کے فور منصوبے کی بروقت تکمیل ۔۔انتظار تو ہے مگر یقین نہیں۔

کراچی اس وقت جہاں زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات سے محروم دکھائی دیتاہے وہاں اس شہر میں دن بہ دن پانی کا مسئلہ بھی سنگین سے سنگین تر ہوتاچلا جار ہاہے ،اڈھائی کروڑ کی آبادی میں اس وقت اسی لاکھ کے قریب لوگ پینے کے پانی سے محروم اوراس کی تلاش میں سرکردہ دکھائی دیتے ہیں،کراچی کو یومیہ پانی کی ضرورت 110کروڑ گیلن ہے لیکن فرایم کیئے جانے والے پانی کی مقدار 55کروڑ گیلن ہے جبکہ یہ بھی ناقص منصوبہ بندی اور واٹر بورڈ کی غفلت کا نتیجہ ہے جو مکمل طور پرعوام کے تشنہ لبوں تک نہیں پہنچ پاتا،اس شہر کو بمشکل جو پانی میسر ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے مگر افسوس اس میں سے بھی 40فیصد پانی چوری کرکے مہنگے داموں فروخت کردیا جائے تو اس پر کیا کہا جاسکتاہے، خود واٹر بورڈ کہتا ہے کہ واٹر سپلائی کا انفراسٹریکچر درست ہونے اور غیر قانونی واٹر ہائیڈرینٹس کے خاتمے تک پانی کی مناسب اور یکساں ترسیل ممکن نہیں اب یہ انفراسٹرایکچر درست کرنا عوام کا کام تو نہیں ہے دوسری جانب اس مد میں ہر سال اربوں روپے کاجو بجٹ اس مدمیں ملتاہے وہ کس کی جیب میں جاتاہے، کراچی کو پانی کی فراہمی کینجھر جھیل اور حب ڈیم کے زریعے کی جاتی ہے کینجھر جھیل کے زریعے یومیہ چھ سو ملین گیلن جبکہ حب ڈیم کے زریعے تیس ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کی جاتی ہے حب ڈیم کا دارومدار چونکہ بارشوں پر ہے اس لیے حب ڈیم سے ملنے والے پانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ،جب ہم شکایت کرتے ہیں کہ عوام بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے تویہ سب جہاں واٹر بورٖڈ کی نااہلی اور ٹینکر مافیا کی چور بازاری سے ممکن ہوتا ہے وہاں ایسے معاملات سے بچنے اور روک تھام کا واحد حل کے فور منصوبے کی بروقت تکمیل سے جڑا ہواہے جس کی جلد تعمیر اس وقت شرمندہ تعبیر بنی ہوئی ہے ،اب زرا ہم اس مسئلے کے حل کی جانب چلتے ہیں جوکہ کے فور منصوبے کی تکمیل کے ساتھ جڑی ہے،گزشتہ تیرہ برسوں سے مختلف وجوہات کی بناپر التواکاشکار کے فور منصوبے کی اونر شپ جس روز وفاق کو منتقل ہوئی اس دن ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے اب اس منصوبے کی تکمیل جلد ہوجائے گی مگر یہ اونرشپ سندھ کی بجائے وفاق کو منتقل ہوئے اب دوسال کا عرصہ گزرچکاہے فی الحال معاملات جوں کہ توں ہی دکھائی دیتے ہیں۔اگر اس منصوبے کی تعمیر اور لاگت کی بات کی جائے تو اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 25ارب تھی ایک رپورٹ کے مطابق 2011میں اس منصوبے کا پی سی ون تیار کیا گیا،جس کی منظوری قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیوکمیٹی نے 2014میں دی اس وقت بھی اس منصوبے کا خرچہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر اٹھانا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سندھ حکومت کی عدم توجہی اور غیرمعمولی تاخیر نے اسے کئی سالوں تک لٹکائے رکھا ہے ، کبھی فنڈ کا روناتو کبھی ڈیزائن کے مسائل کو لیکر اس منصوبے کو تاخیرکی طرف لے جایا جاتارہاہے،سندھ حکومت نے شروع شروع میں جب کام میں تیزی دکھائی تو ایک مقامی کمپنی سے اس منصوبے کاڈیزائن بنواکر اس میڈیا میں وائرل کیا اور فوج کے انجینئرنگ کے شعبے ایف ڈبلیو او کو کے فور منصوبے کا ٹھیکہ دیا،جس پر ایف ڈبلیو او نے اس منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیاتو امید ہوچلی کہ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2018 تک مکمل ہوجائے گا،لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اگست 2018میں اس منصوبے کے ڈیزائن میں نقص کی وجہ سے کام روکنا پڑا، یہ عمل سراسر نااہل انتظامیہ اور عدم توجہی کی وجہ سے ہوا کہ سندھ حکومت شاید منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی یا پھر کراچی والوں کو ووٹ نہ دینے کی سزا طویل کی جارہی تھی اس لیے میں سمجھتاہوں کہ کے فور منصوبے میں اب تک ہونے والے کام میں کرپشن اور نااہلی کا تعین یقینی طور پر ہونا چاہیے ،کیونکہ جوں جو ں وقت بڑھے گا ویسے ویسے ہیں لاگت کی رقم بھی دگنی ہوتی چکی جائے گی اور سندھ میں بے شمار ایسے منصوبوں کی لائن لگی ہوئی جو شروع میں 20ارب کے تھے تو بعد میں 70سے 80ارب تک جاپہنچے ہیں۔ لہذامحسوس تویہ ہی ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسائل کا سندھ حکومت کو پہلے سے علم تھا سندھ حکومت کی عدم توجہی کا بھانڈا اسوقت پھوٹا جب کام شروع ہوچکاتھا مگرنیشنل انجینیئرنگ اینڈ سائینٹیفک کمیشن )نیسکام(نے ایک انکشاف کیا کہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں خامیاں موجود ہیں جسے اگر تبدیل نہ کیا گیا تو اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہونگے لہذااس منصوبے کے ڈیزائن میں خامیوں کی نشاندہی کے بعد2019میں سندھ حکومت نے نیشنل انجینئرنگ سروسز (نیسپاک)کو کے فور کے ڈیزائن پر نظر ثانی کے لیے مقرر کیا،جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2018 میں مکمل ہونے کی امید تھی اس دوران مسلم لیگ ن کی حکومت تھی جس نے کراچی کی عوام کو پانی کے مسائل سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا جو کسی بھی لحاظ سے پورا نہ ہوسکا لیکن اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے اس دور میں بھی پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کی جانب سے ایک بار پھر یہ امید دلائی جارہی ہے کہ اس منصوبے پررواں برس نومبر سے قبل کام شروع ہونے کے امکانات ہیں اور اس منصوبے کا پہلا مرحلہ جولائی2023تک مکمل ہونے کی امید ظاہر کی جارہی ہے، 2018میں وفاقی حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی اور مسلم لیگ ن کی جگہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت نے لی ،تحریک انصاف نے کراچی میں بھاری اکثریت سے ووٹ حاصل کیا کیونکہ اقتدار سے قبل تحریک انصاف نے کراچی کو پانی بجلی اور سڑکوں کی تعمیروترقی جیسے وعدوں سے خوب شہرت کمائی عوام نے اس تبدیلی کی کامیابی کے لیے کراچی کی 20میں سے 14 نشستیں قومی اسمبلی اور صوبائی میں 30نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دی ، یہ کراچی میں ایم کیوایم کے بعد پہلی بار ایسا ہواتھا اس کامیابی کے اگلے برس جب وزیراعظم نے کراچی کا پہلا دورہ کیا تو انہوں شہر قائد کی بہتری کے لیے بنائے گئے اٹھارہ منصوبوں کی مد میں 162ارب روپے کے پیکج کا اعلان بھی کیا تھا اس سے پہلے کے اس منصوبے کو آگے بڑھایا جاتا اور اعلان کردہ رقم شہر کو ملتی وزیراعظم عمران خان نے اپنے اگلے دورہ کراچی میں 162ارب کے پیکج کو ایک نئے پیکج میں ضم کردیا یعنی ستمبر2020کراچی کے دورے میں 11سو ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ،اور اپنی تقریر میں کہاکہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیاہے کہ کے فور منصوبے کا ایک حصہ صوبائی اور دوسرا حصہ وفاقی حکومت لے گی اور یہ یقین بھی دلایا کہ آئندہ تین برسوں میں کراچی میں پانی کے بحران کو مکمل طورپر ختم کردیاجائے گا،واضح رہے کہ جب یہ منصوبہ سندھ حکومت کی تحویل میں تھا اس وقت اس منصوبے کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تحت مکمل ہونا تھا لیکن وفاق کو منتقل ہونے کے بعد اب اس کی تعمیر کی ذمہ داری واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی واپڈا کے ذمہ ہے۔جہا ں تک واپڈا کی بات کی جائے تو اس وقت واپڈا ملک میں بیشتر ڈیم بناچکی ہے اور اس وقت واپڈا پہلے ہی دیامر بھاشاڈیم پر کام کررہاہے ،جس سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے، اب کے کے فور کے اس منصوبے پرواپڈا کو جولائی2023تک یعنی20ماہ میں اس منصوبے کا سول ورک مکمل کرنا ہوگا،اس کے بعد پہلا مرحلہ مکمل ہونا بھی ایک بڑی کامیابی ہوگا کیونکہ پہلے مرحلے کی تکمیل سے کراچی کو یومیہ اضافی 260ملین گیلن پانی مل سکے گا،جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس منصوبے کے تین فیز ہیں جو صوبائی اور وفاق کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ایک ہی وقت میں بیک وقت مکمل کیئے جاسکتے ہیں اگر ایسا ہوتاہے تو شہر میں پانی کی قلت کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا، فی الحال یہ میری رائے ہے کیونکہ اس سے زیادہ انتظار مجھے پہلے مرحلے کی کامیابی کا ہے ! جس کامجھے انتظار تو ہے مگر یقین نہیں ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔
 

Muhammad Naeem Qureshi
About the Author: Muhammad Naeem Qureshi Read More Articles by Muhammad Naeem Qureshi: 18 Articles with 18819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.