چینی کا مصنوعی بحران

جمہوری حکومتیں ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ حلیف اور حریف دونوں سے ہارڈ ٹیبل گیم کھیلنا جانتی ہیں۔ یہ خطے کی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے لیے بہترین بلاک اور لائن کو ترتیب دینے میں مہارت رکھتی ہیں۔ یہ کبھی بھی کسی ایسی بین الاقوامی لابی کا حصہ نہیں بنتیں جہاں اخلاقیات اور اقدارکے بجائے ڈالر اور آئی ایم ایف کے سودے ہوں۔ یقینا بسا اوقات جب کسی ملک کے انتظامی معاملات عدل و انصاف کے میزان پر نہ چل رہے ہوں توقوموں اور ملکوں کی تقدیر بدلنے کے لئے ڈالر، آئی ایم ایف اوردیگر اداروں کا سہار ا لینا پڑتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہاتھ پاؤں پُھلا کر ہر چیز کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ 19 ماہ بعد حکومت کو شوگر اور کاٹن کی تجارت کا خیال آگیا۔نئے رجحانا ت کو دیکھتے ہوئے بھارت سے پرانے گلے شکوے بھلا کر مذاکرات کے ذریعے سیاسی مصالحت و معاشرت کی ٹھان لی گئی ہے۔ اگرچہ آرٹیکل 370 کے بعد اب کھل کر تجار ت کے سودے مشکل ہیں مگر بیک ڈور ڈپلومیسی جاری رہنے کے امکانات ہیں۔یہ اچھا شگون ہے کہ معاشرہ جو معاش کے ترازو میں خود کو تولتا ہے ، اس کے مستقبل بارے بھی کچھ سننے کو ملا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر ایک ایسا ناگزیر معاملہ بن چکا ہے کہ پاکستان چاہ کر بھی اس قضیے سے جان نہیں چھڑاسکتا۔ لہذا اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہی ہوگا۔

حکومتی ترجمان اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کہیں حکومت پر الزام لگے تو لٹھ اٹھا کر اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے شوگر ، گندم اور کاٹن مافیاز کی اقسام گنوانا شروع کر دیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں صحت ، تعلیم ، انتظامیہ ، مقننہ، عدلیہ، اسمبلیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مافیا نہیں بیٹھے ہوئے؟عجیب بات ہے کہ کاروباری لوگ حکومت کی ناکامیوں اور نااہلیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔بے روزگاری عروج پر ہے اور مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے عوام الناس کو تجربات کی نرسری سے گزارنے کا مزیدفیصلہ کر لیا ہے ۔حیرانی ہے کہ جہانگیر خان ترین پر سوا تین ارب روپے کے مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگا دیے گئے ہیں۔الزامات بھی ایس ہی سی پی اور ایف بی آر کی بجا ئے ا یف آئی اے نے لگائے ہیں۔ جہانگیر خان ترین جیسا کاروباری دماغ جو JDW کا مالک ہے اور جس کے پاس 12,000 ورکرزکام کرتے ہیں ۔ جس کی چار شوگر ملوں سے 50,000 کسانوں کا مستقبل جڑا ہے۔جس کا سالانہ 70 ارب روپے کا ٹرن آور ہے۔ 15 ارب روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہے۔اور 15 ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے کے لیے سوا تین ارب روپے کا فراڈ چے معنی دارد!!

خدا کی پناہ اس خراب حکمت عملی سے کہ جس سے صرف اور صرف مصنوعی بحران پروان چڑھ رہے ہیں۔ چینی ، گندم اور کاٹن سب موجود ہے مگر مسئلہ انتظامی امور میں مہارت نہ ہونے کا ہے ۔ایک عامی بھی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر چینی کی قیمت متعین کر نی ہے تو پھر گنے کی قیمت بھی مقرر کریں ۔یا تو چینی کیساتھ گنے کی قیمت بھی حکومت مقرر کرے یا پھر دونوں کا فیصلہ شوگرملوں اور مالکان کو مقرر کرنے دے تاکہ چینی کی قیمتوں میں استحکام آسکے۔ اچھنبے کی بات ہے کہ چینی کی گوداموں میں بہتات ہے اور ہم بھارت سے لینے چلیں ہیں۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشنز شمالی پنجاب کے سیکرٹری جنرل حسن اقبال کے مطابق چینی وافر مقدار میں پاکستان میں موجود ہے اور بھارت سے درآمد کرنے کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت شوگر ملوں کے مالکان سے مناسب انداز میں بات نہیں چلا رہی۔اس لئے شوگر ملوں سے ڈیلرز ، سب ڈیلرزاور سپلائرز چینی نہیں اٹھا رہے کیوں کہ اب حکومت نے ان کے لیے کڑی شرائط عائد کر دیں ہیں کہ چینی اٹھانے کے لیے انہیں پہلے شناختی کارڑ، اکاؤنٹ نمبر، ٹیکس نمبر، این ٹی این اور رجسٹریشن نمبر ضلعی انتظامیہ کوجمع کرانے ہوں گے ۔ اس ضمن میں ڈیلر ز،سپلائرز اور دکانداروغیرہ یہ شرائط ماننے کو تیار ہیں مگر حکومتی غفلت کہ انہوں نے ابھی تک ضلعی انتظامیہ کو رجسٹریشن کو پراسس کرنے یا اسے آسان بنانے کے یے کہا ہی نہیں۔ اسی لیے چینی نہ ملوں سے اٹھ رہی ہے اور نہ ہی صارفین تک پہنچ رہی ہے اور چینی ملوں میں ڈمپ پڑی ہے ۔عملاََ ایک لوئر مدل کلاس جب کسی پرچو ن پر جاتا ہے تو ہر دکاندار کا الگ ریٹ ہوتا ہے جو کہ 100 روپے فی کلو چینی سے 120روپے تک جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی بدولت وزیر اعظم خود intervene کریں اور اس معاملے کو دیکھیں۔ ماحول کو سازگار بنائیں۔ رجسٹریشن کا پراسس آسان کروائیں۔انتظامی نااہلی کو فورا دور کرائیں۔در آمدات کی بجائے بر آمدات پر توجہ دیں اوراس کے منافع میں انوسٹر کو بھی شامل کروائیں۔ کاروباری حضرات کو اعتماد میں لیں کیوں کہ اعتماد سازی کی فضاء تو ملکوں کو جنگیں بھی جتا دیتی ہے اور یہ تو ایک چھوٹا سا بحران ہے۔

 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 98234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.