وگرنہ ہمارا آج یہ حال ہوتا ہم دنیا سے اس قدر پیچھے ہوتے
۔ ہمارے پاس کیا نہیں ہے ۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارا اپنا کچھ نہیں ہے ۔
کیا جہاں سے آمدن نہ ہو وہاں کبھی کوئی تاجر گیا ہے ؟
ہمارے اوپر تو صدیوں حکومت ہی تاجروں (ایسٹ انڈیا کمپنی) نے کی ہے ۔ کیا وہ
کھنڈرات میں تجارت کرنے آئے تھے ؟
نہیں تاجر وہاں جاتے ہیں جہاں مال و دولت کی ریل پیل ہو مگر وہاں کے وسنیک
جدید دور کی ایجادات اور ہنر میں بہیت پیچھے ہوں ۔
کیا بینک کبھی اجڑے ہوئے گھروں کو قرضہ دیتے ہیں ؟
کبھی نہیں
وہقرضہ ان کو دتے ہیں جن کے پاس اثاثے تو بے بہا ہوں مگر وہ نکمے اور عیاش
ہوں انکو عیاشی کے لئے دور جدید کی سہولیات چاہیں ہوں ۔
آج بھی اگر دنیا کے مالیاتی ادارے ہم پر مہربان ہیں تو وہ پاغل نہیں وہ
یہاں سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں اور بہت کچھ کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ وہ
اپنی اسی چال کو دہرا رہے ہیں جیسے پہلے انہوں نے تجارت کی صورت ہم پر غاصب
حکومت یہاں رہ کر کر رہے تھے اب وہ وہیں بیٹھ کر اسی طرح کی حکومت ہمارے
اپنے ہی لوگوں کی صورت حکمرانوں سے ہم پر کروا رہے ہیں ۔
ہم ہیں کہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہوئے ۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ ہم پر
سے ڈنڈوں والے ہٹا کر ایک بہت بڑے ہماری مرضی کے میدان میں آزاد چھوڑ دیا
کہ اب آپ آزاد ہو مگر یاد رکھو کہ تمھارے سارے معاملات ہماری مرضی سے ہی
چلیں گے ۔
آج بھی ہم اپنے سارے معامللات ان کی مرضی سے چلانے کے پابند ہیں اور جو اس
فرمان سے بغاوت کرتا ہے وہ اپنے ہی ملک کا غدار بن جاتا ہے ۔
ہم اپنی مرضی سے اپنے معاملات نہیں چلا سکتے ۔
ہم محض مزدور ہیں سب کچھ اگاتے ہیں اور ہیرا پھیری سے اور تو اور اناج تک
اپنے ہی طے کردہ اصولوں کے خلاف اپنی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے
ہی ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں اور پھر اپنی ضرورت کے لئے اناج دوسروں سے
زیادہ قیمت پر منتوں سماجتوں سے لیتے ہیں اور جو اضافی پیسے ہمیں ادا کرنے
پڑتے ہیں وہ ان کے ہی اداروں سے قرض لے کر ان کو ہی ادا کردیتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ ان پیسوں کو بمع سود ادا کریں گے اور وہ سود بڑھتے بڑھتے اتنا
بڑھ چکا ہے کہ اس پر سود در سود لگتا جارہا ہے ۔
ہم نکمے بیٹھے ہیں مگر عیاشیاں نہیں چھوڑیں ۔ جہالت کا یہ حال ہے کہ جو
کوئی کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کو ہمارے نام نہاد بڑے اس ڈر سے نہیں
کرنے دیتے کہ کہیں یہ نیک نامی نہ اکٹھی کر لے ۔ حد ہوگئی ہے جہالت ،
منافقت اور نکمے پن کی ۔
اور جو سوچتا ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ، منتیں سماجتیں کرتا ہے کہ
آپس کی لڑائی چھوڑو اور آنے والی نسلوں کے لئے کچھ کرو اس کو جیل میں ڈال
دیا جاتا ہے کہ تم ارسطو بننے کی کوشش نہ کرو ورنہ ہمارا استاد ابلیس ناراض
ہوجاتا ہے ۔
پھر ہر سال ہم آزادی کے جشن مناتے ہیں اور وہ بھی قرضے کے پیسے سے
واقعی ہمارا سسٹم (حوش و حواس ) اب ڈیٹ نہیں ہے ۔
اگر ہم واقعی سوچتے تو آج ہماری یہ حالت ہوتی ۔
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سب رائیگاں کر رہے ہیں یہاں تک کہ اپنی توانائیاں ،
صلاحتیں اور دانش سب کچھ غلط استعمال کرکے ضائع کررہے ہیں ۔ ہماری منفی سوچ
نے سب کچھ صرف رائیگاں ہی نہیں کیا بلکہ ہمارے لئے مصائب کا موجب بنا دیا
ہے ۔ ہم نے اپنی ان صلاحیتوں ، توانائیوں اور دانش کو پوری طرح سے استعمال
کرتے ہوئے اپنا سب کچھ تباہ کرکے اپنی نسلوں کو صدیوں کے لئے غلام بنادیا
ہے ۔
جو ملک ہمارے آباؤاجداد نے قربانیوں سے آزاد کروا کر دیا تھا اسے ہم نے
اپنی نااہلیوں کی بدولت گروی رکھ دیا ہے ۔
ہم بنیادی طور پر ہیں ہی غلام اور ہم عوامی نمائندے بن کر بھی عوام کی غلام
نمائندے بننے پر ہی فخر محسوس کرتے ہیں ۔ جب ہمارے اپنے عوام کے نمائندے
حکومت چلانے کے عہدے پر پہنچ کر بھی کسی کے اشاروں یا حکم کے پابند ہوں تو
اس کا مطلب ہوا کہ ہم غلام نمائندہ ہیں اور اس پر اگر ہماری قوم سراپا
احتجاج نہ ہو بلکہ اس کو ہی اپنی عزت و تکریم سمجھے تو اس کا مطلب ہوا کہ
ہم غلام قوم کے ہی نمائیندہ ہیں ۔
یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے نمائیندے حکومت میں پہنچتے ہیں اور اپنی عیاشیوں کے
لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیتے ہیں اور ہم ان کو روکنے کی بجائے اس
کوان کی اہلیت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی نا اہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہم
عوام کے نام پر قرضہ لے کر بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں تو پھر وہ
ہم جاہل اور غلام قوم کے نمائندے نہیں تو اور کیا ہے ؟
ہمیں اس سارے معاملے کی کوئی فکر نہیں بلکہ
ہم اپنے تماشوں میں لگے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا کیسے دکھائیں
کل
شہباز شریف نہاتے دہوتے رہ گئے ۔ ائیرپورٹ سے بمعہ وفد واپس گھر کو لوٹ گئے
۔
یہ وقت وقت کی بات ہے ۔ کبھی تو ہم خادم اعلیٰ کے نام سے بادشاہ ہوتے ہیں
تو کبھی پاکستان کی سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعت کے سربراہ
ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کی سیٹ کی نمائیندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور
ریاست کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔
خیر یہ سارے زمانے کے روپ ہیں جو باعث سبق بھی ہیں اور باعث عبرت بھی ۔
تکلیفوں اور مصائب میں شرمندگی یا ناکامی نہیں ہوتی بلکہ ناکامی ان کے آگے
سرنگوں ہوجانے میں ہوتی ہے ۔ ناکامی برے کام کو اچھا سمجھ رہے ہونے میں
ہوتی ہے ۔ ناکامی اور شرمندگی اپنے ہی پنائے ہوئے اصولوں کے منافی کام کرنے
میں ہوتی ہے ۔ ناکامی اور شرمندگی اپنے ہی اداروں کے رسوائی کرنے میں ہوتی
ہے ۔ ناکامی اور شرمندگی اپنی توانائیوں اور دانش کو غلط طریقے سے ضائع
کرنے میں ہوتی ہے ۔
جب ایسی ہی روایات کو اپنا فخر بنا لیا جاتا ہے تو پھر تکلیفیں ، مصائب ،
شرمندگیاں اور ناکامیاں سر کا تاج بن جاتی ہیں پھر اس تاج کے نیچے سے سر تو
بدلتے رہتے ہیں مگر تاج وہی رہتا ہے ۔
شہباز شریف کو روکا اس لئے گیا کہ ہمارے اپنے ہی ادارے کا ایک اہلکار یہ
کہتا ہے کہ ان کے پاس سسٹم اپ ڈیٹ نہیں ہے ۔ کتنا بڑا دھوکا ہے اپنے آپ کے
ساتھ کتنا بڑا دھوکا ہے اپنے ملک کے ساتھ ، کتنا بڑا دھوکا ہے انصاف کے
ساتھ ، کتنا بڑا دھوکا ہے اپنی قومی اور ملکی عزت وتکریم کے ساتھ ۔
کہ ہم کتنے سرگرم ہیں کہ عدالتی حکم کو اپنے سسٹم میں اپ ڈیٹ نہیں کرسکتے ۔
کتنا وقت درکار ہوتا ہے اس کے لئے بشرطیکہ ہم کرنا چاہیں تو !
ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ
یہاں پر عدالتوں کا کتنا احترام ہے
یہاں پر قانون کی کتنی حکمرانی ہے
یہاں پر آئین کتنا بااختیار ہے ۔
کیا ہوجاتا اگر شہباز شریف ملک سے باہر چلا جاتا ، زیادہ سے زیادہ وہ واپس
نہ آتا تو مفرور ہوجاتا ۔ اپنی ہی رسوائی کرواتا کم ازکم ہمارے قانوں ،
آئین اور ملک کی رسوائی تو نہ ہوتی ۔
آج شہباز شریف ہے تو کل کو کوئی اور ہوگا ۔ آج روکنے والا کوئی اور ہے تو
کل کوئی اور ہوگا ۔
دنیا جدید ٹکینالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم
اپنے آپ کو ناکام ثابت کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے لیسے نطام کو بہت
ساری مالیت لگانے کے بعد اس کو استعمال کرنے سے یا تو قاصر ہیں یا پھر اگر
استعمال کرتے بھی ہیں تو اس کو بٹھا کر اپنے غلط مقاصد کے لئے استعمال کرنے
کی اعلیٰ مثالیں قائم کئے ہوئے ہیں ۔
مجھے دو ہزار تیرہ میں بلجیئم سے ایک کارنفرنس میں دعوت نامہ ملا میں نے
ویزہ کے لئے اسلام اباد میں انکے کونسلیٹ میں درخواست دی ۔ وقت کم تھا لہذا
ایک ہفتہ کے بعد میں نے ایمبیسڈر کے نام ای میل میں جلدی ویزہ کے لئے
درخواست کی تو مجھے ٹھیک اگلے دن جواب موصول ہوا کہ آپ کی فائل اپروول کے
لئے برسلز بھیجی ہوئی ہے اور ساتھ ہی مجھے بلجئیم کی وزارت داخلہ کے ویب
سائیٹ اور میری فائل کے ریفرنس نمبر کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ میں اپنی
فائل کا سٹیٹس آن لائن دیکھ سکتا ہوں ۔
خیر میں نے ان کے ویب سائیٹ پر جاکر اپنی فائل کا نمبر دیا تو مجھے ان کی
زبان میں اپ ڈیٹ ملیں جسے میں نے انگریزی میں ٹرانسفر کیا تو پتا چلا کہ
میری فائل پر کام ہورہا ہے ۔
پھر دو دنوں کے بعد دوبارہ میں نے چیک کیا تو پتا چلا کہ میرا وہزہ اپروو
ہوکر واپس اسلام آباد ایمبیسی بھیج دیا گیا ہے اور ویزہ آفیسر کچھ اضافی
ڈاکومنٹ لے کر ویزہ جاری کردے گا ۔ ابھی میں انکی طرف سے اس میسیج کا
انتظار ہی کررہا تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ میرا ویزہ لگ گیا ہے اور میں
وصول کرسکتا ہوں ۔ انہوں نے وقت کی کمی کے پیش نظر اضافی ڈاکومنٹ کے بغیر
ہی ویزہ جاری کردیا ۔
انکا یہ ساری معاملہ آن لائن ہوا تھا سکرننگ اور اپرول آن لائں آگئی تھی
ہم ساری سہولتیں ہوتے ہوئے بھی سسٹم کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہیں ملک ترقی
نہ کر جائے ۔
ہمارے تمام اداروں کے ویب سائیٹس بنے ہوئے ہیں مگر آج تک کسی نے اگر آن
لائن رجوع کریں تو جواب نہیں دیا سوائے اسٹیٹ بینک کے ۔ ایک دفعہ میں نے
ضرورت پڑنے پر اسٹیٹ بینک سے رجوع کیا اور انہوں نے اگلے دن ہی مجھے فون پر
کال کرکے تفصیل لے کر میرا مسئلہ حل کر دیا تھا ۔ پاکستان میں بھی کہیں
کہیں اچھی مثالیں موجود ہیں مگر مجموی طور پر حالات قابل شرمندگی ہی ہیں ۔
فیشن کے طور پرہم نے رکھا ہوا ہے سب کچھ ۔
ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہمیں کسی اور نے تباہ و برباد نہیں کیا بلکہ اس ساری
داستان کے ہم خود ہی شاہکار ہیں ۔
اگر یہ سارے کی ساری توانائیاں ، دانش اور صلاحتیں منفی کی بجائے مثبت طرف
میں صرف ہورہی ہوتیں تو آج ہم دنیا کے مقروض اور غلام قوم نہ ہوتے بلکہ
حکمرانی کرنے والے اور آسانیاں بانٹنے والے ہوتے ۔
|