امام تدبر وسیاست....حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت امیرمعاویہؓ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں ،اللہ تعالٰی نے حسن صورت اور حسن سیرت سے خوب نوازا تھا۔آپ ایک وجیہ اورخوبصورت انسان تھے ۔رنگ گورا ، چہرہ پُر وقار اور بردباری کا آئینہ دار تھا۔ حضرت مسلم ؓ فرماتے ہیں جناب معاویہ ؓ ہمارے پاس آئے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین تھے ۔اس حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت اور عدل وانصاف کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر فاروق ؓ بھی فرمایا کرتے تھے : تم لوگ قیصر وکسریٰ اوران کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ تم میں معاویہ ؓ موجود ہیں ۔آپ عالم اِسلام کی ان چند گنی چنی ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے احسان سے یہ امت مسلمہ سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ آپ ان چند کبار صحابہؓ میں ہیں جن کو سرکار دو عالمﷺ کی خدمت میں مسلسل حاضری اور حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ وحی کو لکھنے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت معاویہؓ وہ عظیم قابل رشک خوش بخت ہیں جو آنحضرتﷺ کے منظورِ نظر تھے جنہوں نے کئی سال تک آپﷺ کیلئے کتابت وحی کے نازک فرائض انجام دیئے، آپﷺ سے اپنے علم وعمل کیلئے بہترین دعائیں لیں، جنہوں نے حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ کے زمانے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جنہوں نے تاریخ اسلام میں سب سے پہلا بحری بیڑہ تیار کیا، اپنی عمر کا بہترین حصہ رومی عیسائیوں کیخلاف جہاد میں گزارا اور ہربار ان کے دانت کھٹے کئے، کیا کوئی مسلمان انہیں بھول سکتاہے جنہوں نے قبرص، روڈس، صقلیہ اور سوڈان جیسے اہم ممالک فتح کئے، سالہا سال کے باہمی خلفشار کے بعد عالم اسلام کو پھر سے ایک جھنڈے تلے جمع کیا، جہاد کا جو فریضہ تقریباً متروک ہوچکا تھا اسے ازسر نو زندہ کیا، اور اپنے عہد حکومت میں نئے حالات کے مطابق شجاعت وجواں مردی، علم وعمل، حلم وبردباری، امانت ودیانت میں نظم وضبط کی بہترین مثالیں قائم کیں۔ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو پرتاریخ کی یک طرفہ تصویر کی تہوں میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔

اسلام لانے کے بعد آپ مستقلاً آنحضرتﷺ کی خدمت میں لگے رہے۔ علامہ ابنِ حزمؒ لکھتے ہیں کہ ”نبی کریم کے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت آپﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہؓ کا تھا۔ یہ دونوں حضرات دن رات آپﷺ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں مسلسل حاضری، کتابت وحی، امانت ودیانت اور دیگرصفات محمودہ کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے متعدد بار آپ کیلئے دعا فرمائی۔ حدیث کی مشہور کتاب” جامع الترمذی“ میں ہے کہ ایک بار نبی کریمﷺ نے آپ کو دعا دی اور فرمایا ”اے اللہ! معاویہؓ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے“۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے آپ کو دعا دی اور فرمایا ”اے اللہ! معاویہؓ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا“۔

مشہور صحابی حضرت عمروؓبن العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے سنا”اے اللہ! معاویہؓ کو کتاب (قرآن کا علم )سکھلا دے اور شہروں میں اس کیلئے ٹھکانا بنا دے اور اس کوعذاب سے بچا لے“۔

نبی کریمﷺ نے آپ کی امارت وخلافت کی اپنی حیات میں ہی پیشین گوئی فرمادی تھی اور اس کیلئے دعا بھی فرمائی تھی جیسا کہ مذکوربالا حدیث سے ظاہر ہے۔ نیز حضرت معاویہؓ خود بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی کریمﷺ کے واسطے وضو کا پانی لے کرگیا۔ آپ نے پانی سے وضو فرمایا اور وضو کرنے کے بعد میری طرف دیکھا اور فرمایا ”اے معاویہ! اگر تمہارے سپرد امارت کی جائے(اور تمہیں امیر بنادیاجائے) تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا“۔اوربعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا” جو شخص اچھا کام کرے اس کی طرف توجہ کر اور مہربانی کر اور جو کوئی برا کام کرے اس سے درگزر کر“۔حضرت معاویہؓ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں” مجھے آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے بعد خیال لگا رہا کہ مجھے ضرور اس کام میں آزمایا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا(مجھے امیر بنادیا گیا)۔ ان روایات سے صاف واضح ہے کہ حضرت معاویہؓ کو دربار نبوی میں کیا مرتبہ حاصل تھا؟ اور آپﷺ ان سے کتنی محبت فرماتے تھے؟نیز ایک اورروایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ سواری پر سوار ہوئے اور حضرت معاویہؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھوڑی دیر بعد آپ نے فرمایا” اے معاویہ! تمہارے جسم کا کون سا حصہ میرے جسم کے ساتھ مل رہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرا پیٹ (اور سینہ) آپ کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ نے دعا دی” اے اللہ اس کو علم سے بھر دے“۔

جب آپ کے والد اسلام لے آئے تو انہوں نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا” یارسول اللہ! میں اسلام لانے سے قبل مسلمانوں سے قتال کرتا تھا اب آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں کفار سے لڑوں اور جہاد کروں، نبی کریمﷺ نے فرمایا ”ضرور!جہاد کرو“۔

ایک بار حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا ”قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے (یعنی انتہائی بردبار ہے) اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیاجاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا (یعنی انتہائی غیور اور شجاع ہے)۔ اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا” اے لوگوں! تم میرے بعد آپس میں فرقہ بندی سے بچو اور اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ رکھو کہ معاویہؓ شام میں موجود ہیں“۔

حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے ”تم قیصرو کسریٰ اور ان کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ خود تم میں معاویہؓ موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ کی نظر میں آپ کا مرتبہ اور مقام اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے آپ کے بھائی بزید بن ابی سفیانؓ کے انتقال کے بعد آپ کو شام کا گورنر مقرر کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے گورنروں اور والیوں کے تقرر کے معاملہ میں انتہائی محتاط تھے اور جب تک کسی شخص پر مکمل اطمینان نہ ہوجاتا اسے کسی مقام اور علاقہ کا امیر مقرر نہ کرتے تھے، پھر جس شخص کو گورنر بناتے اس کی پوری نگرانی فرماتے، اور جب کبھی معیار مطلوب سے فرو محسوس ہوتا اسے معزول فرمادیتے تھے، ان کا آپ کو شام کا گورنر مقرر کرنا اور آخر حیات تک انہیں اس عہدے پر باقی رکھنا ظاہر کرتا ہے انہیں آپؓ پر مکمل اعتماد ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے ایک فقہی مسئلہ میں حضرت معاویہ کی شکایت کی گئی تو آ پنے فرمایا ”یقیناً معاویہؓ فقیہ ہیں“۔(جو کچھ انہوں نے کیا اپنے علم وفقہ کی بناءپر کیا ہوگا)ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے جواب میں فرمایا” کہ معاویہؓ نے حضورﷺ کی صحبت کا شرف اٹھایا ہے( اس لئے ان پر اعتراض بیجا ہے)۔حضرت ابن عباسؓ کا قول مشہور ہے کہ میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر سلطنت اور بادشاہت کا لائق کسی کو نہ پایا۔حضرت عمیر بن سعدؓ کا قول حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے عمیر بن سعدؓ کو حمص کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ حضرت معاویہؓ کو مقرر کیا تو کچھ لوگوں نے چہ مگوئیاں کیں،حضرت عمرؓ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا” معاویہؓ کا صرف بھلائی کے ساتھ ذکر کرو، کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ کو ان کے متعلق یہ دعا دیتے سنا ہے: اے اللہ اس کے ذریعہ سے ہدایت عطا فرما۔حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر سرداری کے لائق کوئی آدمی نہیں پایا۔

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں فرمایا کرتے تھے” کہ میں نے حضرت عثمانؓ کے بعد کسی کو معاویہؓ سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا“۔حضرت قبیصہ بن جابر کا قول ہے” میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو (حضرت) معاویہؓ سے بڑھ کر بردبار، ان سے بڑھ کر سیادت کا لائق، ان سے زیادہ باوقار، ان سے زیادہ نرم دل اور نیکی کے معاملہ میں ان سے زیادہ کشادہ دست ہو“۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور خلافت میں کبھی کسی کو کوڑوں سے نہیں مارا، مگر ایک شخص جس نے حضرت معاویہؓ پر زبان درازی کی تھی، اس کے متعلق انہوں نے حکم دیا کہ اسے کوڑے لگائے جائیں۔حافظ ابن کثیرؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ جو مشہور تابعین میں سے ہیں، ان سے کسی نے حضرت معاویہؓ کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن المبارکؒ جواب میں کہنے لگے ”بھلا میں اس شخص کے بارے میں کیا کہوں؟ جس نے سرکار دوجہاںﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہو اور جب سرکارﷺ نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو انہوں نے جواب میں ربنا لک الحمد کہا ہو۔

انہی عبداللہ ابن المبارکؒ سے ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ بتلائیے کہ حضرت معاویہؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ میں سے کون افضل ہیں؟ سوال کرنے والے نے ایک جانب اس صحابی کو رکھا جس پر طرح طرح کے اعتراضات کئے گئے تھے اور دوسری طرف اس جلیل القدر تابعی کو جس کی جلالت شان پر تمام امت کا اتفاق ہے، یہ سوال سن کر عبداللہ ابن المبارکؒ غصہ میں آگئے اور فرمایا ”تم ان دونوں کی آپس میں نسبت پوچھتے ہو، خدا کی قسم! وہ مٹی جو نبی کریمﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے حضرت معاویہؓ کی ناک کے سوراخ میں چلی گئی، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے۔

مشہور تابعی حضرت احنف بن قیسؒ اہل عرب میں بہت حلیم اور بردبار مشہور ہیں ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ بردبار کون ہے؟ آپ یا معاویہؓ؟ آپ نے فرمایا ”بخدا میں نے تم سے بڑا جاہل کوئی نہیں دیکھا (حضرت) معاویہؓ قدرت رکھتے ہوئے حلم اور بردباری سے کام لیتے ہیں اور میں قدرت نہ رکھتے ہوئے بردباری کرتا ہوں، لہٰذا میں ان سے کیسے بڑھ سکتا ہوں؟ یا ان کے برابر کیسے ہوسکتاہوں؟

۲۲رجب ۰۶ ھ میں علم وحلم اور تدبر وسیاست کے اس آفتاب نے دمشق میں وفات پائی ،حضرت ضحاک بن قیس ؓ نے نمازجنازہ پڑھائی اور دمشق میں باب الصغیر میں آپ کی تدفین ہوئی ۔ وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھتر سال تھی ۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344245 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.