محبتوں کے سفیر ۔۔پیر سید محمد اجمل گیلانی رحمة اللہ علیہ

آپ کا ختم چہلم 30جون 2011بروز جمعرات بوقت 9بجے صبح تا ظہر کوٹلی میانی ضلع شیخوپورہ میں ہو گا۔

اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم ﷺ کے جس امتی سے جتنا کام لینا چاہے اپنی رحمت و بے پناہ نوازشات سے لے لیتا ہے ۔کسی سے تحریراً دفاع اسلام کا کام لیتا ہے اور کسی سے تقریراً۔ کبھی تنظیمات کے ذریعے افراد معاشرہ کو منظم کرواتا ہے اور کبھی تربیتی نششتوں کی فکر دے کر ۔کبھی دینی اداروں کے قیام کی فکر سے آراستہ کر کے اور کبھی حقانیت کے غلبہ کی سوچ دے کر۔ یقیناً پروردگار عالم کی توفیق و رحمت جس کے شامل حال ہوتی ہے وہ کامیابی کی منازل طے کرتے دیر نہیں لگاتا ۔ایسے ہی ایک نابغہ روزگار شخص مجاہد اہلسنت ،مقبول بارگاہ غوثیت ،قائد تحریک فدایان ختم نبوت ،صوبائی ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس اہلسنت حضرت علامہ پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی رحمة اللہ علیہ تھے ۔وہ ایک شخص اپنے اندر ایک انجمن رکھتا تھا ۔تھوڑی ہی عمر میں دنیائے اہلسنت کا ماہتاب بن کر ہزاروں نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بن گئے ۔پیر سید محمد اجمل گیلانی رحمة اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات نارنگ منڈی مرکزی جامع مسجد نورانی میں فریضہ خطبہ جمعہ ادا کرنے کے دوران ہوئی ۔جب اطلاع ملی کہ مخالف فرقہ کے ظالموں نے اُن پر فائرنگ کی اور شدید زخمی کر دیا ۔ نارنگ منڈی ہسپتال میں جب بندہ ناچیز کچھ احباب اہلسنت کے ساتھ خبر گیری کےلئے حاضر ہوا تو سید محمد اجمل گیلانی سے محو گفتگو ہوا ۔احوال پوچھے تو قبلہ شاہ صاحب کے جواب نے حیران کر دیا ۔انہوں نے کہا اویسی صاحب مسلک اہلسنت کے تحفظ اور مساجد اہلسنت کے دفاع کےلئے اپنے جدِ اعلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سنت زندہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اتنا بلند ہمت ،خوبرو اور نورانی رُخ و فکر کے حامل فرد کے جواب نے میرے اندر ان کی محبت و عقیدت موجزن کر دی ۔اس عقیدت نے ایک دن خانسپور ایوبیہ مری کا رخ کیا ۔جب پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی نے قادیانیت کے رد کے لئے ختم نبوت کورس کا آغاز کیا ۔کورس جہاں علمی ،فکری ،تربیتی و روحانی اعتبار سے اپنے اندر کئی موضوعات سمیٹے ہوئے تھا وہاں ملک کے طول و عرض سے آئے طلباءکو پیر سید محمد اجمل گیلانی کی بلند فکر کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کر رہا تھا۔

معزز قارئین !پیر سید محمد اجمل گیلانی نے کوٹلی میانی میں عظیم دار العلوم کی بنیاد رکھی تو قائد اہلسنت حضرت علامہ امام الشاہ احمد نورانی رحمة اللہ علیہ کو دعوت دے کر علاقہ پر احسان عظیم کیا ۔تنظیمی اعتبار سے آپ نے اپنے شاگردوں کے ذریعے احیائے اہلسنت کےلئے دن رات محنت کی ۔اللہ تعالیٰ نے سید محمد اجمل شاہ گیلانی کو یہ خاص ملکہ عطا فرمایا تھا کہ آپ جس شخص سے ایک بار ملتے وہ صدیوں آپ کی محبتوں کا اسیر بنا رہتا ۔ کسی سے تنظیمی اختلافِ رائے ہوتا تو تحمل و بردباری آپ کا امتیازی وصف تھا ۔کسی عالمِ دین کو مسلکِ اہلسنت کے اصول و ضوابط سے بال برابر بھی ادھر ادھر ہوتا دیکھتے تو اصلاح احوال کےلئے خود تشریف لے جاتے جس کی وجہ سے علاقہ کے علماءآپ کے گرویدہ نظر آتے ہیں ۔مجاہد تحریک ختم نبوت، فاتح مرزائیت حضرت علامہ قاری محمد افضل باجوہ نے جب مرزائی قادیانیوں کا بھر پور تعاقب شروع کیا تو بڑے بڑے علماءبھی مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے مشورہ دیتے کہ حساب کتاب سے کام کریں۔مگر پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی نے قاری محمد افضل باجوہ کی سرپرستی فرمائی اور جانی و مالی معاونت کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ عملی طور پر تحریک فدایان ختم نبوت کا پلیٹ فارم بنا کر کام کو مزید تیز کرنے کا حکم دیا۔ جس کی بدولت علاقہ بھر سے سینکڑوں نامور قادیانی مسلمان ہو گئے ۔اس کا ر خیر کا اجرو ثواب بھی حضرت پیر سیدمحمد اجمل شاہ گیلانی کے حصہ پاک میں وافر موجود ہے ۔

معزز قارئین !سنی اتحاد کونسل بنا تو پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی جو اتحاد اہلسنت کے کئی سالوں سے خواہاں تھے نے شکر خدا وندی ادا کیا ۔ پھر کیا تھا علاقہ علاقہ ،ضلع بہ ضلع اور صوبوں کے دورے شروع کیئے ۔اہلسنت تنظیمات سے رابطے کیئے بلکہ اگر یوں کہوں کے داتا دربار کے سماع ہال میں ہونے والے تحفظ مزارات اولیاءسیمینار کی کامیابی کا سہرا پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی کے سر ہے تو بجا ہو گا ۔دہشت گردی اور بم دھماکوں نے جب مساجد و مزارات اولیاءکا رخ کیا تو قبلہ شاہ صاحب ،تڑپ اُٹھے ۔استحکام پاکستان کی فکر نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا ۔وہ کبھی مینار پاکستان میں سنی کانفرنس اور کبھی استحکام پاکستان کا رواں راولپنڈی ،اسلام آباد تا لاہور منعقد کروا کر پاکستان بنانے والے علماءو مشائخ کے روحانی وارثان کو منظم کرنے کےلئے قائد اہلسنت حاجی محمد فضل کریم چیئرمین سنی اتحاد کونسل کے ہاتھ مضبوط کرنے لگے ۔پیر سید محمد اجمل گیلانی کے شب و روز پاکستان میں نفاذِ نظامِ مصطفےٰ ﷺ کی راہ ہموار کرتے گزر رہے تھے ، اس سال محرم الحرام میں نازنگ کے قریب قبلہ شاہ صاحب کے مریدین نے شہادت امام حسین کانفرنس رکھی تو پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی کی صدارت میں میری تقریر تھی ۔شاہ صاحب نے صدارتی خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے عوامِ اہلسنت کے ضمیروں کو بیدار کیا اورکہا آج ضرورت ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر استحکام پاکستان اور غلبہ حق کے لئے میدان عمل میں نکلا جائے جس طرح تاجدار کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ نکلے تھے ۔آج حجروں مں بیٹھنے کا وقت نہیں ۔رسمِ شبیر ی رضی اللہ عنہ ادا کرنے کا وقت ہے ۔قبلہ شاہ صاحب کی فکر نے پورے اجتماع کا رنگ بدل دیا ۔یقینا حضرت گیلانی صاحب خود بھی اسی فکر پر کاربند تھے۔

معزز قارئین! پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی روایتی خطیب اور رسمی پیر نہیں تھے بلکہ خطابت میں رنگ غوثیت اور پیری و مریدی میں اندازِ مصطفویﷺ کے قائل تھے ۔سید سخی ہوتا ہے تو سخاوت میں بھی بے مثال تھے ۔میں نے آپ کو کبھی اپنی ذات یا جماعت کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے نہیں دیکھا ۔خود تنظیم پر اتنا خرچ کرتے کہ دیگر تنظیمی ساتھی رشک کر تے۔شاید علامہ محمد اقبال نے آپ کےلئے ہی کہا تھا۔
خود دار نہ ہو تو فقر تو ہے قہر الہٰی
ہو صاحب غیرت تو ہے تمہیدامیری

سنی اتحاد کونسل کے معرضِ وجود میں آتے ہی پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی کی ذمہ داریوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ بعض اوقات وہ متفکر ہو جاتے کہ مدرسہ و خانقاہ کے نظام میں عدم توجہ نہ ہو جائے ۔اس طرح تنظیم مدرسہ کو برابر وقت دینے کے قائل تھے ۔

معزز قارئین!میں حیران ہوں کہ میں پیر سید محمد اجمل گیلانی کی تنظیمی خدمات کو ضبط تحریر میں لاﺅں یا تدریسی خدمات کا احاطہ کروں ،انہوں نے نارووال تا مریدکے روڈ پر کوٹلی میانی میں اہلسنت و جماعت کا اکلوتا درسِ نظامی کا مدرسہ قائم کر کے علم دوستی کا مظاہرہ کیا ۔وسائل کی کمی کے پیش نظر بھی درسیات کی تعلیم کا پودا سرسبز و شاداب رکھا ۔نصاب تعلیم و مدارسِ اہلسنت کو جدید تقاضوں سے آراستہ کرنے کےلئے تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صوبائی ناظم اعلیٰ کی ذمہ داریوں کو قبول کیا ۔اہلسنت کے سیاسی کردار کو بام عروج تک پہنچانے کےلئے مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کی اہم ذمہ داریاں اپنے سر لیں ۔اس طرح میدان سیاست ہو یا میدان روحانیت ،تدریس و تعلیم ہو یا تنظیم و خطاب ہر محاذ پر کام کرتے ہوئے دین مصطفویﷺ کا دفاع کرتے ہوئے وہ اچانک گزشتہ دنوں ہمیں داغ جدائی دے کر ٹریفک حادثے میں جامِ شہادت نوش کر گئے بقول شاعر
غم کی چلیں جو آندھیاں باغ اجڑ کر رہ گیا

آپ کی شہادت کی خبر جھنگ میں ملی ۔وقت نیوز کے رپورٹر برادرم محمد ہمایوں نے تصدیق کےلئے ٹیلی فون پر پوچھا کہ مریدکے کے روڈ پر حادثہ ہوا ہے اور کوئی شاہ صاحب میانی کے فوت ہو گئے ہیں کیا یہ درست ہے ؟میں نے کہا پوچھ کر بتاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے لگا کہ یا اللہ ! یہ پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی نہ ہوں کیونکہ انہوں نے تو ابھی اہلسنت کو عوجِ ثریا پر پہنچانا ہے ۔میں نے شاہ صاحب کا نمبر ملایا تو آپ کے درینہ ساتھی علامہ محمد افضل باجوہ نے فون Attendکرتے ہی روتے ہوئے کہا اویسی صاحب ہم یتیم ہو گئے ۔اجمل شاہ صاحب ٹریفک حادثے میں شہید ہو گئے ہیں ۔وقت نیوز کو تو تصدیق کر دی مگر دل نہ مانتا تھا کہ محبتوں کا سفیر اور ایک طلسماتی شخصیت کا حامل فرد اس طرح اچانک جدا ہو جائے گا۔ بس تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑتی ہے ۔میں جھنگ جلسہ معراج النبی ﷺ سے واپس آیا تو کوٹلی میانی میں ہر دلعزیز شخصیت پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی کا جنازہ تھا ۔ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل خون کے آنسو بہا رہا تھا ۔قائدین اہلسنت نے بھی وفا کا حق نبھایا اور عوام اہلسنت نے بھی اپنے محسن کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی کوشش کی ۔اب تو دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقہ سے حضرت شاہ صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں اُن کے مشن کی تکمیل کی توفیق فرمائے !آمین مگر مجھے پیر سید محمد اجمل شاہ گیلانی کی محبتیں تاحیات اُن کی یادوں سے آراستہ کر کے رلاتی رہیں گی اور شاید یہی حال اُن کے دیگر قابل قدر دوستوں کا بھی ہو۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 628490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.