لگتا ہے مفاہمت ہوگئی

پونے سات ماہ بعد میاں شہباز شریف کی رہائی کے موقعہ پر جس اندازسے ان کا پھپھسا استقبال کیاگیا اس نے سیاسی مبصرین کو ہلاکررکھدیا ہے جو نئے سیاسی بیانیے کی نشان دہی کرتاہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کی رہائی پر پاکستان کے سیاسی ماحول میں طلاطم پیداہوجائے گا یا وہ حکومت ِ وقت کو للکارکرکے اپوزیشن جماعتوں کا محور و مرکز بن جائیں گے ان کو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔شہباز شریف کی رہائی کے پراسرار خاموشی نے مولانا فضل الرحمن کو سوچنے پر مجبورکردیا جو دوسروں کا کندھے استعمال کرکے عمران خان کی ’’ناجائز‘‘ حکومت کو چلتا کرنے کا متعدد بار دعویٰ کرچکے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا کہ وہ خود استعمال ہوگئے جس کا تمام ترفائدہ آصف علی زرداری نے اٹھاکر یوسف رضا گیلانی کو سیاست میں INکردیا مایوسی،ناکامی اور چپ شاہ بننے پر اب کہاجاسکتاہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی رہائی کے باوجود ان کی خاموشی سے لگتا ہے کہ ن لیگ بھی اب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے کسی حد تک آمادہ ہو گئی ہے اس لئے یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ مستقبل قریب میں مسلم لیگ (ن) کے اندر ’’جارحانہ‘‘ سیاست کا چیپٹرکلوزہوجائے گا اور ’’مفاہمتی‘‘ انداز سیاست کو اپنالیاجائے گا جس سے میاں نوازشریف کا بیانیہ چین ہی چین اور سکون ہی سکون کے سمندر میں غوطے کھا کھاکرادھ مواء ہوجائے گا جب بھی باسی کڑھی میں ابایا اس بیانیے کو کلی کرواکرپھر عوام کی خدمت میں پیش کردیاجائے گا اور کارکن ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے سڑکوں پرفوٹو سیشن کے لئے آدھمکے گے ۔خودساختہ جلاوطن قائد کی نئی ہدایات کے تحت میڈیا میں صرف شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اﷲ، مریم اورنگ زیب اور احسن اقبال جیسے جارحانہ انداز اپنانے والے رہنما ہی پارٹی کی نمائندگی تو کرتے رہیں گے تاکہ کارکنوں کو وقتاً فوقتاً متحرک کیا جاتارہے کیونکہ نیب میں ابھی مقدمات ختم نہیں ہوئے آخر عدالتوں میں پیشی کے موقعہ پر حلق پھاڑ کر نعرے لگانے کارکنوں کی سیاستدانوں کو ضرورت تو ہر وقت رہتی ہے ۔لیکن جناب آثار بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر مسلم لیگ مفاہمتی انداز ہی اپنائے گی یہ میری پیش گوئی نہیں بلکہ یقین کا وجدان ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں مسلم لیگ کے رہنماؤں کی بے بسی کی حد تک خاموشی سے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایوان میں صورتحال ان کے لئے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی۔ ادھر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی اکثریت قرارداد پیش ہونے کے موقعہ پر ایوان سے غائب رہی اس کے باوجود عوام کو متاثرکرنے کے لئے سب سے زیادہ شور مچاتی رہی کہ انہیں قرار داد پر بولنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو چپ کرایا مشکل ہوگیا ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وفاقی سوالات سے قبل پوائنٹ آف آرڈر دینے سے صاف انکار کر دیا تو سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا گیا مزے کی بات یہ ہے کہ اس احتجاج میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے زیادہ پرجوش تو حکومتی ارکان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔بہرحال بات ہورہی بھی میاں شہبازشریف کی رہائی پرسیاسی منظرنامے کی۔شیخ رشیدکو باربار انکشاف کرچکے ہیں کہ ’’میاں شہبازشریف کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اس لئے وہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کے عادی ہیں‘‘۔ حالات بتاتے ہیں یہ بات میاں نوازشریف کو قبول ہے نہ مریم نوازشریف اس صورت حال سے خوش کیونکہ متعدد بار مریم نوازشریف کے قریبی ساتھی ان تحفظات کااظہار کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو ہائی جیک کیاجارہاہے یہ سوچ نہ صرف پارٹی کے اندر تقسیم کی طرف اشارہ کر رہی ہے بلکہ حکومت کے خلاف جارحانہ انداز ِ سیاست کی بھی عکاس ہے میاں شہبازشریف یا مریم نوازشریف کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا انحصار آنے والے حالات پر ہو گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ شہباز شریف کی رہائی ، سیاست میں واپسی اور فعال ہونے سے مسلم لیگ نون میں قیادت کا مرکز تبدیل، مریم نواز شریف کی مداخلت کم اور نون لیگ کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی آجائے گی اس صورت میں فیصلہ سازی میں سنجیدہ رویہ فروغ پائے گا اور ریاستی اداروں بارے سخت موقف میں تبدیلی کا واضح امکان بھی موجود ہے۔ کیونکہ میاں شہباز شریف ہر صورت حکومت بنانا چاہتے ہیں وہ ٹکراؤ کی سیاست پر زیادہ یقین تو نہیں رکھتے اس لئے جذباتی نعرے لگا کر ،تقریر کے دوران ڈائس الٹا کر کارکنوں کو متحرک رکھتے ہیں وہ مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپناکر دیگر سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں۔ یہ اداز ِ فکر ملکی سیاست میں نفرت اور شدت کی کیفیت کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اس کا بڑا نقصان مولانا فضل الرحمن کو ہوگا جن کے بارے میں شیخ رشید کا کہناہے کہ مولاناکوقلق ہے کہ وہ تحریک ِ لبیک کی احتجاجی تحریک سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھاسکے اب اس ماحول میں مریم نواز پس منظرمیں چلی گئیں توPDMکا بچا کچھ بھرم بھی جاتا رہے گا۔ یہ تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی کہہ دیا ہے کہ مریم نواز پی ڈی ایم کے صدمے سے باہر نہیں آپا رہیں، شہباز شریف کے باہر آنے کے بعد مریم نواز کو مسلم لیگ ن میں اپنے مستقبل کا خود معلوم نہیں ۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ٹھنڈے ٹھار بیانات سے ظاہرہوتاہے ان کے معاملات طے ہوگئے ہیں یا حکومت سے مفاہمت ہوگئی ہے ۔ موجودہ سیاسی حالات کے تناظرمیں کہاجاسکتاہے کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور اس اپوزیشن سے انہیں کوئی خطرہ نہیں کرونا سے ملکی معیشت محفوظ رہی تو ملکی ترقی عوام کی حالت بہترہوجائے گی۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.