عقل ہم کو کیوں نہیں آتی ؟

موجودہ حکومت کے خلاف بولنے والا مر جائے لیکن کوئی بھوکا نا سوئے ریاست مدینہ میں جب سب بھکاری ہونگے تو سخی کس ریاست میں ہونگے

عرصہ دراز سے سیاست کے رنگ دیکھتی عوام ہر بار اُمید لیئےجلسے جلوسوں کی روٹئیاں آڑاتی قیمے والے نانوں کے لئے لڑتی کہیں بریانی پر جھگڑتی رنگ برنگی تصویروں کےپوسٹروں سے سجی گلیاں اور بینرز سے مزئین کھنبے اور اسٹیکرز سے بھرے کھڑکیاں دروازے ہاتھوں میں تھامے جھنڈے اور اُن کے ڈنڈےجہاں ہر ایک کے لئے روزگار عام نظر آتا ہے کبھی جلسے میں شرکت کی دیہاری ملنے کی خبر عام ہوتی ہے اور کبھی پولینگ ایجنٹ کو دیہاڑی ملنے کی خبر گونج بنتی ہے اور عوام خواہ کہیں کی بھی ہواُنکو خواب دیکھاتے آزاد اور پارٹیوں کےغلام لیڈر اس عوام کوایک ہی اُمید دیتے ہیں کہ اس بار حالات بدل جائیں گے پہلے سے مختلف ہوں گےاوراگر قارئین کو یاد ہو تو ایسا سماع بن جاتاہے کہ وہ جو علاقے کے اوباش ترین انسان بحثیت اُمیدوار جو پوسٹر دیوار پر چسپاں کرتا ہے پر شریف قیادت کے نعرےکے بغیر مکمل نظر نہیں آتا اور پھرا س کی اپنے حواریوں کی مدد سے ذات برادری کا وااسطہ دے کر معافی تلافی کر کے اور جھوٹے سچے وعدوں سے اپنے علاقے کی عوام کا دل موم کرلیناکوئی نئی بات نہیں ہےاور دوسری طرف ووٹر نا چاہتے ہوئے بھی ووٹ کسی نا کسی کو تو دینا ہےیہ ہمارا اخلاقی فریضہ ہے اوروہ لیڈرمیرے گھر چل کے آگیا تھا اُس نے میرے لئے رکشہ،گاڑی بھیج رکھی ہے وہ اُس وقت تھانے میں وہ میرے ساتھ گیا تھا اور اُس نے مجھے فون کر کے کہا تھا ہم بحثیت ووٹرایسی باتوں پر ہی پھولے نا سماتے ہیں اور لیڈروں کی نظر میں اپنا بلند مرتبہ قائم رکھنے کی غرض سے یا بوقت ضرورت ہمیں ان سے کام پڑسکتا ہے سوچ کراپنا ووٹ کسی نا کسی کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اوراگرالیکشن ڈے پر پوچھا جائے کہ ووٹ کس کو دیا تو مندرجہ بالا تعویلیں اس انداز میں پیش کردیتے ہیں کہ سُننے والاگمان کر لےکہ اس کا فیصلہ سب سے بہترہے اور اس سے بہتر کوئی فیصلہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اگر اُس وقت ہمارے لیڈر کو کوئی ایک لفظ بھی غلط کہہ دے تواور وہ بھی وہ لفظ جو ہم وٹرز کے مزاج کے خلاف ہو تو اسی وقت اچھا خاصہ دنگا برپا ہوجاتا ہے اور جوں ہی الیکشن ڈے کا خاتمہ ہوتا ہے اور رات کو دو بجے اچانک فائرنگ سے یا بہت بڑی ریلی سے جیتنے والے صاحب اپنے علاقے کی عوام کا شکریہ ادا کرنے کے بہانے در اصل اُن پر اپنی جیت کا رعب و دب دبا قائم کرنے کے لئے تمام تر جاہ وجلال کے ساتھ اپنی جیت کا جشن مناتے ہیں تو کچھ مایوس چہرئے بھی نظر آتے ہیں لیکن عوام انتخابات کے نتائج کو مان جاتی ہے لیکن اگلی صبح 12 بجے کہ بعد سے دو بحثیں جنم لے لیتی ہیں ایک دھاندلی اور دوسری سیاسی جوڑتور جب میڈیا نہیں تھا تو اخبارات اسی صورتِ حال سے بھرپور اگاہی دینے کی کوشیش کرتے تھےاور عوام کو کچھ دن بعد معلوم ہوتا تھا کہ اصل میں اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن اب تو نتائج آتے رہتے ہیں اور سیاسی جوڑتوڑ کا بروقت پتہ چلنے لگتا ہے بلکہ کامیاباُمید وار کا نوٹیفیکیشن بھی بعد میں جاری ہوتا ہے لیکن سیاسی گھٹ جوڑ پہلے ہوجاتا ہے ایسے حا لات میں صاف اور شفاف انتخابات کا ڈھندورا پیٹتا الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے بنائے ہوئے قوانیئن کی دہجیاں اُڑتے دیکھتا ہے اورلیکن مردار کی مانند یا حکومت کے گھر کی لونڈی کی طرح بے حسو خاموش رہنے کوہی مناسب سمجھتا ہے اگر کوئی مخالف کسی منتخب نمائندے کے بارئے میں کوئی شکائیت کر بھی دیتا ہے تو کوئی فرق نہیں کچھ تاریخوں کے بعد معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے اوراس وقت تک اُن انتخابات کے نتیجہ میں حکومت اپنے پنجے عوام کے سینوں میں گار چکی ہوتی ہے اور اپنی کاروائیاں شروع کر چکی ہوتی ہیں کچھ عرصہ پچھلی حکومت پر الزام ڈال ڈال کر پھر بیرونی حالات کی خرابی سے ڈرا کر پھر اندرونی طاقتوں کے قبضے سے ڈرا کراور بسا اوقات کشمیر کی ڈگڈگی بجاکر مہنگائی ،لوڈشیڈنگ ،بے روزگاری سے روتی وہی عوام جووقتی طور پر بغیر سوچے سمجھے ووٹ ڈالتی ہے چیخیں مارتی ہیں لیکن حکمران اور اُن کے حواری جو مشیر وزیر اور نا جانے کون کون سے عہدوں پر فائز نطر آتے ہیں سب بے پروا ہو چکے ہوتے ہیں اور سب کا مقصد ایک ہوتا ہے کہ کسی نا کسی طرح سے حکومت اپنے اقتدارکی ملی مدت کو مکمل کرئے اور نمائندوں کی رقم بمعہ سود لوٹادے کیوں کہ آنے والے انتخابات میں پھر پیسہ لگے کر ہی حکومت ملے گی جس کے لئے بیشمار طریقہ کار موجود ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے اپوزیشن والے کو نہیں ملتے تھے ابسابقہ حکومت والوں کو نہیں رہا اوربے عقلے ووٹرزانتخابات سے پہلے جو خوائشات سابقہ حکومت سے رکھتے تھے اب موجودہ حکومت سے رکھے اُسی حالات میں وہی پرانے نعرے لئے سڑک کنارے موجود نظر ۤتے ہیں یہاں مجھ سمیت سب ووٹرز کے گوش گزار ایک سوال جب ہم خود ہی ایسے انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومت بناتے ہیں تو ہم مہنگائی پر واویلا کیوں کرتے ہیںکوئی بجلی کے مختلف ٹیرف کا رونا روتا ہے کوئی دوائی کے لئے آس لگائے بیٹھارہتے ہیں اگر ہم نے ان کو پانچ سال لوٹنے کا پرمٹ دیا ہے تو صبر سے سکون سے لوٹنے کیوں نہیں دیتے دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے ہاتھوں منتخب نمائندوں کو پریشان کرتے ہیں اُن کو شرم اور ہوش آنے والی نہیں اور ہم کو عقل آتی نظر نہیں آتی "آج سڑک پر ایک مذہبی جماعت والے روڈ بلاک کرئے بیٹھے ہیں ایک سفیر کو نکالنا اس قدر مشکل کام ہے کہ اپنے ہزاروں پر آنسو گیس چلائی جا سکتی ہے پتھر برسائے جا سکتے ہیں اپنے لاکھوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جاسکتا ہے ان دنگوں کی وجہ سے جو روڈ پر مر گیا اُس کی ایف آئی آر کس پر درج ہو گی ایک حاکم خود کو عاشق رسول بتا کر دوسرے عاشق رسول پر ظلم کر سکتا ہے لیکن ایک سفیر کو نکالا نہیں جاسکتا اور گزیشتہ ادوار میں ہر لمحہ بریکنگ نیوز دینے والا میڈیا جو آزاد اور خود کو ریاست کا اہم ترین پلر گردانتا تھاایک تفصیلی خبر دینے سے ڈرا نظر آتا ہے موجودہ حکومت کے خلاف بولنے والا مر جائے لیکن کوئی بھوکا نا سوئے ریاست مدینہ میں جب سب بھکاری ہونگے تو سخی کس ریاست میں ہونگے " یہ الفاظ خواہ موجودہ حالات کے تھے جو میری تحریر کی راہ میں آ گے ہیں لیکن تحریر کا مقصد تبدیل نا ہونے دیں گے تو قارئین ہمیں عقل سے کام لینا چاہے اپنے منتخب نمائندوں کو من مرضی کرنے کی اجازت دینے کہ بعدکچھ پوچھنا نہیں چاہئے وہ جو کرتے ہیں کرنے دو اگر ہمیں انصاف میسر نہیں تو کوئی بات نہیں اگرلوڈسیڈنگ ختم نہیں ہوتی تو کوئی بات نہیں اگر حکمران مزید قرض حاصل کرلیں تو کوئی بات ہی نہیں اگر پورا ملک گروی پرجائے تو پریشان نہیں ہونا پٹرول مہنگا ہو جائے تو گھبرانا نہیں صرف یہ سوچ کر کہ اس حکومت کو ہم ہی نے پرمٹ دیا تھا لیکن اور اب پورے پانچ سال بعد جب وہ وقت دوبارہ آئے گا تو ہم نے دوبارہ اس غلطی کو دوہرانا نہیں اگر ہندوستان سے اور انگریز سرکار سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے تو اس نظام سے بھی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے (جاری )
 

M.Qasim Saleem
About the Author: M.Qasim Saleem Read More Articles by M.Qasim Saleem : 9 Articles with 5165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.