سرکاری میوزکل گیم

2018 میں عمران خان تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کی غرض سے بطور وزیراعظم حلف اٹھاتے ہیں اور حکومت میں آنے سے پہلے بہت بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ ٹیم سلیکٹ کرنی انہیں آتی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی نے اسی ٹیم نہیں دیکھی ہوگی لیکن پونے تین سال میں خان صاحب کے دور حکومت میں جو سب سے بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے وہ چھ بار کابینہ میں کی گئی ہے اور سب سے اہم وزارت خزانہ جس میں چوتھی بار بڑے پیمانے پر تبدیلی کی گئی ہے.

سب سے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر آتے ہیں جن سے آٹھ ماہ بعد وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا جاتا ہے کیونکہ خان صاحب کو ٹیم سلیکٹ کرنی آتی ہے اس کے بعد حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلمدان دیا جاتا ہے اور وہ دو سال تک وزیر خزانہ رہتے ہیں کیونکہ وہ منتخب وزیر نہیں تھے اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تعینات کیے گئے تھے اس لئے خان صاحب نے انہیں اپنی ٹیم میں مستقل رکھنے کے لئے سینیٹر بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے اسلام آباد کی سب سے اہم نشست سے سینٹ کا ٹکٹ جاری کیا گیا اور انہیں سینٹر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا یہاں تک کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرائے جانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ خان صاحب کو اپنی ٹیم کے ضمیر فروش لوگوں کا پتا تھا اور اس کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن 19 سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ یہ فیصلہ دیتی ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوں گے اور حفیظ شیخ کو ٹکٹ دینے پر پارٹی کے اندر سے بہت سے لوگوں نے مخالفت کی اور کہا کہ وہ حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن پھر بھی عمران خان صاحب ان کو سینیٹر بنانے کے لیے بضد تھے اور پھر وہ دن آتا ہے جس دن سینیٹ انتخابات ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے حفیظ شیخ ہار جاتے ہیں کیونکہ پارٹی کے لوگ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیتے ہیں.
اور پھر حفیظ شیخ کو خان صاحب کی طرف سے عہدہ چھوڑنے کا کہا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے اور اس طرح حفیظ شیخ سے بھی قلمدان واپس لے لیا جاتا ہے کیونکہ خان صاحب کو ٹیم سلیکٹ کرنی آتی ہے پھر حماد اظہر کو میدان میں اتارا جاتا ہے لیکن اٹھارہ دن بعد ان سے بھی وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا جاتا ہے اور اب شوکت ترین پر اعتماد کا اظہار کر کے ان کو نیا وزیر خزانہ تعینات کیا گیا ہے اور اس طرح سے سرکاری میوزیکل کھیل جاری و ساری ہے.
جس تیزی سے قلمدان تبدیل کیے جا رہے ہیں اس پر مجھے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کے الفاظ یاد آ گئے کہ میں اتنی تیزی سے دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی تیزی سے پاکستان میں وزیراعظم بدلتے ہیں یہ الفاظ انہوں نے تب کہے جب گورنر جنرل اسکندر مرزا نے 3 سال میں 5 وزرااعظم تبدیل کیے.

پچھلی حکومتوں پر تنقید کرنے والے عمران خان صاحب کی ٹیم میں زیادہ تر لوگ پچھلی حکومتوں کے ہی ہیں نئے منتخب ہونے والے شوکت ترین بھی پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور رینٹل پاور پروجیکٹ کیس میں ان پر نیب کی طرف سے اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام بھی ہے اور نیب نے ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے.

لیکن سوال تو بہت سادہ سا ہے کہ عمران خان نے ایک نیب زدہ شخص کو وزیر خزانہ کا قلمدان کیوں دیا؟ شوکت ترین جنہوں نے نیب کیسز کا فیصلہ ہونے تک عہدہ قبول نہ کرنے کا کہا تھا اچانک کیسے قبول کر لیا؟ عمران خان صاحب کہتے تھے کہ میری ٹیم کے اندر کئی پرانے ہو گئے لیکن اکثریت اس قوم کے نوجوان ہوں گئے البتہ نوجوان تو کہیں نظر نہیں آ رہے کیونکہ عمران خان صاحب پرانے چہروں کے ذریعے تبدیلی لانے پر بضد ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ شوکت ترین بطور وزیر خزانہ پرفوم کر پائیں گے یا کچھ ماہ بعد وہ بھی تبدیلی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے کیونکہ خان صاحب کو ٹیم سلیکٹ کرنی انہیں آتی ہے.
 

SAMRA FATIMA
About the Author: SAMRA FATIMA Read More Articles by SAMRA FATIMA: 4 Articles with 4401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.