اروند کیجریوال: آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

اروند کیجریوال کو سیاست وراثت میں نہیں ملی ۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ ان کی نسل کے بیشتر سیاستدانوں نے کسی نہ کسی خاندان یا پریوار سے اپنی سیاسی زندگی شروع کی ۔ یہ پنڈت نہرو کا گاندھی خاندان ہو یا ناتھو رام گوڈسے کا سنگھ پریوار دونوں تحفظ اور حمایت کی بیساکھی فراہم کرتے ہیں۔ اروند کیجریوال کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ وہ سیاست میں پھیلی بدعنوانی کے خلاف لڑتے لڑتے اچھے خاصے سیاستداں بن گئے لیکن اب بھی ان کے اندر سے ایک جہد کا ر کبھی کبھار جاگ اٹھتا ہے۔ اس کا مظاہرہ کورونا سے متعلق دس ریاستوں کی وزیر اعظم کے ساتھ منعقدہ نشست میں ہوا۔ اروند کیجریوال نے اس میٹنگ میں جو کچھ کہا اسے براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کروادیا اور اس پر بونڈر کھڑا ہوگیا بلکہ نشریات کو کو درمیان سے پروٹوکول کے نام پر رکوا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کی اموات کو بھی پروٹوکول کا پا س و لحاظ کرنا پڑے گا ؟ جبکہ عدالت عظمیٰ اسی دن قومی ایمرجنسی کا اعتراف کرچکی ہے؟ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوام کی فلاح بہبود سے متعلق بحث کو لوگوں سے چھپانے اور اندرون خانہ رکھنے کا آخر جواز کیا ہے؟

اروند کیجریوال نے سب سے پہلے مرکزی حکومت کے ذریعہ دہلی کا آکسیجن کوٹہ بڑھانے پر شکریہ ادا کیا لیکن پھرسخت لہجے میں بولے حالات بہت سنگین ہوچکے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے ۔ اس اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے دہلی شہر میں اس میٹنگ سے ایک دن قبل نتیش کمار دو دنوں تک اپنی ماں کی آخری رسومات ادا نہیں کرسکا ۔ ایک عارضی پارکنگ شیڈ میں اسی دن ۶۰ افراد کو اجتماعی نذرِ آتش کرنا پڑا ۔ گنگا رام اسپتال میں ۲۵ لوگ آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہوگئے اوردیگر اسپتالوں سے بھی ایسی اندہناک خبریں ا ٓنے لگیں ۔ اپنے دعویٰ کی حمایت میں کیجریوال نے کہا ہم کسی کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم نے پچھلے دنوں مرکز کے کئی وزراء کو فون کیا۔ انہوں نے پہلے تعاون کیا مگر اب وہ بھی تھک چکے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم سے کئی تلخ سوال کیے مثلاً اگر دہلی میں آکسیجن کا کارخانہ نہیں ہے تو کیا دوکروڈ لوگوں کو آکسیجن نہیں ملے گا؟ دارالخلافہ کے وزیر اعلیٰ کی زبان پر یہ فریاد ملک کی جو تصویر کشی کرتی ہے ؟ وہ نہایت سنجیدہ غوروفکر کی طالب ہے۔

اروند کیجریوال اپنے خطاب میں وزیر اعظم سے پوچھا آپ بس یہ بتا دیجیے جن صوبوں میں آکسیجن کارخانہ ہے کیا وہ دوسروں کی آکسیجن روک سکتے ہیں؟ کسی اسپتال میں اگر ایک دو گھنٹے کی آکسیجن بچ جائے اور لوگوں کے موت کی نوبت آجائے تو میں فون اٹھا کر کس سے بات کروں ؟ کوئی ٹرک روک لے تو کس سے بات کروں ؟ کیجریوال نے اپنی پرسوز تقریر میں کہا کہ ہمیں لوگوں کو یقین دلانا ہوگا کہ ایک ایک زندگی قیمتی ہے۔ ہم دہلی کے لوگوں کی طرف سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کررہے ہیں کہ فوراًکوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو دہلی میں بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔ میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں ۔ کیجریوال نے انکشاف کیا کہ سب سے زیادہ آکسیجن کے ٹرک روکے جارہے ہیں ۔ میں وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرپارہا ہوں آپ دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو فون لگائیں تو بہت کچھ ہوگا۔ اگر دہلی میں خدانخواستہ کوئی انہونی ہوجائے تو ہم اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کرسکیں گے ۔ کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ اگر اس قدر لاچار اور بے ہارومددگار ہوتو عام لوگوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں صرف شکایات کا دفتر نہیں کھولا بلکہ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے کچھ ٹھوس مشورے بھی دیئے مثلاً انہوں نے کہا کہ ایک قومی منصوبے کے تحت ملک کے سارےآکسیجن کارخانے فوج کے حوالے کیے جائیں اوراس کی گاڑی فوجیوں کے تحفظ میں روانہ کی جائے۔ یہ بالکل معقول بات کیونکہ اگر ای وی ایم مشین کی حفاظت نیم فوجی دستوں کے ذریعہ کی جاتی ہے تو حیات بخش آکسیجن کی کیوں نہیں ؟ کیا انسانی جان کی قیمت ووٹ سے بھی کم ہے جو چند ٹکوں میں بک جاتا ہے؟ کیجریوال نے دور دراز کی اڑیسہ اور بنگال جیسی غیر بی جے پی ریاستوں سے آکسیجن ہوائی جہاز یا ریل سے مہیا کرنے کی بات کی تو وزیر اعظم نے ٹوکا آکسیجن ایکسپریس پہلے سے چل رہی ہے۔ اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کیجریوال بولے جی ہاں مگر وہ دہلی نہیں آرہی ہے بلکہ دیگر ریاستوں میں چل رہی ہے۔ اس کا کیا مطلب؟ کیا دہلی کے باشندوں سے بی جے پی کی شکست کا انتقام لیا جارہا ہے؟ اور کہاں چلے گئے دیش بھکتی کے وہ بلند بانگ دعویٰ اور سنگھ کے سنسکار ؟ کہیں اس کے تعصب نے ہی تو لوگوں سنگدل نہیں بنادیا؟

وزیر اعلیٰ نے ویکسین پر مرکزی حکومت کے دوغلے پن کو بے نقاب کرتے ہوئے پوچھا مرکزی حکومت کے لیے اس کی قیمت ڈیڑھ سو اور صوبائی سرکارکے لیے چار سو ؟ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ون نیشن ون ووٹ کی بات کرنے والی بی جے پی کو کیجریوال نے آئینہ دکھاتے ہوئے ون نیشن ون ریٹ کی صلاح دی۔ اس دوران دوپہر بارہ بجے اچانک براہِ راست نشریات تعطل کا شکار ہوگئیں ۔ اس کے دوگھنٹے بعد کیجریوال کی تقریر کا باقیماندہ حصہ ٹیلی ویژن پر پھر سے نشر ہوا۔ اس میں کیجریوال جب یہ کہتے نظر آئے کہ مجھے یقین ہے اگر ملک میں ایک قومی منصوبہ ہوگا تو سبھی مرکزی سرکار کے ساتھ مل کر ریاستی حکومتیں کام کریں گی ۔ اس کے بعد انہوں نے مرنے والوں کے تئیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس وقت وزیر اعظم نے کیجریوال کو ٹوکا ’’ایک منٹ ، میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ یہ ہماری روایت اور ہمارے پروٹوکول کے خلاف ہورہا ہے کہ کوئی وزیر اعلیٰ اندرون خانہ نشست کو ٹیلی کاسٹ کرے۔ یہ مناسب نہیں ہے ۔ ہمیں ہمیشہ صبر و ضبط سے کام لینا چاہیے۔

وزیر اعظم نے جس پروٹوکول کا تذکرہ کیا اس روایت کو وہ خود پامال کرچکے ہیں ۔ پچھلے سال 19 جون کو چین کی در اندازی جیسے نازک مسئلہ پر کل جماعتی نشست ہوئی اور اس کا اختتامی خطبہ وزیر اعظم نے براہِ راست دور درشن سے نشر کروادیا۔ سوال یہ ہے کہ جو کام خود وزیر اعظم کرسکتے ہیں اور اس میں ’کوئی نہیں آیا‘ جیسا جملہ کہہ کر اسے واپس لے سکتے ہیں تو کوئی اور کیوں نہیں کرسکتا؟ اب اختتامی کلمات کہنے کا موقع تو کسی اور کو نہیں ملے گا اس لیے اسے درمیانی خطاب ہی نشر کرنا پڑے گا۔ لداخ والی میٹنگ میں تو خیر کیجریوال کو بلایا بھی نہیں گیا تھا ۔ وزیر اعلیٰ نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست تھا لیکن انہیں معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی ۔ ان کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ اگر میں میری سخت کلامی یا کسی رویہ میں کوئی غلطی یا گستاخی ہوئی ہوتو میں معافی چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ چاپلوسی بھر ا جملہ بھی نہ کہتے کہ ابھی تک جو پریزینٹیشن ہوئے وہ اچھے تھے ۔ آپ نے جو احکامات دیئے ہم ان پر عمل در آمد کریں گے، تو اچھا تھا۔ اس لیے کہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ مودی جی اگر اپنے آپ کو انسان سے بھگوان سمجھنے لگے ہیں تو ان کی خوش فہمی دور کرنا ضروری ہے ۔ بہر حال بڑے دنوں کے بعد اروند کیجروال کی کے خطاب کو سن کرمرزا غالب کا یہ شعر بے ساختہ یاد آگیا ؎
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450134 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.