امسال مہاراشٹر کے اندر لاک ڈاون کے خطرات اور ماہِ ر
مضان کی آمد ایک ساتھ ہوئی ۔ اس کے سبب ملت کے اندر ایک بے چینی کا پیدا
ہونا فطری عمل تھا کیونکہ گزشتہ سال کی یادیں ذہن میں تازہ تھیں اور تراویح
سے محرومی کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ دریں اثناء مالیگاوں کے فیصلے نے ایک
نئی بحث کا آغاز کردیا ۔ ملت کے علماء اور دانشور اس سے قبل وزیر صحت
راجیش ٹوپے سے ملاقات کرکے رمضان کے حوالے سے اپنا محضر نامہ دے چکے تھے
اور انہیں بہت ساری یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی لیکن جب سرکار کی جانب سے
کوئی حتمی جواب نہیں آیا تو دوبارہ ملنے کا ارادہ کیا گیا ۔ اس وقت غم
وغصے کی دو اور وجوہات تھیں ۔ اول تو کمبھ میلے کا بلا روک ٹوک انعقاد اور
دوسرے سیاسی ریلیاں حالانکہ فی الحال تمام تر دباو کے باوجود ذرائع ابلاغ
میں انہیں پر زبردست تنقید ہورہی ہے ۔ کورونا کے پھیلاوکی خاطر اندونوں کو
قومی اور عالمی سطح پر ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے اور سرکار گونگی بہری
ہوگئی ہے۔
مہاراشٹر کے سیاسی افق پرماہ ِ مارچ زبردست خلفشار کا زمانہ تھا ۔ مکیش
امبانی کے گھر پردھماکہ خیز مادے سے بھری گاڑی کے برآمد ہونے سے متعلق ہر
دن نت نئے انکشافات ہورہے تھا اور ایسا لگنے لگا تھا کہ مرکز نے مہاراشٹر
کی حکومت کو گرانے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ
مرھبی بنگال سے پہلے بی جے پی مہاراشٹر کو فتح کرلے گی ۔ اس لیے کچھ لوگوں
نے کورونا کے خلاف حکومت مہاراشٹر کے اقدامات کو سیاسی عدم استحکام سے جوڑ
کر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ریاستی حکومت اپنا اقتدار بچانے کے لیے کورونا
کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کررہی ہے ۔ بظاہر وہ الزام بے بنیاد نہیں لگتا
تھا لیکن وباء کےحوالے سے زمینی حقائق جو سنگین موڑ لے رہے تھے ان کے تناظر
میں صورتحال مختلف نظر آتی تھی ۔
کورونا کے تعلق سے دو حقائق اظہر من الشمس ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ اول روز سے
تادمِ تحریر کورونا کے کیس اور اموات کے معاملے میں مہاراشٹر ملک کے اندر
سرِ فہرست رہا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اتر پردیش جیسی
صورتحال نہیں ہے۔ معروف ہندی اخبار بھاسکر کے مطابق کانپور میں کل (27
؍اپریل) پانچ سو لوگوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور سرکار نے صرف 20 تا
22 کی تعداد بتائی خیر۔ دوسری حقیقت یہ ہے ملک میں احتیاطی تدابیر کی بابت
بھی مہاراشٹر سب سے آگے رہا ہے۔ پہلی لہر کے وقت بھی مرکزی لاک ڈاون سے
قبل ریاست کے اندر سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ دوسری لہر کے دوران
بھی پہلا قدم مہاراشٹر میں اٹھایا گیا۔
28مارچ سے15؍ اپریل 2012تک کورونا کے سبب رات کا کرفیو لگا کرحکومت
مہاراشٹر نے کورونا کے خلاف اپنے مشن کو دوبارہ شروع کرنے کااعلان کیا ۔ اس
کے تحت رات 8 سے صبح7 بجے تک عوامی مقامات پر پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع
ہونے پر پابندی لگائی گئی۔ اس دوران تھیٹر، مال اور آڈیٹوریم بند کرنے کا
حکم دیا گیا ۔ سیاسی ، سماجی اورثقافتی تقریبات پر پابندی لگائی گئی۔ شادی
میں 50 اور جنازے میں 20 کی تعداد مقرر کی گئی ۔ ان ضوابط کی خلاف ورزی
کرنے والوں پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ عائد کیا گیا ۔ یہ پہلا قدم تھا ۔ اس
کے بعد4 ؍ اپریل سے اس میں سختی کی گئی ۔ اس لیے کہ ریاست کے اندر ایک دن
میں 11 ہزار349 نئے کیس درج کیے گئے تھےاور جملہ متاثرین کی تعداد چار لاکھ
سے تجاوز کرگئی تھی۔مہاراشٹر میں 277 نئی اموات کے سبب مہلوکین کی جملہ
تعداد 55 ہزار 656 پر پہنچ چکی تھی ۔ شہر ممبئی میں ایک دن کے اندر
11ہزار206 معاملات سامنے آئے تھے اور 222 لوگ اس بیماری سے لقمۂ اجل بنے
تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے وباء کا زور ممبئی میں تھا ۔ آگے کے موازنہ میں یہ
اعدادو شمار پیش نظر رہنے چاہئیں ۔
12؍ اپریل کو جب ریاست کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ اس
احتیاط کے باوجو یومیہ مریضوں کی تعداد 11ہزار سے بڑھ کر 63 ہزار 294 پر
پہنچ چکی ہے اور اموات 349 پر جاچکی ہیں ۔ ممبئی کے یومیہ اضافہ میں قدرے
کمی واقع ہوئی لیکن اب بھی وہ ملک میں سب سے زیادہ 9ہزار989 پرتھی۔ اس کا
مطلب یہ تھا کہ اب کورونا دیہاتوں اور قصبوں کو بھی اپنے شکنجے میں لینے
لگا تھا ۔ 14 ؍ اپریل سے سختی میں اضافہ کیا گیا ۔ اس دن مہاراشٹر کے اندر
یومیہ مریضوں کا اضافہ 51ہزار 751 پر تھی جو پورے ملک کا44.78 فیصد تھا
لیکن ریاست میں سختیوں کے سبب آنے والی بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے
تھے۔ایک ایسے دورانیہ میں جبکہ ملککے اندر(14؍ اپریل کو) کورونا کی وباء سے
متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 99 ہزار 569 سے بڑھ 26 ؍ اپریل کو 3لاکھ 19ہزار
پر پہنچ چکی ہے مہاراشٹر کے اندر اس میں کمی واقع ہوئی اور وہ 48 ہزار 700
پر آگئی۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر بروقت اقدام کیا جائے تو اس
وباء کو کسی نہ کسی حد تک قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔
ممبئی کی حالت پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔12؍ اپریل
کے مقابلے 17؍ اپریل تک شہر میں یومیہ مریضوں کی تعداد میں ایک ہزار کی کمی
نظر آئی اور وہ تعداد 8811 پر آگئی۔ اس کے بعد 21؍ اپریل کو مزید ایک
ہزار کی کمی دیکھنے کو ملی اور وہ 7654 پر آگئی۔ 24؍ اپریل تک یہ تعداد
گھٹ کر 5867پر تھی ۔ اس کے دون بعد 26؍ اپریل کو جو اعدادوشمار سامنے آئے
ہیں اس کے مطابق یہ تعداد صرف 3840ہے ۔ان اعدادو شمار سے ظاہر ہے کہ دس
دنوں کے اندر ممبئی شہر میں 56فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی ہے ۔ کورونا کے
معاملے میںملک کے اندر پہلے نمبر کا شہر ساتویں نمبر پر آگیا۔ مہاراشٹر کے
اندر اس تبدیلی کی ایک وجہ ویکسی نیشن بھی ہے۔ یہاں پر اب تک ایک کروڈ
48لاکھ لوگوں کو ٹیکہ لگایا جاچکا ہے جو ملک بھر میں لگائے جانے والے ٹیکے
کا دس فیصد ہے اور کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ اس سے
ویکسین کی اثر اندازی کا بھی اشارہ ملتا ہے ۔ کورونا کے حوالے سے ملک میں
تین سیاسی رویہ نظر آتا ہے۔ اول تو شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا
لینا ۔ دوسرے اس کی خبروں کو دبا کر عوام کو گمراہ کرنا اور تیسرے حقائق کو
تسلیم کرکے اس کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنا ۔ مہاراشٹر میں تیسرے طریقۂ
کار کے اچھے نتائج ظاہر ہورہے ہیں ۔ بقول شاعر؎
وہ کونسا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
|