مہا کمبھ :ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار

وطن عزیز میں کورونا سے موت ایک عام بات ہے اس لیے خبر نہیں بنتی بس تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب کسی خاص آدمی کا انتقال ہوجائے تو ذرائع ابلاغ اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ اردو کے مایہ ناز ناول نگار مشرف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ فاطمہ تبسم کا ایک دن کے وقفے سے انکار ہوگیا اور بیٹا شاشا بھی اسپتال میں داخل تھا ۔ یہ خبر اردو دنیا میں تو آئی لیکن قومی ذرائع ابلاغ اس سے غافل رہا کیونکہ آج کل وہاں ادب و تہذہب کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ میڈیا کی توجہ کا مرکز سیاست اور تفریح کی دنیا ہے ۔ فی الحال فلمی دنیا کے مشہورموسیقار جوڑیوں میں سے ایک ندیم شرون کے شرون راٹھوڑ کی موت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ان کے بیٹے سنجیو نے خبر دی کہ کچھ دن پہلے 66سالہ شرون اپنی بیوی کے ساتھ ہری دوار کے کمبھ میں شامل ہوئے تھے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد انہوں نے سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کی تھی۔ جانچ کے بعد دونوں کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ۔ اس کے بعد شرون کی بیوی اور بڑے بیٹے سنجیو کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا نیز ہوم آئسولیشن سے نکل کرچھوٹے بیٹے درشن نےآخری رسومات ادا کیں ۔

معروف گلوکاراُدت نارائن نے اپنے قریبی دوستشرون کی موت کے لیے کمبھ میلے کو ذمہ دار ٹھہرایا اور سوال کیا کہ وباء کے دوران اس کی اجازت کیوں دی گئی؟ شرون کی طرح کے نہ جانے کتنے لوگ وہاں جانے کے بعد اس بیماری سے متاثر ہوئے ہوں گے جن کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کورونا کے یومیہ پھیلاو میں پہلے اترپردیش دوسرے نمبر کبھی نہیں تھا لیکن کمبھ کے بعد ہوگیا ہے اور اترا کھنڈ میں اس کے اضافے کی شرح ۸ہزار ۸ سو فیصد تک ہوگئی تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمبھ میلے کو ملتوی کرنا سرکار کے لیے بہت مشکل کام تھا جبکہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور وزیر اعظم کے صلاح کار اجیت ڈوول اسی صوبے سے آتے ہیں بلکہ ملک کے وزیر تعلیم پوکھریال کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہے۔ قدیم ترین جونا اکھاڑے کے سربراہ آچاریہ مہا منڈلیشور اسدھیشانند گریجس آسانی سے کمبھ کے میلے کو ختم کرنے لیے راضی ہوگئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہوزیر اعظم نریندر مودی کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔

وزیر اعظم کی گزارش کے پہلے ہی کورونا کے پھیلاؤ میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے نرنجنی اور آنند اکھاڑے نے کمبھ کے اختتام کا اعلان کردیا تھا۔ وزیر اعظم نے تو باقی بچے غسل کو علامتی طور پر کرنے کی اجازت دی مگر جونا اکھاڑے نےکمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا ہےاور اپنے تمام دیوی دیوتاؤں کو دریا برد کر کے سادھو سنتوں کو واپس جانے کو حکم دے دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے سادھو تو بیچارے اس کے منتظر بیٹھے تھے انہوں نے فوراً اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا بلکہ نصف سے زائد اپنے گھروں پر روانہ بھی ہوگئے ۔ جونا اکھاڑہ کے حامی اگنی ، آواہن اور کنرّ اکھاڑے نے بھی اس فیصلے کی تائید کی اور اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا۔ اس طرح جملہ ۱۳ میں سے ۶ نے راستہ ناپ لیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اطاعت میں زمینی حقائق نے بھی اہم کردار اداکیا ہے۔ کمبھ میں بقول رام گوپال ورما کورونا کا ایٹم بم اس طرح پھٹا کہ ہر کوئی فکر مند ہوگیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے اسے بننے اور پھٹنے کا موقع دیا ۔مدھیہ پردیش میں نروانی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور کپل دیو داس کی کو رونا ا سے موت نے سادھو وں کی عقیدت کو متزلزل کردیا۔ کپل دیو داس 12 اپریل کو اسپتال میں بھرتی ہوئے 13 اپریل کو دم توڑ دیا ۔ انہوں نے گردے کی خرابی اور ڈائیلسس کی ضرورت کے باوجود کمبھ میں شرکت کا فیصلہ کیا جو اس ماحول میں خودکشی کے مترادف تھا۔ کمبھ میں مہامنڈلیشور اپنے 10000 سے زیادہ عقیدت مندوں کے رابطے میں تھے۔اس کے بعد پتہ چلا پانچ سے 14 اپریل کے بیچ ہری دوار کے کمبھ میں شامل 68 بڑے سادھوکورونا سے متاثر پائے گئے۔ان میں اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری بھی کورونا سے متاثر پائے گئے۔ اور تو اور وہاں موجود 33 پولیس اہلکاروں کو بھی کورونا ہوگیا ۔ نرنجنی اکھاڑے کےسکریٹری رویندر پوری نے بتایاکہ ہمارے اکھاڑے میں کئی لوگوں میں کووڈ 19 کے آثارسامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے کمبھ میلہ ختم ہو گیا۔

کمبھ میلہ کے انتظامیہ کو شاہی اسنان سے قبل 12 اپریل کو ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے کیونکہ جملہ 79301 لوگوں کے کو رونا ٹیسٹ میں سے 745 متاثر پائے گئے اب اگر اسی شرح کو ۳۵ لاکھ پر منطبق کیا جائے تو یہ تعداد ۳۳ ہزار بنتی ہے۔ اتراکھنڈ میں ۱۵ ؍اپریل کو ایک دن میں سب سے زیادہ 2220 نئے معاملے ملے تھے جبکہ کورونا کے عروج میں 19 ستمبر 2020 کو بھی اس سے کم 2078 نئے مریض ہی سامنے آئے تھے۔اس طرح صوبے میں کورونا وائرس انفیکشن کے کل معاملوں کی تعداد بڑھ کر 116244 ہو گئی تھی اور اموات کی جملہ تعداد 1802 پر پہونچ چکی تھی ۔ اس سنگین صورتحال کے باوجود اسے منسوخ کرنے کا متفقہ فیصلہ نہیں ہوسکا ۔ عقل کے ناخون لینے کے بجائے اکھاڑوں کے درمیان مہابھارت چھڑ گئی اور وہ آپس میں ایک دوسرے پرکورونا کے پھیلاؤ کی ذمہ داری ڈالنے لگے۔

آج بھی کمبھ کو جاری رکھنے پر اصرار کرنے والے بیراگی اکھاڑا نے الزام لگایا کہ سنیاسی اکھاڑوں کی وجہ سے کورونا انفیکشن پھیلا ہے۔ نرموہی اکھاڑے کے سربراہ مہنت راجندر داس نے کمبھ میں انفیکشن کے بڑھنے کی ذمہ داری اکھاڑا پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گری کے سر منڈھ دی ۔اب چونکہ نریندر گری نے نریندر مودی کی درخواست پر کمبھ کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے اس لیے یہ لوگ وزیر اعظم سے بھی ناراض ہوگئے ہوں گے کیونکہ ایک تو کورونا کو پھیلانے والااکھاڑہ پریشد ان کے ساتھ ہے نیز نرموہی اور سنیاسی اکھاڑے کمبھ کو ختم کرنے کے بجائے جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان سادھو سنتوں کو وزیر اعظم سے یہ شکایت بھی ہے کہ انہیں کمبھ کا خاتمہ کرنے کی تلقین کرنے والے مودی خود کو انتخابی مہم سے روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ ایودھیا کے سنت آچاریہ مدھوپ نے کہا ہے کہ ملک کا بادشاہ عوام کے لیے نمونہ ہوتا ہے ۔ پر جا اپنے راجہ کی پیروی کرتی ہے۔

اچاریہ مدھوپ نے سوال کیا کہ بھاری بھرکم جلسوں سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کورونا اتنا خطرناک نہیں جتنا بتایا جارہا ہے۔ اگر یہ مسئلہ اس قدرسنگین ہوتا ملک کا وزیر اعظم ایسا نہ کرتا ۔ انہوں نے کہا عوام کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنے کی خاطر وزیر اعظم کو فوراً اپنے تمام سیاسی تقریبات پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ بیچارے سادھو سنت نہیں جانتے کہ سیاست کا جنون کیا ہوتا ہے؟ ممتا نے تو آئندہ کے تمام مراحل کو یکجا کرکے جلدی سے نمٹا دینے کی پیش کش تھی مگر مرکزی حکومت کے پالتو الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ آچاریہ شیلیش کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ایک طرف مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،گورنروں اور طبی عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر کورونا کا جائزہ لیتے ہیں اور دوسری جانب مغربی بنگال میں بڑی بڑی ریلیاں کرتے ہیں ۔ اس سے سماج میں بے حد مقبول وزیر اعظم کے بارے میں غلط پیغام جارہا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے جو رکاوٹ بتا رہے ہیں خود اپنی تقریبات کے لیے کسی رکاوٹ کو نہیں مانتے۔ ایسا کرنے سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے اس لیےانہیں بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ بات تو درست ہے مگر وزیر اعظم کا معاملہ غالب کے اس شعر کی طرح ہے؎
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

کالکی پیٹھادھیشور آچاریہ پرمود کرشنم نے بھی مغربی بنگال میں جاری سیاسی جلسوں پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیا ہےکیونکہ اس سے ملک کو غلط پیغام جارہا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کورونا کے حوالے سے جاری کیا جانے والا پروٹوکول جھوٹا ہے اس لیے وزیر اعظم خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ انہیں راہل گاندھی کی طرح مودی کو اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا مشورہ دیا ۔ وہ بولےوزیر اعظم نے ایک درخواست دے کر ۱۲ سال میں ایک بار منعقد ہونے والا کمبھ میلا بند کروا دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ جب تک کورونا رہے گا اس وقت تک کوئی بھیڑ جمع کرکے عوام کی جان سے کھلواڑ کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ۔ ان کا جائز سوال ہے کہ اگر اسکول اور کالج بند ہوگئے تو انتخابی مہم کیوں نہیں؟ سادھووں کی رسہ کشی نے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کے سامنے دھرم سنکٹ کھڑا کردیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے وزیر اعلیٰ کمبھ میلے کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس کو جاری رکھنے کا یقین دلا رہا ہے۔ یعنی دو متحارب گروہوں میں سے ایک کی جانب وزیر اعظم ہےاور دوسرے کی حمایت وزیر اعلیٰ کررہا ہے۔

اپنے حیرت انگیز بیانات کے لیے مشہور تیرتھ سنگھ نے انکشاف بھی کیا ہے کہ اس میلہ پر ’گنگا ماں کا آشیرواد‘ ہے اور گنگا کا بہتا پانی کورونا وائرس کو ختم کر دے گا لیکن مہاکمبھ میلہ نے سائنسدانوں کی متفکر کر دیا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ زمین اور ہوا کے مقابلے گنگا کا بہتا پانی زیادہ تیزی کے ساتھ کورونا انفیکشن کو پھیلائے گا۔ یہ اندیشہ اگر درست نکل جائے تو مہاکمبھ آ گے چل کر ’موت کا میلہ‘ بن سکتا ہے۔12 محققین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سندیپ شکلا کے خیال میں خشک جگہ کے مقابلے یہ وائرس پانی میں زیادہ وقت تک سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات پر تحقیق جاری ہے اور نتائج نہ جانے کب سامنے آئیں یا انہیں دبا دیا جائے لیکن شاہی اشنان کے بعدگنگا کے گہوارے اتر پردیش میں سنگین صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ۱۶ ؍ اپریل کو اب تک کی یومیہ سب سے بڑی27,426 کی تعداد سامنے آئی جو دو دن بعد تیس ہزار سے تجاوز کرگئی حالانکہ اس تعداد کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اسے گھٹا کر بتایا جارہا ہے۔ مرنے والوں کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ دو سو سے کم ہے جبکہ شمشان گھاٹ اور قبرستان اس کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فی الحال بھکتوں کی آنکھوں پر تعصب کی ایسی عینک لگی ہوئی ہے کہ وہ خود اپنی بربادی کو دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ اس صورتحال پر حبیب احمد صدیقی کا یہ شعر مع ترمیم صادق آتا ہے؎
ہائے بیدادسیاست کہ یہ ایں بربادی
ہم کو احساس زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453362 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.