفظ کرنا مشکل ہے تو ہمیں
اس روز پتہ چلا کالج میں حافظ سلمان بٹ حمید اﷲ خان اور سکندر گجر آئے ہیں
۔ان دنوں ہمایوں مجاہد اور ان لڑکوں کی دہشت تھی۔میں تو سچی بات ہے ووٹ
ڈالر کر ریلوے اسٹیشن چلا گیا تھا مجھے کسی نے بتایا سلمان بٹ نے فائرنگ
بھی کی ہے اور موسی خان وغیرہ کو سر عام پھینٹہ بھی لگایا بیلٹ باکس چوری
ہوئے شام کو نتیجہ آیا میں نے مخالف کو بڑی اکثریت سے شکس دے تھی جنرل
سیکرٹری بھی ہمارا جیتا باقی دو سیٹیں مخالف لے گئے خواجہ اصغر سعید افتخار
راہی قمر زمان چٹھہ عیسی خان جیت گئے ۔اگلے رو تین لوگ کھر کے پاس گئے وہاں
میرا تذکرہ ہوا کہ وہ کدھر ہے انہیں بھی علم ہو گیا تھا کہ اس کے لڑکے ہار
گئے ہیں عزیز الڑحمن چن کا گروپ تیسرے نمبر پر تھا ۔بات ویسے ہی یاد آ گئی
کہ اس اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے تربیت پانے والے ڈٹ کر مقابلہ
کیوں کرتے ہیں ہمارے ہی ساتھی احسن اقبال،صدیق الفاروق،عارف علوی،جاوید
ہاشمی،شفیع نقی جامعی،افسر امام مشاہد اﷲ خان جہان بھی رہے جس پارٹی میں
رہے اگلی صگوں میں لڑتے نظر آئے حسین حقانی سلیم صافی اسد قیصر یہ سب کون
تھے یہ جمعیت کے پلیٹ فارم سے اٹھے ،جماعت اسلامی کی تو ساری قیادت ہی
اسلامی جمعیت طلبہ سے نکلی۔آج بھی جب کوئی دکھ پہچتا ہو تو بھائی کہہ کر
ایک آواز آتی ہے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو فرید پراچہ احسن اقبال یا صدیق
الفاروق لیاقت بلوچ حفیظ اﷲ نیازی ہوتے ہیں ۔وہ بھائی ایک لفظ تھا جسے
الطاف نے بد نام کیا ورنہ سگے بھائیوں سے بڑھ کر یہ بھائی آج بھی یاد آتے
ہیں عنائت اﷲ اشفاق حجازی خواجہ عمادلادین ندیم ریاض سیٹھی منیر تبسم حمید
الدین اعوان یہ سب بھائی ہی تو تھے ہم بے صبرے تھے یا جماعت اسلامی کے پاس
تنگ دامن تھا اس کا فیصلہ کون کرے گا لیکن اتنا علم ہے کہ صبر کے ساتھ جبر
کا مقابلہ ہم اس وقت بھی کر رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ایک جمیعت کے
فرد کو گھیرا ڈالنے کے لئے بلکل اسی طرح ہانکا لگایا جاتا ہے جس طرح شیر کو
گھیرا جاتا ہے۔ایک بات بتا دوں یہ لوگ جہاں بھی گئے ایک چٹان بن کر کھڑے
رہے۔میں تو شائد کچھ بھی نہیں صدر پاکستان سپیکر قومی اسمبلی کے ہالے میں
عمران خان محفوظ ہے کیا لوگ تھے تھوڑے تھے مگر ستھرے تھے میں بھی گیت سنتا
ہوں مجھے کشور کمار پسند ہے ایک گیت سب سے اچھا لگا جانے کہاں گئے وہ دن
|