ہمارے جمہوری اصولوں کی پامالی کا معاملہ لگ بھگ 50 سال
سے چلا آرہا ہے۔ جمہوری ڈھانچے میں شاید اتنی سکت نہیں کہ وہ خود کو منوا
سکے۔یا پھر جمہوری قدریں اتنی کمزور ہیں کہ اسے آنے کے لیے بیساکھیوں کا
سہار الینا پڑتا ہے۔ارض وطن میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے کی روایت ایسے دم
توڑ گئی ہے جیسے اس نے آمریت کی کوک سے جنم لیا ہو! جمہوری طاقتوں کی منشا
ء اور عوامی لگاؤ کی طاقت اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ارباب اختیار جمہوریت
کے نام قرعہ نکالتے ہیں اور خو ش نصیب ’’خوش بختی ‘‘ کے حصول کے لئے برضا
ساری شرائط پر بلا مشروط دستخط کرتا ہے۔ کتنی بار بے نظیرو نوازاور زرداری
آئے مگر اقتدار کی بھوک کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔اب عمران اور کتنے ہی درجنوں
آئیں گے اور چلیں جائیں گے۔ یاد رکھیں ! جب نیا آنے والا پوری نیک نیتی
کیساتھ اپنی ذمہ داری و عہدے کی لاج رکھے گا تو پھر کسی تیسرے کو بنیاد
رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی!!
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ریاست ایک باغیچے کی طرح ہوتی ہے اور اس کا نظم
و نسق چلانے والوں کی مثال مالی کی سی ہوتی ہے ۔ مالی اگر خراب کھاد استعال
کرے گا تو لامحالہ باغیچے کا حسن نہ صرف پھیکا پڑھ جائے گا بلکہ انتظام و
انصرام چلانا بھی مشکل ہوجائے گا ۔افسوس! عشروں سے ریاست کے باغیچے کو پانی
دینے کے ذمہ دار مالیوں نے باغیچے کا حسن مانند کیا ہے اور اس کی جڑوں کو
کھوکلا کیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ انسان چھوٹا ہوتا ہے تو
سوچتا ہے کہ بڑا ہو کر ملک و ملت کی خدمت کروں گا اور اپنے اسلاف و اکابرین
کے نقش پا پہ چلنے کی کوشش کروں گا لیکن جب حقیقی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے
تو جاری خوفناک کھیل کا ادراک کرتے ادھیڑعمر گزار دیتا ہے ۔پھر کھلی آنکھوں
سے حالات کی سنگینی میں اضافے کے سوا کچھ نیا نہیں دیکھ پاتا۔ قوموں کی
زندگی عروج و زوال کا مرکب ہوتی ہے مگر جو قوم صبح سے شام تک اﷲ کے آسرے پر
کھڑی ہواور اعمال رتی برابر نہ ہوں وہ بدقسمتی سے محض زوال پذیر رہتی ہے۔
قوموں کی دگردوں حالات کے پیچھے درج ذیل وجوہات کارفرما نظر آتی ہیں۔1۔ظلم
و زیادتی ، حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام چل سکتاہے مگر ظلم کا نہیں!
معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہر صوبے میں ریب کیسیز ہیں۔وڈیرہ شاہی ہے۔ غنڈہ
گردی ہے۔ امیر اور غریب کے لیے الگ قوانین ہیں۔صرف ایک سانحہ ساہیوال کو ہی
لے لیجئے ! اس بوسیدہ نظام کی قلعی کھول کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔2 ۔معاملات
میں بھگاڑ، ہم میں سے ہر شخص جھوٹ بولتا ہے اور فراڈ کرتا ہے۔ہم نمازپڑتے
ہیں، باجماعت پڑتے ہیں اور تکبیر اولی بھی قضانہیں کرتے ! مگر ناپ تول میں
کمی کرتے ہیں!! ہم تہجد اور چاشت بھی پڑتے ہیں مگر کیا وجہ کہ حق کے متلاشی
نہیں ہوتے!! ہم چہرے پر داڑھی سجاکر وضع قطع درست کر کے بھی اخلاقیات کا
دامن چھوڑ دیتے ہیں!! ہم مسلمان رمضان میں بھوکا پیاسا رہ کر بھی اپنی ذاتی
تسکین، عناد اور بری خصلتوں کو نہیں چھوڑتے بلکہ روزہ رکھ کر بھی جھوٹ ،
زیادتی اور بدتمیزی کا سہارا لیتے ہیں!! علامہ اقبالؒ کا جواب شکوہ اس نازل
صورتحال پر مکمل صادق آتا ہے کہ ـ’’یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے
یہود‘‘۔3۔ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے قرضوں کی بھرمار، جو کام پچھلی حکومتوں
نے کیے وہی Legacy آج عمران خان بھی لے کر چل رہے ہیں۔قرضوں کا بوجھ کئی
گنابڑھ چکا ہے۔ فیٹف، ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور دیگر فورمز کے سامنے ہم
بے بس ہیں۔ ہم جس سے قرضے لیتے ہیں اس کی تمام شرائط ماننا پڑتی ہیں جس کی
وجہ سے ہم ہر گزرتے دن کیساتھ اربوں روپے کے مقروض ہو رہے ہیں ۔ خوشحال
ممالک شرح نمو ، مثبت اشاریوں اور عالی منڈیوں میں رسائی کی بات کرتے ہیں
اورہم اپنے اپنے مفادات کے سمیٹنے کی بات کرتے ہیں۔
4۔ مہنگائی ، مہنگائی نے ہر شخص کی کمر توڑ رکھی ہے۔پچھلی حکومتوں میں ایسی
صورتحال کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔نواز شریف کے پچھلے دور میں جو شخص 20 سے
25 ہزار میں گزارا کر لیتا تھا وہ اب 70 سے 80 ہزار روپے کمائے گا تو گھر
کا خرچہ چلے گا۔ مہنگائی 700 سوفیصد تک بڑھ گئی ہے اور حکومت کہہ رہی ہے
ابھی مزید صبرکرنا ہوگا۔ٍ 5۔انوسٹر کی بد اعتمادی، مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ
بڑے بڑے انوسٹرز نے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس پر مستضاد یہ کہ ہماری پالیسی
بھی کاروباردوست نہیں ہے۔6۔ کمزور سیاسی فیصلوں کی بدولت موجودہ حکومت کا
بیانیہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسے میں لگتا ہے جیسے حکومت وقت کرونا کی آڑ
میں خود کو فریم کر رہی ہے اور انتخابات کے وقت بہانہ تراشاجائے گا کہ ہمیں
کرونا نے مارا تھا ورنہ تو ہم بڑے کارنامے دیکھاتے۔ 6۔سیاسی ومذہبی قوتوں
کیساتھ عدم اعتمادکی فضاء قائم رکھنا، نظام نہ چلنے کی بنیادی وجوہات میں
سے ایک ہے۔ کوئی بھی حکومت اپوزیشن کے بغیر نامکمل ہوتی ہے۔ اپوزیشن
جمہوریت کا حسن ہوتا ہے جسے جتنا تراشا جائے اتنا ہی مثبت نتائج نکلتے ہیں۔
7۔ ٹویٹر اور فیس بک حکومت، حکومتی مشینری کا دارومدار فیس بک اور ٹویٹرپر
ہے اوراگریہ دو ہینڈلز نہ ہوتے تو پھر کچے دھاگے کیسے کارگر ثابت ہوتے ۔
کاش فیصلہ سازی میں گزشتہ 50 سے بے اختیار حکومتیں اپنا قبلہ درست کر لیں!! |