امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کے
حوالے سے باقاعدہ وائٹ ہاؤس کے اُس’ روز ویلٹ ‘ کمرے سے خطاب کیا ، جہاں سے
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان پر حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا ،
اکتوبر2001کو امریکہ کی افغانستان کے خلاف جنگ کی بنیادی وجہ زیریں مین
ہیٹن ، پینٹاگون اور شینکس وِل، پینسلوینیا پر حملے بنا۔ مبینہ طور پر
افغانستان میں موجود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر کئی برس کی منصوبہ
بندی کے بعد تباہ کن حملوں کا الزام عائد کیا گیا ، افغانستان میں اُس وقت
خانہ جنگی سے امن قائم کرنے والے امارات اسلامیہ اٖفغانستان کی حکومت تھی ،
انہوں نے اقتدار سوویت یونین کے جانے کے بعد مملکت میں بدترین شورش و خانہ
جنگی کے بعد مدارس کے طلبا کے تعاون سے حاصل کیا تھا، یہ تحریک بعدازاں
تحریک طالبان افغانستان کے نام سے معروف ہوئی ۔سابق صدر بش نے اسے صلیبی
جنگوں کا تسلسل قرار دیا اور ہم‘‘کبھی بھی نہیں بھولیں’’گے ، کے نعرے کے
ساتھ افغانستان کی سرزمین پر کارپیٹ پمباری کا آغاز کردیا ، افغان سرزمین
پر جتنی بمباری و فضائی حملے کئے گئے اتنے جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی
نہیں کئے گئے تھے ، افغان طالبان نے عوام کے تحفظ کے خاطر پسپائی اختیار کی
اور امریکہ کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ زمینی جنگ پر آنے کے لئے مجبور کردیا
۔ افغان جنگ اب ایک گوریلا وار میں بدل چکی تھی اور نیٹو افواج کو ااندازہ
نہیں تھا کہ وہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا حصہ بن رہے ہیں ، صدر
جوبائیڈن نے اس امر کو تسلیم کیا کہ ان کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری
تھا ، جو حملے کے دس برس بعد اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد پورا ہوگیا تھا
، بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا ، تاہم امریکی
انتظامیہ افغانستان سے نکلنے کے لئے قابل تسلیم وجوہ بیان کرنے سے قاصر رہی
، بلکہ جوبائیڈن کے مطابق جس دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا
تھا ، ان میں مزید اضافہ ہوگیا اور 20برسوں کے عرصے میں پھیل گیا ۔
افغانستان میں امریکی و غیر ملکی افواج کی موجودگی پر اعتراض اٹھائے جاتے
رہے ہیں کہ آخر صرف افغانستان کو ہی ٹارگٹ کیوں کیا جارہا ہے ، جب کہ
امریکی نکتہ نظر کے مطابق القاعدہ ، شام ،اور عراق سمیت افریقہ و ایشیا کے
مختلف ممالک میں داعش کا خطرہ القاعدہ سے زیادہ خطرناک تھا ، ہر برس اربوں
ڈالر کی لاگت سے ہزاروں فوجیوں کو ایک ہی ملک میں بٹھانے اور اُسی پر توجہ
مرکوز رکھنے کی غلطی کو صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ ہمارے رہنماؤں کی سمجھ
سے بالاتر تھا ۔صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں شکست خوردگی کے عالم میں کہا
کہ ’’ ہم افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے یا اس میں توسیع کرنے
کے چکر کو انخلا کے لیے مثالی حالات پیدا کرنے، اور مختلف نتیجے کی توقع
کرنے کی امید لیے جاری نہیں رکھ سکتے۔افغانستان میں امریکی فوجیوں کی
موجودگی کی صدارت کرنے والا اب میں امریکہ کا چوتھا صدر ہوں،،دو ری پبلکن،
دو ڈیموکریٹس۔ میں اس ذمہ داری کو پانچویں کو نہیں منتقل کروں گا۔اپنے
حلیفوں اور شراکت داروں ، فوجی لیڈروں اور انٹیلی جنس عہدیداروں، سفارت
کاروں اور اپنے ترقیاتی ماہرین ، کانگریس اور نائب صدر اورمسٹر غنی اور
دنیا بھر کے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ قریبی مشورے کرنے کے بعد میں نے یہ
نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وقت امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کا وقت ہے۔
یہ امریکی فوجیوں کے وطن لوٹنے کا وقت ہے‘‘۔امریکہ کی نئی انتظامیہ کو
افغانستان سے مکمل انخلا کے لئے دوحہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک عمل درآمد
کرنا تھا ، لیکن ماضی کی طرح افغانستان سے مفادات کے حصول کے لئے بعض عناصر
کی جانب سے باور کرایا جاتا رہا کہ اگر امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا
کردیا تو انار کی ، انتشار ، خانہ جنگی ہوگی ، ان حالات میں القاعدہ مضبوط
ہوگی ، داعش خطرہ بنے گی ، افغان طالبان افغانستان پر دوبارہ قابض ہوجائیں
گے ، وغیرہ وغیرہ ، صدر بائیڈن کے مطابق انہوں نے سفارتی معاہدے پرغور و
خوص و مشاورت کی اور بالآخر معاہدہ کو امریکی حکومت کا معاہدہ تسلیم کرتے
ہوئے یکم مئی سے فوجی انخلا کا فیصلہ کرلیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا آغاز
اس سال کے یکم مئی کو ہو گا۔ہم انخلا میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے– ہم
یہ کام ذمہ داری سے، سوچ سمجھ کر، اور محفوظ طریقے سے کریں گے- اور ہم اسے
اپنے اُن حلیفوں اور شراکت داروں کے ساتھ۔ مکمل رابطہ کاری کے ساتھ کریں
گے۔ایک طویل عرصے سے ’’اکٹھے آئے ہیں اور اکٹھے جائیں گے ‘‘کا منصوبہ چلا آ
رہا ہے۔ امریکہ فوجیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے نیٹو حلیفوں کے تعینات کردہ فوجی
اور آپریشنل شریک کار، 11 ستمبر کے (مبینہ)گھناؤنے حملے کی ہماری بیسویں
برسی منانے سے پہلے افغانستان سے نکل جائیں گے‘‘۔
امریکی صدر کو تحفظات ہیں کہ انخلا کے وقت اُن کی افواج پر حملہ ہوسکتا ہے
، اس لئے انہوں نے افغان طالبان کو انتباہ کیا کہ وہ انتہائی اقدام اٹھانے
سے پرہیز کریں ، گو کہ افغان طالبان نے چار مہینے کی تاخیر پر اپنے تحفظات
کا اظہار کرتے ہوئے ماضی کی طرح کئی امریکی وعدوں پر عمل درآمد نہ کرنے پر
، عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے ، تاہم اطلاعات کے مطابق افغان طالبان انخلا
کے عمل میں تشدد کا سہارا نہیں لیں گے ، وہ انتظار کریں اور نیٹو افواج کے
ساتھ امریکی فوجیوں پر بھی حملے نہیں کریں گے ، تاہم خدشات ہیں کہ داعش اور
طالبان مخالف جنگجو گروپ اور کابل انتظامیہ میں شریک جنگجوؤں کی جانب سے
غیر ملکی افواج کو روکنے کے لئے ان پر حملے کئے جاسکتے ہیں اور افغان
طالبان پر الزام لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے معاہدے پر عمل نہ کرنے کی وجہ
سے غیر ملکی افواج پر حملے کئے۔ امریکہ نے کابل انتظامیہ پر واضح کردیا ہے
کہ وہ اب عسکری بنیادوں پر کوئی مدد نہیں کریں گے تاہم سفارتی اور انسانی
بنیادوں پر کام جاری رہے گا۔ ہم افغانستان کی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔
ہم بدستور افغان نیشنل ڈیفینس اور سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرتے رہیں گے۔
امریکی صدر کے دعوی کے مطابق انہوں نے بیس برسوں میں 3لاکھ نفوس کی تربیت
کی ہے ، بائیڈن نے توقع ظاہر کی ہے کہ’’خطے کے دیگر ممالک کہ وہ افغانستان
کی مدد کے لیے مزید کاوشیں کریں، خاص طور پر پاکستان اور اس کے علاوہ روس،
چین، بھارت اور ترکی۔ ان سب کا افغانستان کے مستحکم مستقبل کے حوالے سے
کافی کچھ داؤ پر ہے‘‘۔امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ ان کے98ہزار فوجی ہونے کے
باوجود افغان طالبان کو ختم نہیں کیا جاسکا جب کہ یہ امریکی فوجیوں کی
تعداد اب صرف چند ہزار رہ گئی ہے‘‘۔ امریکہ فرسٹریشن کا شکار ہوچکا ہے کہ
کیا اُسے مزید بیس برس جنگ رکھنی چاہیے یا ہمیشہ کے لئے افغانستان میں رہنا
چاہیے تو اس پر صدر بائیڈن نے کھل کر کہا کہ ’’سال 2014 میں نیٹو نے ایک
اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اس وقت کے بعد
سے، افغان سکیورٹی فورسز سال کے آخر تک، اپنے ملک کی سکیورٹی کے لیے کلی
طور پر ذمہ دار ہوں گی۔ یہ سات برس پہلے کی بات ہے۔تو پھر واپسی کے لیے
درست وقت کیا ہو گا؟ مزید ایک سال، دو سال، دس سال؟ کیا جو کھربوں ڈالر ہم
پہلے ہی خرچ کر چکے ہیں اس میں دس، بیس، تیس ارب ڈالر کا مزید اضافہ؟‘‘اب
نہیں’’— اسی وجہ سے جہاں ہم آج کھڑے ہیں وہاں پہنچے ہیں۔ اس وقت انخلا کے
واضح نظام الاوقات کے بغیر یکم مئی کے بعد رکنے میں اچھے خاصے خطرات ہیں‘‘۔
امریکہ نائن الیون کے دن تک اپنی تمام افواج کو بلانے کا اعلان کرچکا ہے ،
نیٹو ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے امریکی منصوبے کی حمایت کردی ہے ، افغان
طالبان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ نے معاہدے کی خلاف وزری
کی ہے ، امریکہ دوحہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی ، رہنماؤں کی بلیک
لسٹ سے انخلا اور اقوام متحدہ میں پابندیوں کے خاتمے کے لئے اپنے وعدے کو
ادھورا نہ رکھے ، ترکی پراسیس کانفرنس میں افغان طالبان نے شرکت کے لئے
مکمل انخلا کی شرط رکھی ہے لیکن اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ امن ڈائیلاگ
سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، لہذا افغانستان کا مستحکم امن اب افغانوں کے ہاتھ
میں ہے کہ وہ اپنی مملکت کے لئے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ملک میں تشدد کے خاتمے
کے لئے افغان طالبان سمیت تمام افغان اسٹیک ہولڈر کو تحمل و برد باری سے
کام لینا ہوگا ، عوامی امنگوں کے مطابق جذبات و طاقت کے استعمال سے گریز
کرنا ہوگا ، غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا تک تمام فریقوں کوبرداشت سے کام
لینے کی ضرورت ہے ، امریکہ اپنی شکست کا واضح اعلان کرچکا ہے اور واپسی کے
راستے پر گامزن ہے ، 40برسوں کی جنگوں نے افغان عوام کو بے حال کردیا ہے ،
لہذا تمام افغان قوتیں اپنے عوام کی بقا و فلاح کے خاطر ان چا ر مہینوں میں
مستقبل کی پیش بندی و لائحہ عمل پر اکتفا کرلیں تو یہ پورے خطے کے حق میں
بہتر ہوگا ۔
|