کورونا کا دوسرا جنم وزیر اعظم کے دوسرے ورژن کی طرح پہلے
سے خطرناک ثابت ہوا ۔ پہلی بار جب کورونا ہندوستان میں آیا تو وہ بزرگوں
کی جانب متوجہ تھا اس بار وہ جوانوں کو اپنے چنگل میں لے رہا ہے۔ وزیر اعظم
بھی پہلی بار سب کا ساتھ ساتھ سب کا وکاس کرنے کے لیے آئے تھے لیکن دوسری
بار کشمیر اور رام مندر کے نام پر دیش کا وناش کررہے ہیں۔ سادھو کا روپ
دھارن کرنے کے بعد وزیر اعظم کے لیے کمبھ میلے پر پابندی لگانا بہت بڑا
دھرم سنکٹ تھا اس لیے انہوں نے اس کو علامتی بنانے کے لیے صرف گزارش پر
اکتفا کیا لیکن اس سے قبل مختلف اکھاڑوں سے بات چیت کرلی گئی تھی اس لیے
جونا اکھاڑہ اور اس کے حامیوں نے کمبھ میلے کا خاتمہ بالخیر کردیا ۔ پانچ
اپریل کو ہندوستان میں کورونا سے متاثرین کی تعداد سارے پرانے ریکارڈ توڑ
کر ایک لاکھ پانچ ہزاریومیہ پر پہونچ گئی تھی ۔وزیر اعظم کی یہ اپیل اگر اس
وقت بھی آجاتی تو دو ہفتہ بعد یہ دو لاکھ چوہترّ ہزار پر نہیں ہوتی لیکن
دور اندیشی سے عاری ابن الوقت سیاستدانوں نے اپنے ہی بھگتوں کا بیڑہ غرق
کردیا ۔ اس موقع پر فلم ایک سال کا نغمہ( مع ترمیم )صادق آتا ہے؎
ہم بدنصیب کمبھ کی رسوائی بن گئے ، خود ہی لگا کے آگ تماشائی بن گئے
دامن سے اب یہ شعلے بجھائے تو کیا کیا، سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا
کیا
آج حالت یہ ہے کہ قومی دارالحکومت مںو دہلی سرکار نے ایک حکمنامہ جاری کر
کے ہری دوار کے کمبھ ملےب سے واپس آنے والے تمام افراد کی خاطر 14 دن کا
قرنطینہ لازمی کر دیا گیاہے۔ اسی کے ساتھ انہیں اپنی تفصیلات مثلاًنام،
دہلی کا پتہ، فون نمبر، شناختی کارڈ، جانے اور آنے کی تاریخ وغیرہ سرکاری
پورٹل پر اپ لوڈ اور لنک کرنا لازم کردیاہے۔ کمبھ 2121 سے دہلی واپس
آنےوالے کسی رہائشی نے اگر مطلوبہ تفصیلات / معلومات اپلوڈ نہں کی تو اسے
سرکاریقرنطینہ بھجا جائے گا جو کسی قید سے کم نہیں ہے۔ دہلی کے ضلع مجسٹریٹ
ایسے لوگوں کی روزانہ کی بنااد پرٹریسنگ یعنی نگرانی کو ییجا بنائںگ گے۔ یہ
کوئی توہین نہیں بلکہ ضروری احتیاط ہے۔ بی جے پی کے امیت مالویہ نے حق نمک
ادا کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھ دیا کہ دہلی میں نہ تو انتخاب ہے اور نہ کمبھ
میلہ پھر بھی کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ وہاں ایک نااہل
وزیر اعلیٰ برسرِ اقتدار ہے ۔
امیت مالویہ کو کو پتہ ہونا چاہیے کہ دہلی کا وزیر اعلیٰ نااہل نہیں بلکہ
ایک دیانتدار رہنما ہے۔اس کے نزدیک عوام کی صحت و سلامتی کو اقتدار اور
ناموری پر فوقیت حاصل ہے ۔ وہ مریضوں کی جانچ کروا کر ان کی صحیح تعداد سے
لوگوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ خبرادر ہوجائیں ۔ مرنے والوں تعداد چھپا کر
شتر مرغ کی مانند اپنا منہ ریت میں نہیں چھپا تا۔ یہ سب تو اترپردیش اور
گجرات میں ہورہا ہے جہاں اول تو ٹسٹنگ نہیں ہوتی۔ ہوتی بھی ہے تو رپورٹ میں
تاخیر کی جاتی ہے اور اس میں گھپلے کیے جاتے ہیں ۔ شمشان گھاٹ کو گھیرا
جاتا ہے تاکہ نامہ نگار ازخود درست تعداد نہ جاسکیں ۔ گجرات کے جام نگر میں
سندیش نامی اخبار کے ایک صحافی نےاسپتال سے شمشان جانے والی ترسٹھ لاشوں کو
گنا اور انتظامیہ نے اگلے دن بتایا کہ کورونا سے ایک موت بھی نہیں ہوئی ۔
اترپردیش کا اور بھی برا حال ہے۔ لاش کو کوڑا گاڑی تک میں بھر کر شمشان
پہنچانا پڑرہا ہے ۔ جلانے کے لیے لکھنو جیسے شہر میں لکڑیاں کم پڑگئی ہیں۔
بجلی کے شمشان میں ۱۲ گھنٹے کا انتظار لگ گیا ہے اس کے باوجود کورونا سے
مہلوکین کی تعداد نہیں بڑھتی ۔
دہلی کے علاوہ اڈیشہ ، گجرات، کرناٹک اور مدھیہ پردیش سرکار نے بھی کمبھ سے
آنے والوں کی جانچ اور قرنطینہ کی پابندیاں لگائی ہیں ۔ ان پانچ میں سے
تین ریاستوں کی رام بھکت سرکار بھی وہی سب کرنے پر مجبور ہوگئی جو راون کے
نااہل پیروکار کررہے ہیں۔ اڑیشہ کی شرائط تو بالکل دہلی جیسی ہے یعنی ٹسٹ
ااور قرنطینہ کے ساتھ ضلعی افسران کو فہرست کی فراہمی تاکہ وہ نگرانی
کرسکیں ۔ مدھیہ پردیش کے اندر کمبھ میلے سے لوٹنے والوں کے لیے ضلع کلکٹر
کو بتانا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سرکاری افسران انہیں ۷ دن کے لیے
قرنطینہ میں بھیجیں گے ۔ کرناٹک اور گجرات کو بھی یہ ۷ دن کا قرنطینہ کس نے
بتا دیا کوئی نہیں جانتا۔ گجرات میں کمبھ سے سے آنے والے 230 مسافروں کا
کورونا ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں سے 15 متاثر پائے گئےاس لیے انہیں فوری طور
پر عارضی کووڈ سینٹر میں بھیج دیا گیا ۔اس سے قبل 34 متاثر پائے گئے تھے ۔
اس لیے وزیراعلیٰ روپانی نے کمبھ سے گجرات واپس آنے والوں کے لیے کورونا کی
جانچ ضروری کر دی ہےکیونکہ کہ لاکھ پردہ پوشی کے باوجود اب تک ۴ لاکھ پانچ
ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور 5300 سے زیادہ افراد کی موت بتانی
پڑی ہے ۔ پچھلے ۲۴ گھنٹوں میں دس ہزار متاثرین کا اضافہ اور ایک سو دس
لوگوں کی موت کو سرکار نے تسلیم کیا ہے۔
۹ ؍ اپریل کوآچاریہ پرمود کرشنم نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اپنی کمزوری
کو چھپانے کے لیے حکومت نے قبل از وقت مہا کمبھ کا اہتمام کیا ہے۔ اچاریہ
نے کہا کہ یہ پہلی بار ۱۲ سال کے بجائے ۱۱ میں کمبھ لگ رہا ہے۔ اس سے قبل
یہ میلہ ۲۰۱۰ میں ہوا تھا تو اسے ۲۰۲۲ میں ہونا چاہیےتھا لیکن حکومت نے
اکھاڑہ پریشد کی ملی بھگت سے اسے ایک سال پہلے کرکے ہندو مذہب، عقیدہ اور
روایت کی خلاف ورزی کی ہے ۔ انہوں نے اسے ایک سیاسی سازش قرار دیتے ہوئے
کہا چونکہ آئندہ سال اتراکھنڈ میں انتخاب ہے اس لیے اس کا سیاسی فائدہ
اٹھا نے کی غرض عوام کی جان کو جوکھم میں ڈال دیا گیا ۔ یہ بات بالکل درست
ہے کیونکہ ان حالات میں اگر بارہ سال ہو جائیں تب بھی اسے تیرہویں سال تک
ملتوی کردینا چاہیے کجا کے قبل از وقت منعقد کرنے کی سازش کرنا۔ ویسے ابتدا
میں اسے جنوری کے وسط سے اپریل کے آخر تک چلنا تھا اور جملہ ۹ مقدس ڈبکیاں
لگنی تھیں لیکن اسے تین ماہ ملتوی کرنےکے سبب پانچ ڈبکیوں کا مہورت تو ویسے
ہی ڈوب گیا۔ باقی تین نے ایسی تباہی مچائی کہ چوتھی کو منسوخ کرنے پر مجبور
ہونا پڑا۔
مہا کمبھ کا بیساکھی اسنان ہمیشہ تنازع کا سبب بنتا رہا ہے۔ تاریخ میں ایسا
کبھی نہیں ہوا کہ یہ موقع کسی حادثے یا تنازع کے بغیر گزر جائے ۔ آزادی کے
بعد ۱۹۵۰ میں ۱۴ اپریل کے شاہی اسنان میں ہر کی پوڑی کے بیرئیر ٹوٹنے کی
وجہ سے ۵۰ تا ۶۰ زائرین ہلاک ہوگئے۔ ۱۹۸۶ کے اندر مہا کمبھ میں بھیڑ کے بڑھ
جانے سے پانچ لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ۱۹۹۸ میں دو بڑے اکھاڑوں کے درمیان
لڑائی ہوگئی اور تنازع اس قدر بڑھا کہ شاہی اسنان کو ملتوی کرنا پڑا ۔ ۲۰۱۰
میں شاہی اسنا ن کے دوران حادثہ ہوا اور ۷ لوگوں نے اپنی جان گنوائی ۔ اس
بار لوگ مطمئن تھے ۱۴ ؍ اپریل کے شاہی اسنان میں کوئی حادثہ نہیں ہوا
حالانکہ کورونا کا بم خاموشی سے پھوٹ چکا تھا ۔ وہ دعا کررہے تھے آخری
اسنان بخیر و خوبی ہوجائے جسے منسوخ کیا جاچکا ہے۔
مودی یگ میں مہا کمبھ کی آن بان اور شان کچھ اور ہی تھی۔ پہلےشاہی اکھاڑوں
کے جلوس اتنے بڑے نہیں ہوتے تھے لیکن کورونا کے زمانے میں ۱۱ سو زیادہ
زیادہ گاڑیوں نے حصہ لے کر کمال کردیا۔ اس مہا کمبھ میں دنیا کی سب سے بڑی
مشعل بھی روشن کی گئیجس کوگینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانے کی تیاری
چل رہی تھی کہ کورونا کے پھیلنے کا عالمی ریکارڈ ازخود بن گیا۔ وزیر اعظم
کا دامن گجرات کے فساد سے پہلے ہی داغدار ہے لیکن اب اس سے بھی بڑا داغ لگ
گیا ہے اس لیے مہاکمبھ کی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ اس بار یہ تباہی
و بربادی نفرت کے بجائے عقیدت کے راستے سے آئی ہے لیکن دونوں میں سیاسی
مفاد مشترک ہے ۔ وزیر اعظم کے اس کارنامہ پر کلیم عاجز کا یہ شعر یاد آتا
ہے؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|