کروسیڈ انسانی تاریخ کی دیوانی ترین اور طویل ترین جنگ ہے
جس میں عیسائی مغرب وحشی مذہبی جنون کیساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ صلیب
کے نام پر اور چرچ کے تحفظ کے سائے تلے ہر گناہ کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ گبن
کیمطابق ’’صلیبیوں کی تیسری لہر جو ایک جرمن پادری کی سپہ سالاری میں اٹھی
انسانوں کے احمق ترین اور درندگی کے مارے ہوئے بدترین حصے پر مشتمل تھی۔
اپنی مذہبی عقیدت مندی کیساتھ انہوں نے شراب‘ قحبہ گری اور زنا کی کھلی
چھوٹ کی آمیزش کر رکھی تھی۔ وہ جہاں سے گزرے وہاں بے حیائی‘ لوٹ مار‘ قتل و
غارت گری کی داستانیں چھوڑ گئے‘‘۔
مِل جوکہ ایک عیسائی مؤرخ ہے وہ صلیبی فتوحات پر لکھتے ہوئے انکی درندگی
بیان کرتا ہے کہ کس طرح فتح کیساتھ درندگی کا وہ بازار گرم ہوا کہ چنگیز
اور ہلاکو کی بربریت ماند پڑ گئی۔ مسلمان قیدیوں کے گوشت کو سیخوں سے چڑھا
کر بھونا گیا۔ وہ کہتا ہے۔ ’’صلیبیوں نے نہ بڑی عمر کا احترام کیا نہ
نوعمری کی بیچارگی پر پسیجے۔ نہ صنفِ نازک کی نزاکت کا ذرہ برابر خیال رکھا۔
گھروں کا تقدس پامال ہوا۔ مساجد تو انکے مظالم میں بے پناہ اضافے کیلئے
مہمیز کا کام دیتی تھیں۔ شام کے پھلتے پھولتے آباد شہر تاخت و تاراج کئے۔
آبادیاں بے رحمی سے ذبح کیں۔ علم و فن کے نادر خزانے جلا کر خاک کئے۔ شام
کی عالمی شہرت یافتہ لائبریری جس میں تیس لاکھ کتب شامل تھیں جلا ڈالی گئیں۔
گلیوں میں بے محابا خون بہایا گیا یہاں تک کہ خونخواری خود تھک کر چور ہو
گئی‘ جو خوبصورت اور قوی جوان تھے صرف انکو غلاموں کی منڈی کیلئے بچا لیا
گیا‘‘۔ فرانسیسی مؤرخ Mi Chaud کیمطابق ’’یروشلم کی فتح کے موقع پر مسلمان
گھروں‘ گلیوں‘ سڑکوں پر ذبح کئے گئے۔ ان کیلئے کہیں اماں نہ تھی۔ چہار جانب
موت کی بھیانک آوازوں‘ کراہوں‘ چیخوں اور اذیت ناک مناظر کے سوا کچھ نہ تھا۔
لاشوں کے ڈھیر فاتحین کے قدموں تلے‘ گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہوئے۔ گھٹنوں
گھٹنوں خون مسجدِ عمر کے صحن میں تھا۔ مختصر وقفہ صرف شکرانے کی دعا کیلئے
ہوا جسکے بعد وحشت و درندگی دوبارہ ٹوٹ پڑی‘‘۔
ان احوال کی روشنی میں 21ویں صدی کا امریکہ برطانیہ جرمنی فرانس‘ یورپ کا
ہر چھوٹا بڑا ملک اور عراق افغانستان میں انکی جانب سے توڑے جانیوالے مظالم
کا حال پڑھ لیجئے۔ باوجودیکہ ذرائع ابلاغ کی آنکھ سے اصل حقائق اب بھی
اوجھل ہیں۔ افغانستان میں کنٹینروں میں زندہ درگور کئے جانیوالے مجاہدین جن
کیلئے امریکہ بہادر کا حکم یہ تھا کہ اسلحہ ضائع نہ کرو گولیوں کے بغیر مر
جانے دو۔ بعد ازاں اجتماعی قبروں میں زندہ‘ مردہ کی تفریق کئے بغیر
کنٹینروں کے منہ کھول کر قبریں بند کر دی گئی تھیں۔ باگرام اور گوانتانامو
میں جو ایک حربہ 21ویں صدی کی روشن خیالی کا مکروہ چہرہ سامنے لاتا ہے وہ
ایسا ہے جو تاریخ انسانیت میں کبھی کسی کو نہ سوجھا۔ اسکی ناقابلِ بیان
تفصیل خود انہی کے صحافیوں کے ہاتھوں دنیا تک پہنچی ہیں‘ جن میں سے ایک
’’گوانتانامو چائلڈ‘‘ نامی کتاب میں درج ہے جو 15 سالہ مصری بچے عمر خدر کی
کہانی ہے جو سات سال سے کم عمری سے جوانی کا سفر اس زندان خانے میں طے کر
رہا ہے۔ اس میں ایک پاکباز 21 سالہ سعودی نوجوان کو ایک امریکی تفتیش کار
عورت جس طرح ہراساں کرتی ہے وہ اس بندۂ مومن کی پاکبازی اور اُس خبیثہ کی
مکروہ گندی ذہنیت کا ایک دلخراش عکس ہے جسے مہذب معاشرہ اردو میں تحریر
کرنا بھی گوار ا نہیں کر سکتا۔ انگریزی زبان ہی اسکی متحمل ہو سکتی ہے۔
عافیہ صدیقی کیساتھ روا رکھے جانے والا سلوک‘ گوانتانامو میں قید 12 بچے
باگرام میں 150 بچے اور مزید چار خواتین۔ ابوغریب کی ان گنت مسلمان بیٹیوں
میں سے فاطمہ اور نور کے احوال جو بمشکل تمام جیل سے باہر کی دنیا تک آ
پائے۔ افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی دردناک داستان‘ صلیبی اور انکے
غلاموں کی شرمناک درندگی جو ’’دہشت گردی کیخلاف جنگ‘‘ کے نام پر آٹھ سالوں
سے مسلم امت پر قہر برساتی رہی۔ ان گنت لاپتہ نوجوان جو صلیبی آقائوں کی
خوشنودی کیلئے شیردل سپاہ کے زندان خانوں کا چارہ بن گئے۔ اچھا ہوا کہ
’’لائن ہارٹ‘‘ کے نامِ نامی نے بالآخر نقاب الٹ دیا۔ اسکے پیچھے سے صلیبی
عفریت اور اسکی ذریت اپنی تمامتر خونخواری کیساتھ جھانک رہی ہے… کیا اب بھی
صلاح الدین کو پہچان لینے کا وقت نہیں ان کے بغیر ذکر کیے
صلیبی جنگوں کا تذکرہ نامکمل ہے۔ جب تک وہ اسلامی تاریخ کا جگمگاتا ہیرا جس
کا نام یوسف صلاح الدین ایوبی ہے سامنے نہ آئے۔ لازم ہے کہ صلیبی معرکوں
میں تصویر کا دوسرا رُخ بھی پیشِ نظر رہے۔
تکریت کے قلعہ دار نجم الدین ایوب کے ہاں 1138ء میں پیدا ہونیوالا یوسف
صلاح الدین اپنے والد اور چچا اسدالدین شیرکوہ (نورالدین کی افواج کا سپہ
سالار) کیساتھ سلطان نورالدین زنگی کی خدمت میں پیش ہوتا تھا۔ شرافت‘ شجاعت
کا یہ پیکر نورالدین زنگی کی صلیبیوں کیساتھ شدید کشمکش کے دور میں جوان
ہوا۔ اسکے سوانح نگار بہاء الدین کیمطابق: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ
اسکے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا۔ یہی ذکر اسکی زبان پر ہوتا۔ کوئی چیز
اگر اسکے خیالات اور سوچ بچار کا مرکز تھی تو وہ جنگی ہتھیار تھے۔ وہ لوگوں
کو جہاد میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا‘‘۔
پہلی مرتبہ وہ مصر کی مہم میں نمودار ہوا جسکے بعد وہ ایسا روشن ستارا بن
گیا جس کے سامنے بڑے بڑے جرنیلوں اور فاتحین کی عظمت ماند پڑ گئی۔ فاطمی
خلافت کی بساط اسکے ہاتھوں لپیٹی گئی۔ فاطمی ایک طرف صلیبی یلغار کی وجہ
بنے‘ دوسری جانب اس نے بیت المقدس کے دفاع سے المناک حد تک غفلت برتی۔ بعد
ازاں مسلسل صلیبیوں کو اقتصادی وسائل تک مہیا کئے ان کی تائید و حمایت میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ صلاح الدین نے مصر کو مضبوط فوجی قوت بنایا۔ چند
برس کے اندر اندر شام‘ حجاز‘ عراق‘ یمن کو ایک متحدہ قوت میں بدل دیا اور
پوری قوت کیساتھ صلیبیوں کے مدِ مقابل آ کھڑا ہوا۔ جہاد و قتال کا یہ تمام
وقت صلاح الدین نے میدانوں میں آرام و راحت تج کر گزارا۔ قاضی بہاء الدین
کہتے ہیں کہ صلیبیوں کیساتھ جنگ چھڑنے کے بعد صلاح الدین نے ایک پیسہ بھی
جہاد اور مجاہدین کی امداد و اعانت کے سوا کسی اور مصرف پر نہیں لگایا۔ (نہ
وزیروں کی فوجِ ظفر موج‘ نہ بیرونی دوروں کی عیاشیاں‘ نہ ٹھاٹ باٹھ!)۔مختلف
چھوٹے بڑے معرکوں کے بعد حِطّین کی فیصلہ کن جنگ ہوئی جس نے فلسطین کی
صلیبی سلطنت ختم کر دی۔ جولائی 1187ء میں آگے بڑھے۔ قصہ مختصر یہ کہ جنگی
تکنیک‘ منصوبہ بندی‘ تائید الٰہی سبھی نے صلاح الدین کی مدد کی۔ آگ برساتی
گرمی میں پانی سے محروم صلیبی فوج مسلمانوں کی شجاعت اور ثابت قدمی کے آگے
ڈھیر ہو گئی۔ صفیں الٹ گئیں مقدس صلیب سرنگوں ہو گئی۔ بے شمار بھاگتے صلیبی
تلواروں کا چارہ بن گئے۔ ہزاروں گرفتار ہوئے۔ جن میں صلیبی لشکر کے سرداروں
کی بڑی تعداد تھی۔ یروشلم کا بادشاہ گائی اور مسلمانوں کے حق میں نہایت
موذی ’’شاتمِ رسول رینالڈ‘‘ دیگر مسیحی اشراف و اعوان کیساتھ شامل تھا۔
رینالڈ حامیوں کے کارواں لوٹتا‘ مسلمان عورتوں بچوں کو قید اور غیر مسلح
لوگوں کو بے دریغ قتل کرتا بار بار عہد شکنی کا مرتکب ہوتا۔ یہاں تک کہ
حرمینِ شریفین کو فتح کرنے اور کعبتہ اللہ کو لوٹنے کے ارادے سے اُس نے
بحری بری فوجیں روانہ کی تھیں جس پر سلطان نے فوراً بحری بری فوجی دستے
روانہ کئے اور چن چن کر ایک ایک کو قتل کیا۔ اگلے سال رینالڈ دوبارہ مدینے
پر حملے کو نکلا۔ سپاہی تمام مسلمانوں کے ہاتھوں تہِ تیغ ہوئے یہ خود بچ
نکلا۔ تاجروں کے ایک بڑے قافلے اور حاجیوں کے قافلے کو لوٹا۔ انکی فریاد پر
کہا ’’کہاں ہیں تمہارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں بلائو مدد
کیلئے اور بہت سے حاجی شہید کر دئیے۔ اس پر سلطان صلاح الدین نے عزم کیا کہ
وہ اس شخص کو اپنے ہاتھ سے قتل کریگا۔
حطین کے معرکے میں فتح کے بعد سلطان نے دربار منعقد کیا۔ عیسائی امراء پیش
کئے گئے۔ بادشاہ گائی ہیبت سے کانپ رہا تھا۔ سلطان نے اس سے نرمی اور عزت
کا سلوک کرتے ہوئے اُسے پینے کو ٹھنڈا پانی دیا۔ بادشاہ نے بچا ہوا پانی
رینالڈ کو دے دیا تو سلطان نے ٹوک کر کہا یہ پانی تم نے دیا ہے میں نہیں
دیتا۔ یہ رینالڈ کیلئے اعلان تھا کہ کوئی نرمی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
سلطان نے گرج کر رینالڈ کو اُس کا طعنہ یاد دلایا اور بولا۔ ’’میں ہوں جو
تمہارے مقابلے پر ناموسِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دفاع کروں گا‘‘۔
ایک مہلت اُسے اسلام قبول کرنے کی (پھر بھی) دی گئی۔ اُس نے انکار کیا اور
سلطان نے تلوار نکال کر اس کا کام تمام کر دیا۔ بادشاہ گائی خوفزدہ ہو گیا
تو سلطان نے تسلی دی کہ ’’بادشاہ بادشاہوں کو قتل نہیں کرتے لیکن یہ شخص
شرافت کی تمام حدوں سے تجاوز کر گیا تھا‘‘۔ (یہ ہے ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ
کا طریقہ!) گرفتار شدہ امراء کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا اور انہیں دمشق
پہنچا دیا گیا۔ حطین کی فتح صلاح الدین کی جہاد سے بھرپور زندگی کی سب سے
بڑی فتح تھی۔ جس کے بعد سیلاب کی طرح پورے ملک میں اسلامی فوج پھیل گئی اور
محض دو ماہ میں وہ تمام علاقے جو عیسائیوں نے پوری صدی جنگیں لڑ کر لاکھوں
کا خون بہا کر حاصل کئے تھے‘ واپس فتح کر لئے۔ 8 جولائی 1187ء کو عکہ کی
جامع مسجد جسے گرجا بنا دیا گیا تھا اس میں 90 برس بعد پہلی نماز جمعہ تھی
جو مسلمانوں نے فلسطین میں پڑھی۔ اب بیت المقدس کو صلیبیوں سے چھڑانے کا
مرحلہ درپیش تھا جسکی خاطر وہ 18 برس سے خیموں میں جہاد کی زندگی گزار رہا
تھا۔ 20 ستمبر 1187ء کو وہ بیت المقدس کے سامنے کھڑا تھا۔ مسلمان قلعے کی
فصیلوں میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان جانباز تیروں کی بوچھاڑ
میں شہر میں داخل ہو گئے۔ اب عیسائیوں کے ہاتھ پائوں پھولے اور امان طلب
کرنے لگے۔ اسی خدا کے نام پر جس کی مخلوق پر 91 برس قبل ظلم کے پہاڑ توڑے
گئے تھے۔ سلطان اسکے برعکس انسانی عظمت کی اُن بلندیوں پر نظر آتا ہے کہ
عیسائی مورخ لین پول بھی عش عش کر اٹھتا ہے۔ وہ موازنہ پیش کرتا ہے 1099ء
میں صلیبی فتح کا اس فتح سے۔ کہاں وہ درندگی کہ مقدس شہر مقتل بن گیا اور
کہاں یہ عالی ظرفی‘ دریا دلی اور کردار کی عظمت کہ عیسائیوں سے بدسلوکی کا
ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پادری‘ ملکہ‘ عام انسان سبھی اپنے مال اسباب‘
ساز و سامان اسلحہ اٹھائے شہر سے امن سے رخصت ہو رہے تھے۔ گرجا گھر کے بیش
قیمت زیورات اور خزانے‘ ملکہ کی بے شمار دولت و مال اسباب سمیت انہیں سلطان
نے خود رخصت کیا۔ برائے نام تاوان جو عائد کیا گیا تھا وہ بھی دس ہزار غریب
شہری جب ادا نہ کر سکے تو سلطان نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ حتٰی کہ روتی
پیٹتی عیسائی عورتوں نے جب فریاد کی تو سلطان نے ان کے شوہر‘ بیٹے‘ بھائی
رہا کر دئیے۔ یہ ہے اُس دور کے دہشت گرد کا حسین روپ۔ اُس میں ’’دہشت گرد‘‘
ہونے کے تمام اوصاف موجود تھے۔ جہاد کا دیوانہ‘ داڑھی‘ سنتِ نبویؐ کا عملی
پیکر‘ کفر کے خلاف صف آراء اور صلیبی کردار بھی عین وہی کل تھا جو آج ہے۔
بیت المقدس کی فتح کا حسنِ اتفاق یہ ہے کہ مسلمان بیت المقدس میں داخل ہوئے
اور وہ شبِ معراج تھی۔ نوے برس بعد بیت المقدس کی آزاد فضا میں اذان گونجی
اور نمازِ جمعہ بھی پڑھی گئی…! وہ شبِ معراج دوبارہ کب آئے گی…؟ جب آج کے
’’شیردل‘‘ اپنا مقام‘ اپنا سپہ سالار اپنا لشکر پہچان جائیں گے۔
آخری صلیبی معرکہ رچرڈ لائن ہارٹ کے ہمراہ آنے والی فوج کے ساتھ تیسری
صلیبی جنگ کی صورت میں ہوا۔ صلاح الدین ایک مرتبہ پھر ایک سیلاب کے سامنے
ڈٹ گیا۔ پانچ برس خون آشام جنگیں ہوتی رہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صلیبی
بیت المقدس کے سامنے پہنچ گئے۔ سلطان نے ہمت نہ ہاری اور انتہائی کٹھن
حالات میں وہ سہارا کام آیا جو کبھی نہ ٹوٹنے چھوٹنے والا ہے۔ لین پول کے
الفاظ ’اگلے روز جمعہ تھا۔ صلاح الدین نے فجر کی نماز بڑے خشوع و خضوع سے
پڑھی۔ دیر تک سجدے میں پڑا رہا قالین اس کے آنسوئوں سے تر ہو گیا۔‘ صلیبیوں
کے لشکر میں اختلافِ رائے پیدا ہو گیا۔ یروشلم کی جانب پیشقدمی کا ارادہ
ترک کر کے قاہرہ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ ہوا جو 250 میل دور تھا۔ صلاح
الدین کی دعا سنی گئی۔ مقدس شہر بچ گیا۔
مسلسل 5 برس کی جنگوں کے بعد 3 ستمبر 1192ء کو معاہدہ طے پایا۔ اس جنگ میں
مسیحی دنیا کی مجموعی طاقت مقابلے پر آئی مگر یروشلم پر قبضے کی حسرت لئے
لوٹ گئی۔ ایک پتلی سی ساحلی پٹی کے سوا پورا ملک مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔
سلطان صلاح الدین راسخ العقیدہ بندۂ مومن‘
علامہ اقبالؒ کے حسین اشعار کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات
ہر دوجہاں سے غنی اسکا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگاہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک جان
اسکی پوری زندگی سادگی اور زہد کا مرقع تھی۔ جاہ و حشم شان و شوکت سے کوئی
دلچسپی نہ تھی (نہ فارم ہائوس‘ نہ محل محلات) ایک مرتبہ اسکے لئے دمشق میں
ایک خوبصورت گنبد والی عمارت تعمیر کی گئی۔ دیکھا تو سرسری ڈال کر کہا۔
’’ہمیں ہمیشہ یہاں نہیں رہنا۔ جس شخص کو مر جانا ہے اُسے ایسے مکان سے کیا
سروکار؟ ہم تو دنیا میں اللہ کی بندگی کے لئے آئے ہیں‘۔ اپنی وفات کے وقت
وہ محض 47 درہم اور ایک دینار کا مالک تھا۔ زندگی بھر کبھی اتنا مال جمع نہ
ہوا جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی! علماء فضلاء کی مجلس کو پسند کرتا۔ فرائض کی
ادائیگی میں سختی برتتا۔ قرآن مجید سنتا تو خوب روتا۔ خشوع و خضوع میں ڈوب
کر اللہ سے نصرت و امداد کی دعائیں کیا کرتا۔ داڑھی اور جائے نماز آنسوئوں
سے تر ہو جاتی۔ یہ ہے کفر سے نمٹنے کی قوت کا سرچشمہ!
4 مارچ 1193ء میں 61 برس کی عمر میں اسکے انتقال پر امت غم سے نڈھال ہو
گئے۔ بقول قاضی بہاء الدین کے۔ ’خلفائے راشدین کے بعد اسلام اور اہل اسلام
ایسے غم سے کبھی دوچار نہ ہوئے تھے‘۔ صلاح الدین کے کردار کی ضو اتنی ہے کہ
بدترین دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہے۔ اُدھر رچرڈ کے بارے میں جو کچھ لکھا
گیا وہ بھی عیسائی مورخین ہی نے لکھا! ملک و ملت کی بقا کیلئے تاریخ کا
مطالبعہ ازبس لازم ہے۔ آقائوں کے نظامِ تعلیم کی درستگی تک یہ والدین اور
دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو تاریخ پڑھائیں۔ اپنی شناخت
دیں … وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ! تبلیغی نصاب‘ تفہیم
القرآن‘ معارف القرآن کے ساتھ مطالعہ تاریخ اور اقبالؒ شامل کریں۔ جو قومیں
اپنی تاریخ یاد نہیں رکھتیں وہ اپنے جغرافیے کی بھی حفاظت نہیں کر سکتیں۔
آدھا جغرافیہ کھو بیٹھے ہیں۔ سنبھل جائیے۔ آج صلیبی معرکے اپنے جوبن پر
ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ سلطان صلاح الدین کی صفات تلاش کر لی
جائیں۔ وہ جس گروہ میں موجود ہوں۔ جو مٹھی بھر ہو کر بھی صلیبیوں کے خلاف
اسی انداز سے دنیا تج کر جہاد کے معرکے لڑ رہا ہو۔ امت اس کے پیچھے صف آراء
ہو جائے۔ تارِ عنکبوت کی طرح۔ لائن ہارٹ کا لشکر آج بھی چھٹ سکتا ہے۔
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا
|