عالمی سیاست کے فرماں روا ۔ یہ کتاب جناب اشرف جاوید
کے نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے تجزیوں پر مشتمل ہے ۔جس
میں انہوں نے مختلف قومی اور بین الاقومی موضوعات پر نہایت مدلل دلائل کے
ساتھ نہ صرف پرمغز تجزیئے کیے ہیں ۔ مستقبل میں پیش آنے والے حالات کی جانب
توجہ بھی دلائی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ دنیا جس قدر تیزی سے تبدیل ہورہی ہے
اورجس طرح عجلت کے ساتھ سیاسی منظرنامے فلمی سین کی طرح آنکھوں کے سامنے
بھاگتے نظر آرہے ہیں ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں حکمران طبقات اور
مقتدر قوتیں بہت جلد اپنے اپنے ملکی مفادات کی اشتراکی قدروں کے استحکام کے
لیے نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گی بلکہ یہ ممالک اپنے تحفظات اور
مفادات کی نگرانی کے لیے بھی سرگرم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔مصنف مزید
لکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ایک تکون بنتی دیکھی جاسکتی ہے اس تکون میں
امریکہ ،روس اور چین شامل ہیں ۔18مارچ 2018ء کو روس میں الیکشن ہوئے تو
ولادی پیوٹن کو بھاری اکثریت سے روس کا صدرمنتخب کرلیا گیا،یوں محسوس ہوتا
ہے کہ وہ بھی چین کی طرح تاحیات صدر بن جائیں گے۔ ،دوسری جانب عوامی
جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کو تاحیات صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔
بہرکیف مصنف نے جن پیش آمدہ عوامل کی جانب توجہ دلائی ہے وہ اپنی جگہ قابل
غورو فکر ہیں لیکن پاکستان کے حالات ان بڑی قوتوں سے یکسر مختلف ہیں ۔ابتدا
ہی سے یہاں سیاسی استحکام دیکھنے کو نہیں ملا۔اول توآدھے سے زائد عرصہ فوجی
حکومتیں اقتدار پرقابض رہی ہیں جو عرصہ جمہوری حکومتوں کو ملا وہ بھی باہمی
رسہ کشی اور کشمکش کا اس قدر شکار رہا کہ برسراقتدار آنے والی کوئی سیاسی
جماعت قابل ذکر کردارادا نہیں کرسکی ۔پاکستانی سیاست دانوں میں ایک اور
خامی یہ بھی ہے کہ جب بھی انہیں اقتدار ملتاہے تو وہ ملک کی ترقی کو مستحکم
بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں ہی مصروف عمل
ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کی حکومت ختم ہوتی ہے تو اس
جماعت کو پے درپے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اور جو سیاسی جماعت
اقتدارمیں آتی ہے ،میڈیا اور انتظامی ادارے تمام تقاضوں کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے اس کی غلامی اور چاپلوسی کی انتہاء کردیتے ہیں۔مصنف نے اس کتاب
میں جن پیش آمدہ مسائل کی جانب توجہ دلائی ہے ،میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل
میں پاکستان میں کوئی اچھی تبدیلی آسکتی ہے ۔عمران خان، ذوالفقار علی بھٹو
کی طرح ایک انقلابی رہنما کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے تھے لیکن ان کی
ناکام پالیسیوں اور نا تجربہ کارساتھیوں کی بدولت حالات بہتری کی بجائے ایک
اندھیری گلی میں داخل ہوتے جا رہے ہیں ۔
بہرکیف تاریخ نویسی او رکالم نگاری کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک ہر باشعور
محب وطن اور تعلیم یافتہ شخص کو ہونا چاہیے ۔جسے حالات حاضرہ اور عالمی سطح
کے منظر نامے سے نہ صرف دلچسپی ہو بلکہ اس کے اثرات اور خطرات سے نبردآزما
ہونے کا خیال بھی دل اور دماغ کروٹیں لیتا ہو ۔چند کالم نگار ایسے بھی ہیں
جو اپنے کالم میں میعاری نثر سے قاری کے د ل میں مستقل جگہ بنا لیتے ہیں
۔ایسے ہی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں میں جناب اشرف جاوید شامل ہیں
۔اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے کالم میں موضوع اور اسلوب دونوں
میں اپنی مثال آپ ہیں ۔انہوں نے بہ یک وقت کئی تخلیقی محاذ کھول رکھے ہیں
۔وہ شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی ۔نقاد اور دانش مندی کے اعتبار سے بھی انہیں
پاکستانی معاشرے میں اہم مقام حاصل ہے ۔اشرف جاوید نے سیاسی کروٹوں میں
چھپے ہوئے حقائق کو غیر جانب داری کے ساتھ طشت ازبام کیا ہے ۔
اشرف جاوید کی زیرنظر کتا ب میں بین الاقوامی نوعیت کے تیس مضامین شامل ہیں
۔ان کالموں میں23مارچ 1940۔پاکستان اور نوائے وقت کا جنم دن ،مردم شماری
اورچند تاریخی حقائق ،اسلامی فوجی اتحاد اور جنرل راحیل شریف کا تقرر
،کلبھوشن کی سزا ئے موت اور بھارتی ماتم ، پانامہ لیکس کا فیصلہ اور عوامی
خدشات ،شام پر امریکی حملہ اور امت مسلمہ کا کردار ،بلوچستان پھر لہولہان
،خلیجی بحران اور عالمی طاقتیں ،عالمی سیاست کے فرماں روا ،زینب کا بہیمانہ
قتل اور سیاسی دکان داریاں ، ٹرمپ کی دھمکیاں اور جنرل باجوہ کا استقلال،
سیاسی کروٹیں اور الیکشن 2018ء ،بدلتا ہوا سعودی عرب ،سانحہ پشاورکی یاد
میں ،ایک اور بڑا فیصلہ ۔عمران خان اہل قرار پا گیا۔وغیرہ شامل ہیں ۔سب سے
پہلے ہم پاناما لیکس کا فیصلہ اور عوامی خدشات والے مضمون کو دیکھتے ہیں
۔اشرف جاوید لکھتے ہیں مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب اور ذرا آگے
چل کر عمربن عبد العزیز کی مثالیں اسلامی تاریخ کا روشن باب ہیں کہ یہ
دونوں حضرات سرکاری مہمان داری کے وقت چراغ روشن رکھتے تھے اور ذاتی مہمانو
ں کی آمد پر سرکاری تیل سے جلنے والا چراغ گل کردیتے تھے کہ حکومتی خزانے
کا اصراف نہ ہو اور ملکی وسائل کی حفاظت ممکن ہو سکے اور اپنے لیے کم سے کم
اعزازیہ مقرر کرتے تھے ۔کہنے کو پاکستان میں قائم شدہ حکومت اسلامی جمہوری
اصولوں پر استوار ہے اور یہاں کے حکمران بھی مسلمان ہیں لیکن افسوس کہ ہم
مسلمانی کی کسی کمزور سطح پر سانس لے رہے ہیں ۔
مصنف کتاب اشرف جاوید مزید لکھتے ہیں" کہ 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت
بنی ۔جو اپنے قیام ہی سے مخالفین کے دباؤ کا شکار رہی لیکن معاملات کسی حد
تک چلتے ہی رہے لیکن جب پانالیکس کا سیکنڈل منظر عام پر آیا تواس میں نواز
شریف کے خاندان کا نام شامل تھا ،عمران خان نے پاناما لیکس سیکنڈل میں نام
آنے کی وجہ سے نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ
وزیراعظم کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز کردیا، پھر تمام آپشن ناکام ہوتے
دیکھ کر 2نومبر 2016ء کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کردیا ۔اس سے قبل
تحریک انصاف پاناما لیکس کے خلا ف وزیراعظم کی نااہلی کے لیے درخواست سپریم
کورٹ میں دائر کرچکی تھی ۔2نومبر آتے آتے حکومت اور تحریک انصاف کے کارکنوں
کے درمیان تصادم کی کئی صورتیں نمایاں ہونے لگیں ۔اس سے پہلے کہ صورت حال
نو ٹرن پر پہنچ جاتی ۔سپریم کورٹ نے یہ کام اپنے ذمہ لیتے ہوئے تحریک انصاف
کی دائرہ کردہ پٹیشن پر مقدمے کے آغاز کا اعلان کردیا ۔ اس طرح عمران
کو2نومبر کی کال ملتوی کرنے یا موخر کرنے پر مجبور کردیا ۔یہ بہت
دانشمندانہ فیصلہ تھا جو سپریم کورٹ نے بروقت کیا ۔اور حکومت اور عمران خان
کے مابین ہونے والے ممکنہ تصادم کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔سپریم کورٹ میں
جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے بھی درخواستیں دائر کررکھی تھیں ،مقصد تینوں
پارٹیوں کا ایک ہی تھا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے ۔چیف جسٹس انور
ظہیر جمالی کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کا آغا ز ہو ا۔دسمبر 2016ء
میں چیف جسٹس کی ملازمت کی مدت ختم ہورہی تھی ،اس لیے مقدمے کی باقاعدہ
سماعت جنوری 2017ء تک موخرکردی گئی اور مختصر فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا
گیا کہ اس کے لیے نیا بینچ بھی تشکیل دیا جائے گا۔جب جسٹس ثاقب نثار نے چیف
جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور نیا بینچ تشکیل دے دیا تو انہوں نے بھی خود کو اس
مقدمے کی سماعت سے الگ رکھا ۔نیا بینچ جسٹس سعید آصف کھوسہ کی سربراہی میں
بنا جس میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز
الاحسن شامل تھے۔اس بینچ نے کوئی 20مختلف سماعتوں کے بعد 23فروری 2017ء کو
اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا اور 20اپریل 2017ء بروز جمعرات دو بجے دوپہر
اس فیصلے کا اعلان کردیا ۔فیصلے کو رو سے وزیراعظم میاں نواز شریف کی
نااہلی وقتی طور پر موخر کر دی گئی ۔یہ فیصلہ 3/2کی اکثریت سے سنایا گیا،
ہر جج نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ یہ فیصلہ 540صفحات پر مشتمل تھا ۔دو جج
صاحبان نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے
،کیونکہ اس کے بیانات اور کردار میں توازن نہیں رہا۔اس نے پارلیمان میں کچھ
بیان دیا اور عدالت میں اس کے وکیل نے بالکل مختلف بات کی ہے ۔ جبکہ باقی
تین ججوں نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا اورکہا کہ وزیراعظم کے صادق اور
امین ہونے کا حتمی فیصلہ بھی جے آئی ٹی ہی کرے گی ۔یہاں تک مصنف نے صورت
حال کا تجزیہ تو پیش کیا لیکن جے آئی ٹی کے فیصلے کا اس کتاب میں تذکرہ
موجود نہیں ہے "۔
*****************
جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نواز شریف وزیراعظم کے عہدے
کے لیے نااہل قراردے دیا ۔یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ عمران خان ، شیخ
رشید اور جماعت اسلامی نے باہم مل کر نواز شریف کو تو اقتدار سے یہ کہتے
ہوئے اتار دیا کہ جس دن نواز شریف حکومت چھوڑے گا اسی دن پاکستان ترقی کی
منزلیں طے کرتا آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جائے ۔تجزیہ نگار نے جو تجزیہ کیا
وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اس وقت جب نواز شریف اور اس کی حکومت قصہ پارینہ
ہوچکی ہے اور عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالے ہوئے پونے تین سال
ہوچکے ہیں ۔عوام الناس اس بات کا تجزیہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران اور
ان کے اتحادی جو تمام جرائم اور مسائل کا ذمہ نواز شریف کو قرار دیا کرتے
تھے آج انہی لوگوں نے اقتدار ملنے کے بعد پاکستان کو کھربوں روپے کا نہ صرف
مقروض کردیا ہے بلکہ ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کیا ہے کہ
پاکستانی کرنسی افغانستان اور نیپال جیسے کمترین ملک سے بھی کمتر ہوچکی ہے
۔وہ عمران خان جو پاکستان کو نواز شریف کے بغیر دنیا کا ترقی یافتہ ملک
بنانے کا اٹھتے بیٹھتے دعوی کیا کرتے تھے آج اسی عمران کو پاکستانی قوم
جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہے ۔پٹرول کی قیمت ہو یا بجلی کے
ریٹس ۔موجودہ حکومت نے آتے ہی عوام کو کند چھری سے ذبح کردیا ہے ۔عمران
اپوزیشن میں تھے تو بجلی کے بلوں کو آگ لگا یا کرتے تھے ،بیرون ملک
پاکستانیوں اپنا سرمایہ پاکستان نہ بھیجنے کی تاکید کیا کرتے تھے آج وہی
عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ بجھوانے کے لیے ڈبل منافع دیا جا
رہا ہیے جبکہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے لیے بنک کا منافع اس حد تک کم
کردیا ہے کہ سفید پوش لوگ بھی خیرات مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔وہی عمران
خان جو کل آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خود کشی کرنے کا نعرہ لگایا
کرتے تھے اپنے دور اقتدار میں نہ صرف سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف
کا غلام اور تابعدار بنانے کے لیے ورکنگ کررہے ہیں بلکہ آئی ایم ایف کے
کہنے پر مہینے میں چار پانچ مرتبہ بجلی کے ریٹس میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے
۔وہ ادویات جو اس ٹینشن زدہ ماحول میں ہر شخص زندہ رہنے کے لیے کھانے بر
مجبور ہے، ان ادویات کے ریٹس اس قدر بڑھا دیئے گئے ہیں کہ جو میڈیسن پہلے
پانچ سو میں ملتی تھی وہ اب بارہ سو روپے میں مل رہی ہے ۔یہی عالم پٹرول کی
قیمتوں کا ہے جنہیں 68روپے سے 112روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے ۔وہ آٹا جو
پینتیس روپے کلو آسانی سے مل جاتا تھا آج وہی آٹا 80 روپے کردیا گیا گھی
چاول اور دیگر اشیائے خورد ونوش عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا چکی
ہیں۔سبزیاں اور پھل کھانے کا تو اب تصور بھی مشکل ہوتا جارہا ہے ۔یہ اس
عمران خان اور شیخ رشید کے دور اقتدار میں ہوا ہے جو نواز شریف کی دشمنی
میں اس حد تک آگے جا چکے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کے اقتدار
سے اترتے ہی دود ھ کی نہریں بہنے لگیں گی ۔ لیکن افسوس ہوا اس کے بالکل
برعکس ۔ معافی چاہتا ہوں بات کچھ لمبی ہوگئی لیکن ایک چیز کی جانب میں
تجزیہ نگاروں کی توجہ دلانہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی شخصیت یا سیاسی
جماعت کا تجزیہ کر تے وقت مستقبل پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔یہ میری ذاتی
رائے ہے کہ اگر نواز شریف کو اس وقت وزارت عظمی سے نہ ہٹا جاتا تو آج
پاکستان نہ تو آئی ایم ایف کا غلام ہوتا اور نہ ہی مہنگائی اور بیروزگاری
کا عذاب ہم پاکستانیوں پر نازل ہوتا ہے ۔
***************
مصنف کتاب جناب اشرف جاوید صاحب ایک اور بڑا فیصلہ .......عمران خان اہل
قرار پا گیا ۔ اس مضمون کے تحت لکھتے ہیں مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی
کی دائرکردہ درخواستوں کی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا ۔جس میں عمر
عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب شامل تھے ۔عمران اور ترین کی نااہلی کا یہ
کیس کوئی ایک برس چلا اس دوران 52مرتبہ عدات لگی ۔ دونوں اطراف سے وکلا نے
اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دلائل دیئے۔البتہ عمران خان کے لیے بنی گالا کی
منی ٹریل ثابت کرنا اور اس معاملے میں تمام متعلقہ ریکارڈ عدالت کے روبرو
پیش کرنا خاصا مشکل اور دشوار بھی تھا وہ تو بھلا ہو جمائمہ خان کا ،جس نے
بنی گالا کی خریداری سے متعلق تمام ریکارڈ مہیا کرکے عمران کو نااہلی سے
بچا لیا ۔15دسمبر 2017ء کو بروز جمہ سپریم کورٹ نے عمران اور ترین کی
نااہلی کے متعلق محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنادیا ۔250 صفحات پر مشتمل فیصلہ کے
مطابق عمران خان پر 2013ء کے کاغذات نامزدگی میں نیازی سروسز لمیٹڈ کو ظاہر
کرنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ وہ اس کے اسٹیک ہولڈر نہیں تھے
۔عمران نے اس معاملے میں تمام متعلقہ دستاویزات پیش کیں اور بنی گالا کے
اثاثے عمران نے اپنے خاندان کے لیے خریدے ، اس سے متعلق بھی تمام دستاویزات
پیش کردی گئی ہیں ۔اس طر ح عمران خان کو تمام الزامات سے بری قرار دیا جاتا
ہے ۔جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔وہ عمران خان جسے سپریم کورٹ کی جانب سے
صادق اور آمین قرار دیا گیا ہے وہ ہر قدم پر نہ صرف جھوٹ بولتا ہے بلکہ
اپنے جھوٹ کو یوٹرن کا نام دے کر عوام اور عدالتوں کی دھوکا دے رہا ہے ۔مزے
کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کے ہر جھوٹ پر عدالتوں نے بھی آنکھیں بند
کررکھی ہیں ۔کتنے ہی مقدمے عمران کے خلاف الیکشن کمیشن ، عدالتوں کے سرد
خانے میں موجود ہیں جن کی سماعت کی جرات کسی سے نہیں ہو عہی ؒیہی عالم نیب
کا ہے جہاں عمران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیسز موجود ہیں لیکن کاروائی
ندارد سمجھی جارہی ہے ۔
غالبا 2016سے 2018ء کے مابین شائع ہونے والے یہ تجزیے جناب اشرف جاوید کے
ہیں جو نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں شائع ہوچکے ہیں بیشک ان کی اپنی جگہ
اہمیت موجودہے ،کیا ہی اچھا ہوتا اگر مصنف کتاب کو (2020میں)شائع کرنے سے
پہلے اپنے تجزیوں کی روشنی میں اپ ٹوڈیٹ حالات کاجائزہ بھی شامل
کردیتے۔بہرکیف 184صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمہوری پبلیکیشنز2ایوان تجارت روڈ
لاہور کے زیراہتمام خوبصورت انداز میں شائع ہوئی ہے جس کی قیمت 600روپے ہے۔
واٹس اپ نمبر 03334463121ہے۔
|