امریکہ میں عمران خان کی کشمیری بزنس مین فاروق
کاٹھواری سے ملاقاتیں بھی مشرف فارمولے، چناب یا کسی نئے ڈکسن پلان کے
احیاء کا پتہ دیتی ہیں۔یہ در پردہ اور ڈرامائی انداز کیسا ہے کہ جسے خفیہ
ڈپلومیسی کی رنگت دینے سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔ مشرف فارمولے کی طرز کی
یہ رازداری کی سفارتکاری یک طرفہ گرمجوشی اور کسی سمجھوتے کو ظاہر نہ بھی
کرے مگر اس سے سودا بازی کی بو ضرور آ رہی ہے۔ان معاملات کو بعض دیگر
سرگرمیوں سے جوڑ کر پرکھا جائے توحیران کن منظر کشی کا پتہ چلتا ہے۔ یوم
پاکستان پر بھارتی وزیراعظمکے وزیراعظم عمران خان کے نام پیغام کے بعد کیا
اقدامات ہونے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں ہر کوئی تجزیہ کر رہا ہے اور محتاط
اندازے لگا رہا ہے۔ کوئی تعجب نہ ہو گا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ہائی
کمشنرز اسلام آباد اور نئی دہلی میں اپنی ذمہ داریوں پر واپس آ جائیں۔ہو
سکتا ہے کہ سارک سربراہ اجلاس بھی اسلام آباد میں منعقد ہو اور اس میں
نریندر مودی بھی شرکت کرنے آئیں اور ان کا ریڈ کارپٹ استقبال بھی کیا جائے۔
تا ہم میڈیا میں اس ثالثی کا ذکر ملتا ہے جس کے تحت پہلے پاکستان اور بھارت
کی افواج کے درمیان سیز فائر او دیگر امن معاہدوں پر مکمل عمل کرنے پر
مفاہمت ہوئی اور اس سلسلے میں مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ یہ بیان اس وقت
جاری ہوا جب وزیراعظم عمران خان 22جروری2021کو سری لنکا کا دورہ کرنے کے
لئے نریندر مودی حکومت سے بھارتی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت مانگ رہے
تھے۔ مودی حکومت نے انہیں بھارتی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔جب
کہ پاکستان نے اس میں سری لنکا حکومت کا بھی کردار نمایاں رہا۔ کیوں کہ اس
کے جواب میں سری لنکا کی پارلیمنٹ سے عمران خان کا خطاب روک دیا گیا۔ جس
میں وہ پاک بھارت تعلقات اور مسلہ کشمیراٹھانے والے تھے۔ اب عمران خان ،
مودی کو ہٹلرقرار دینے سے بھی باز آ چکے ہیں۔ پاکستان میں کشمیر پر چند
منٹوں کی خاموشی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ امریکی میڈیا کمپنی’’ بلوم برگ ‘‘نے
پاک بھارت سیز فائر اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں متحدہ عرب امارات کی ثالثی کا
انکشاف کیا جس پر دونوں ممالک نے خاموشی اختیار کی ہے۔26فروری کو متحدہ عرب
امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبد اﷲ بن زائید نے دہلی کا دورہ کیا۔ انھوں نے
اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ بات چیت کے دوران لاک بھارت امن
عمل کو بھی زیر بحث لایا۔ اس ثالثی کا اعتراف یا انکار نہیں کیا جا رہا
ہے۔امارات کے کسی نامعلوم افسر سے منسوب کی گئی یہ خبراگردرست ہے کہ دونوں
ممالک’ ’پائیدارامن کے چار نکاتی روڈ میپ‘‘پر کام کر رہے ہیں، تو پھر اب
پاک بھارت ہائی کمشنرز دوبارہ اپنی پوزیشنز پر چلے جائیں گے۔ پھر تجارت
شروع ہو گی اور نام نہاد جامع مذاکرات کا وہی روایتی دور بھی لوٹ آئے گا۔
بھارت کے 5اگست2019کے کشمیر سے متعلق یک طرفہ اقدامات کے بعد پاکستان نے
نئی دہلی سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا تھا۔شیخ زائید عمران خان سے بھی
ٹیلی فونک بات چیت کر چکے ہیں۔فروری 2019کو بالاکوٹ حملے اور پاکستان کے
سرپرائز کے بعدابو ظہبی کے شہزادہ محمد بن زائید النیہان نے پاک بھارت
وزرائے اعظم کو ٹیلیفون کئے تھے۔
بھارتی فوج رواں سال پاکستان میں8ممالک کی مشترکہ فوجی مشقوں میں ھصہ لے
گی۔ جو انسداد دہشتگردی سے متعلق ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کے ریجنل انٹی
ٹیرر سٹریکچر نے اس کا اعلان کر دیا ہے۔چند دن بعد 30مارچ کو وزیر خارجہ
شاہ محمود قریشی اور ایس جے شنکر تاجکستان کے شہر دوشنبے میں’’ ہارٹ آف دی
ایشیا‘‘کانفرنس میں شرکت کے دوران بات چیت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے انڈس
واٹر کمشنر مہر علی شاہ کی زیر قیادت 8رکنی وفد نے گزشتہ دنوں بھارت کا
دورہ کیا۔ بھارتی انڈس واٹر کمشنر پردیپ سکسینہ کی زیر قیادت وفد سے بات
چیت کے کئی دور مکمل کئے ہیں ۔یہ بات چیت دو سال بعد بحال ہوئی ہے۔ بھارت
اور بنگلہ دیش کا بھی جوائینٹ ریورز واٹر کمیشن ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان
ٹیسٹہ ، سرحدی تنازعات ہیں۔ 26مارچ کو مودی ڈھاکہ کا دورہ پر ہیں۔ وہ
وزیراعظم شیخ حسینہ سے 2015میں بھی دورہ بنگلہ دیش کے دوران تنازعات پر بات
کر چکے ہیں۔ مگر بھارت کی دباؤ اور جارحیت کی پالیسی شاید بنگلہ دیش کو
سمجھ آ رہی ہے۔ اس لئے وہ مزید دباؤ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کے ساتھ ان کے پاکستانی ہم منصب
ڈاکٹر معید یوسف کی بات چیت سے ڈاکٹر صاحب انکار کر چکے ہیں۔ تو پھر بھارتی
حکام کے ساتھ اسلام آباد کی طرف سے کس نے بات چیت کی۔ اس بارے میں ابھی تک
کچھ سامنے نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
گزشتہ دنوں ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا بیان دیا ہے۔ وہ پاک بھارت
تعلقات کی تاریخ میں نیا باب رقم کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے
اپنی مدت ملازمت میں توسیع بھی مسلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل
کرنے کے نیک جذبے کے ساتھ لی ہو۔ یہ سب مستقبل میں سامنے آ جائے گا۔ ہو
سکتا ہے کہ بھارت بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دے ۔ مگر
اسے اعتماد سازی کا قدم قرار دینے میں عجلت نہیں کی جائے گی۔
عمران خان حکومت اور اپوزیشن کی مکمل توجہ باہمی مخاصمانہ سیاست پر مرکوز
ہے۔ انہیں دیگر ذمہ داریوں کے لئے فرصت نہیں۔وزیراعظم عمران کسی بھی صورت
میں اپوزیشن کو نہ چھوڑنے اور اپوزیشن عمران خان کے استعفےٰ تک پیچھے نہ
ہٹنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ سینٹ پر اپوزیشن حاوی ہو چکی ہے۔ یہ یقینی ہے
کہ چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ بھی اپوزیشن کے ہی ہوں گے۔ پاکستان اور
بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور اس عدم توجہی کے دوران سیز فائر پر مکمل
عمل در آمد کا اچانک معاہدہ ہو جانا حیران کن ہے۔ اگر چین کے لئے اپنی
سرمایہ کاری کی ضمانت خطے میں وقتی طور امن کا قیام یقینی بناکر لی گئی ہے
تو شدت پسند مودی حکومت اس پر کیسے راضی ہوئی اور اب کیا ہوگا۔ یہ سوال ہر
کوئی پوچھ رہا ہے۔سیز فائر کا امریکہ کی جانب سے خیر مقدم اور پھر کشمیر کو
بھارت کا حصہ قرار دینابھی سیز فائر کے حالیہ معاہدے سے جڑا معاملہ ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان میں اپنے مستقل اڈے کے قیام یا فوجی انخلاء
کے لئے اسلام آباد کے تعاون کی ضرورت ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ چین کے ساتھ
لداخ اور ارونا چل پردیش میں کشیدگی کے دوران دوسرے محاذ کو گرم نہ ہونے
دیا جائے۔ اس طرح کشمیر مسلہ کے حل اور افغان امن عمل میں تعلق یا اہمیت کو
سمجھنے میں بااختیار حلقے بظاہر تذبذب کا شکار ہیں۔
پاک بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کا انحصار کسی طور بھی سیز
فائر پر نہیں۔ یہ تاریک سرنگ میں کوئی روشنی کی کرن بھی نہیں اور نہ ہی اس
سے برف پگھلنے کی کوئی نوید سنائی دے رہی ہے۔ اگر اسلام آباد اور دہلی کے
درمیان امریکہ یا چین یا عرب دوست ممالک کی طرف سے یا ٹریک ڈپلومیسی سے
کوئی مفاہمت ہوئی ہے تو پھر آئیندہ دنوں میں سارک سربراہ اجلاس کے اسلام
آباد میں انعقاد اور مودی کے ریڈ کارپٹ استقبال کے لئے سرگرمیوں و تیاریوں
کے اشارے ملنے لگیں گے۔اس سے پہلے دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز بھی اپنی ذمہ
داریاں سنبھال لیں گے۔ پاک بھارت افواج کے درمیان جنگ بندی کے اعلان سے
کوئی چونک پڑے یا حیران ہو تا ہم اب یہ حقیقت ہے۔سیز فائر کے اعلان کی
عبارت بھی مختصر اور مخصوص جملوں پر مشتمل ہے۔کچھ دنوں پہلے تک بظاہرپاک
بھارت کے مابین بیک ڈور ڈپلومیسی کے آثار اور کسی واضح عندیہ کے نشانات
کہیں دور دور تک بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس اعلان کے منصہ? شہود پر
آتے ہی سیاسی میدانوں میں کھلبلی حق بجانب قرار دی جاسکتی ہے۔یہ درست ہے کہ
مودی سرکار کی طاقت کے سر چشمے ہی بابری مسجد، کشمیر اور پاکستان رہے
ہیں۔کشمیر پر نظر رکھنے والے بعض مبصرین کاخیال ہے کہ بابری مسجد کاچشمہ اب
ایک طرح سے سوکھ چکا ہے اور مستقبل میں اس سے کوئی سیاسی پانی باہر آنے
والا نہیں، یعنی ان تلوں میں تیل نہیں رہا۔اب صرف دو ایشوز ہیں،ایک کشمیر
اور دوسرا پاکستان۔ کشمیر کے سیاسی چشمے میں پانی پر بند باندھے گئے
ہیں۔تیسرا پاکستان کا چشمہ ابھی موجود ہے اور رہے گا۔ ان تینوں ایشوز کے
سہارے ہی حکومتیں بنتی اور گرتی رہیں۔ اس لئے سیز فائر کا اعلامیہ ابھی تک
معمہ بنا ہوا ہے۔ بیک چینل ڈپلومیسی نے اپنا رنگ دکھایا ہے ۔ سابق سفارتکار
عبد الباسط اس معاہدے کو بھارت کے حق میں اور پاکستان کی خود کشی کے مترادف
قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کے سیاسی لیڈروں کے بیانات کے تناظر میں بھی یہ
معاہدہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ بھارت کا اوڈھنا بچھوناہی پاکستان سے نفرت
اور مخاصمت ہے۔ بھارت کی چین کے ساتھ مخاصمت کا بھی کچھ دنوں پہلے اختتام
بھی ناممکن سی بات دکھائی دیتی تھی لیکن بھارت نے یہ اعلان کیا کہ وہ ایک
نافذالعمل نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔بھارت کی توجہ دو محاذوں پرمنقسم تھی
اوردہلی سرکار لداخ میں چین کے اقدامات میں پاکستان کا دخل قرار دیتی تھی۔
چین کے ساتھ معاہدے کے چند روز بعد پاکستان کے ساتھ کشمیر سیز فائرکے پیچھے
شاید بہت کچھ ہو،جو ابھی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ عبدالباسط کا وہ بیان اہم
اور معنی خیز ہے کہ پاکستان کا نریٹیو کشمیر پر کمزور پڑ جائے گا۔ دوسری
طرف جن سنگھی پاکستان مخالفت میں جب تک نت نئے بیانات نہیں داغتے، انہیں
کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا، وہ بھی اس معاہدے پر خاموش ہیں۔کچھ تو ہے جس کی
پردہ داری ہے۔ سرینگر میں بھارتی فوج کی 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل
بی ایس راجو،جو کہ بھارتی فوج کے نئے ڈی جی ملٹری آپریشنز مقرر ہو چکے
ہیں،نے کہا اس معاہدے سے بھارت دراندازی سے محفوظ ہوجائے گا۔72 سالہ
کشمیر،بھارت اور پاکستان کی تاریخ میں کئی معاہدات بھی ہوئے ہیں جن میں
تاشقند، شملہ، اعلان لاہور جیسے معا ہدات بھی شامل ہیں۔ لیکن ہر بار ایک
چھوٹی سی مدت کے بعد یہ معاہدات فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔امن اور دوستی سب
سے پہلی اور بڑی ضرورت کشمیریوں کی ہے۔ کشمیر میں بھارت قبرستان جیسا امن
اور خاموشی چاہتا ہے۔بھارت ،کشمیر کو دو طرفہ سرحدی تنازعے کے طور پر پیش
کرتا ہے۔عمران خان حکومت اور اپوزیشن اقتدار کی لڑائی میں مصروف ہے۔اس لئے
کوئی نہیں جانتا یہ معاہدہ کب تک برقرار رہے گا مگر جب تک کشمیرکا ناسور
موجود ہے۔اس مسلے کو حل کئے بغیربارود کے ڈھیر پر موجوداس خطے میں امن کا
دیرپا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ سیز فائر معاہدے، امن بات چیت کے
بغیر کوئی مسلہ حل نہیں ہوا ہے۔ اگر بھارت سیز فائر اور امن و تجارت کے لئے
سنجیدہ ہے تو مقبوضہ کشمیر میں قتل عام، کریک ڈاؤن ، قید و بند، گرفتاریاں
، غیر ریاستی بھارتی اور بنگلہ دیشی ہندو باشندوں کو70سال بعد ڈومیسائل
جاری کرنے، انہیں کشمیر میں ملازمتیں، ووٹ کا حق دینے، کشمیریوں کو ان کی
زمین و جائیداد سے بے دخل کرنے کے کیا مقاصد ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کا
تازہ امن روڈ میپ جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی طرح کشمیر کی قیمت پر
پروان چڑھتا ہے تواس امن ، دوستی اور تجارت کے دیر پا اورپائیدار ہونے کے
امکانات مخدوش ہوجائیں گے۔
|