اکلوتی بیٹی اور گھر کی واحد کفیل پر بھارت سے
بغاوت کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس نے رات کے اندھیرے میں قابض بھارتی
فوجیوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا ، ان کی مزاحمت کی۔اس کی یہ بہادری
بھارت سے بغاوت قرار دی گئی۔ رمضان المبارک کے آغاز پر واحد سہارا بیٹی کی
گرفتاری،اس کی نوکری سے برطرفی اور مسلسل قید و تشدد نے بے سہارا اور مریض
والدین کو لاچار اور بے بس کر دیا ہے۔ وہ دانہ دانہ کے محتاج ہو گئے
ہیں۔2014کے سیلاب میں گھر تباہ ہوا، اب اکلوتی بیٹی قید میں ہے۔کینسر کی
مریض والدہ کا علاج کیسے جاری رہے گا۔ ذہنی طور معذور والد کی دیکھ بھال
کون کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے تقریباً ہر گھر کی ایسی ہی کہانی ہے۔ تین
دہائیوں سے یہاں لوگ اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔16اپریل کو صائمہ اختر کے
خلاف پولیس تھانے میں تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 اور غیر قانونی سرگرمیوں کے
انسداد کے ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت(19/2021 U/S 353 IPC, 13 ULA(P) Act)
مقدمہ درج کیا گیا ۔غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ کی اس دفعہ کے
تحت اگر ملزم پر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی وکالت کرنے یا اس میں مدد
دینے، اس سلسلے میں مشورہ دینے یا اس کے لیے اُکسانے کا الزام ثابت ہوتا ہے
تو اُسے سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور اس پر جرمانہ بھی عائد
کیا جا سکتا ہے۔تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 کا تعلق کسی سرکاری ملازم پر حملہ
کرنے یا ایسی مجرمانہ طاقت استعمال کرنے سے ہے جس کا مقصد اس کی ذمہ داری
کی انجام دہی میں رخنہ ڈالنا ہو یا اس سے ایسی صورتِ حال پیدا ہو جو اس کے
قانونی کام کاج میں مداخلتِ بے جا کا موجب بن جائے۔الزامات درست ثابت ہونے
کی صورت میں ملزم کو دو سال تک کی قید یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا
سکتی ہیں۔علاقے کے لوگ بھی بھارتی فورسز کے آپریشنز سے تنگ ہیں اور وہ
فورسز کی مزاحمت کرنے کا دفاع کر رہے ہیں۔قابض فورسزپہلے بھی کئی مرتبہ ان
کے محلے میں آئے تھے۔ صائمہ کے گھر کی بھی باریک بینی سے تلاشی لی گئی اور
انہیں ہراساں کیا گیا۔ صائمہ کی والدہ کافی عرصے سے بیمار ہیں۔ فورسز کے
جارحانہ طرزِ عمل سے ان کی صحت مزید بگڑ گئی ہے۔ نہ صرف پورا خاندان سہما
ہوا ہے بلکہ پورے محلے پر خوف طاری ہے۔ فورسز شہریوں کو تنگ کرنے کی اپنی
ڈیوٹی انجام دینے کے لیے اس علاقے میں گئے تھے اور فورسز ہر کسی کو بلا وجہ
تنگ کرتے ہیں۔اب فورسز نے نئی تحویل پیش کر دی ہے۔خاتون پولیس افسر کو
سبکدوش کرکے گرفتار کرنے کی کارروائی پر شدید تنقید کے جواب میں پہلی بار
یہ الزام لگایا گیا ہے کہ صائمہ اختر نے بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں
نعرے بازی کی جس سے ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق
ایکٹ کے تحت تعزیراتی کارروائی کرنے کے لیے جواز فراہم ہوتا ہے۔اس سے پہلے
پولیس کے 16 اپریل کے بیان میں خاتون کے خلاف اس طرح کے کسی الزام کا ذکر
نہیں تھا۔تازہ الزامات میں فورسز نے کہا کہ صائمہ اخترمجاہدین کے ایک مشتبہ
اوور گراؤنڈ ورکر کے طور پر پولیس کے شک کے دائرے میں تھیں۔ اسی لیے ان کے
گھر کی تلاشی لینا مقصود تھا۔بھارتی فورسز اپنی ظالمانہ اور مجرمانہ
کارروائیوں چھپانے کے لئے مجاہدین کی آڑ لینے کا حربہ آزماتے ہیں۔
صائمہ اختر کو نوکری سے برطرف کرکے گرفتار کرنا نریندر مودی کے دور میں
اربابِ اقتدار کے تعصب اور عدم برداشت کی ایک تازہ مثال ہے اور پولیس اور
قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی دھونس، جبر و استبداد اور خود پسندی
کی عکاسی کرتا ہے۔ِ صائمہ اختر کی جانب سے ان کے گھر پر بلا وجہ اور بار
بار تلاشی لینے پر جائز سوالات اٹھانے پر غیر قانونی سرگرمیوں کے کالے
قانون کونافذ کر دیا گیا ۔بھارتی فورسز اپنے مظالم میں اضافہ کرتے ہوئے
کشمیر میں بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشتے۔جب نہتے اور معصوم کشمیریوں
کو ان کے گھر میں قابض فورسز گھس کران کی شناخت دریافت کریں اور اہلخانہ کو
ہراساں کریں تو اس کے نتیجے میں سخت ردعمل حقائق پر مبنی ہے۔اقوام عالم
اورانسانی حقوق کے عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارت کی ریاستی
دہشتگردی کا نوٹس لینا چاہیئے اور بھارت کے ظلم و جبر سے کشمیریوں کو آزاد
کرانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔
5اپریل کو بھارتی فورسز نے بڈگام میں بی جے پی سے وابستہ سیاستدان پر حملے
کے الزام میں کانہامہ، بڈگام کی دو نوجوانطالبات 22سالہ تبسم مقبول
اور23سالہ انجم یونس کو کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔رام باغ پولیس
سٹیشن میں ان پر دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔دختران ملت کی
سربراہ محترمہ آسیہ اندرابی تین سال سے بھارتی بدنام زمانہ جیل تہاڑ میں
قید ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر خواتین ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی بھی آزادی
پسندی کے جرم میں قید ہیں۔ محترمہ اندرابی 12سال سے بھارتی قید و بند کی
صوبتیں جھیل رہی ہیں۔ ہزاروں خواتین اپنے شوہر، والدین، بھائیوں کے بھارتی
فورسز کے ہاتھوں قتل اور قید یا زیر حراست لاپتہ ہونے کی وجہ سے ذہنی امراض
کی شکار ہیں۔مگر خواتین کے نام پر کاروبار کرنے والے یہاں خاموش ہیں۔
بھارتی فورسز اور کشمیر پولیس کی بدنام زمانہ ٹاسک فورس نے مجاہدین کے ساتھ
تعاون کے الزامات لگا کر کشمیری بچیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ تیز کیا ہوا
ہے۔ لیکن خواتین کے نام نہاد حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے این جی اوز
اور موم بتیاں جلانے والی خواتین خاموش ہیں۔ معصوم اور نہتی کشمیری خواتین
پربھا رتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے انہیں این جی اوز ڈالر، پاؤنڈ ،
یورو نہیں دیتیں۔اس لئے وہ اسلام آباد میں بھارتی سفارتی مشن یا دیگر عالمی
اداروں کے دفاتر کے باہر احتجاج کرنے کے لئے مہم چلانے سے قاصر ہیں۔ مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی فوج نے خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی آسیہ جیلانی
کو کپواڑہ میں 21اپریل2004کو دھماکے میں شہید کر دیا تھا۔ پاکستان، آزاد
کشمیر اور سمندر پار آزاد خطوں میں متاثرہ کشمیری خواتین کے لئے آواز بلند
کرنے کے لئے امن اور انصاف پسندوں کو سامنے آنا چاہیئے تا کہ دنیا کے سامنے
کشمیری خواتین پر بھارتی مظالم اور ریاستہ دہشتگردی کے حقائق سامنے آ سکیں۔
|