کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک ِ انصاف میں دھڑی بندیاں
کھل کرسامنے آگئیں ہیں کچھ کا خیال ہے کہ جہانگیرترین کو مثال بناکر
مخالفین کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے اس پیش منظرمیں بالآخر تحریک انصاف کے
سینئر رہنما جہانگیر خان ترین گروپ کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوہی
گئی انہوں نے چینی سکینڈل میں تناظر میں مشیر احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے
جہانگیر ترین کے بیانات ،کارروائی پر گلے شکوے اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا
بھی کیا اور اپنے 30 ہم خیال ارکان اسمبلی کوشو بھی کردئیے یعنی دوسرے
لفظوں میں عمران خان کو باور کروادیا گیا کہ تاحیات نااہلی کے باوجود
جہانگیر ترین آج بھی سیاسی اثرورسوخ کے مالک ہیں اور وہ حکومت کے لئے
مشکلات پیدا کرسکتے ہیں حامی ارکان نے وزیر اعظم کو بتایا کہ جہانگیرترین
کی صرف4-3 شوگرملزہیں لیکن فقط انہی کو چینی بحران کا ذمہ دار قراردے
دیاگیاہے جو انصاف کے اصولوں کے منافی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف
جہانگیرترین کو ہی نشانہ بنایا جارہاہے ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس
کیس کی خود مانیٹرنگ کریں۔ ملاقات کے دوران راجہ ریاض بڑے جذباتی ہورہے تھے
جس پر وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ وہ جہانگیر ترین کیس کو خود سے دیکھیں گے
کسی صورت بھی ناانصافی نہیں ہوگی، لوگ بہتر فیصلہ دیکھیں گے‘ مجھے تھوڑا
ٹائم دیں انشاء اﷲ تعالیٰ تمام انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔وزیراعظم
عمران خان سے ملاقات کرنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان میں سے چھ
صوبائی وزراء اور ایک مشیر بھی شامل تھے ۔ جبکہ راجہ ریاض، غلام احمد لالی،
غلام بی بی بھروانہ، جاوید اقبال وڑائچ، سمیع حسن گیلانی، ریاض مزاری،
خواجہ شیراز، مبین عالم انور جبکہ صوبائی وزراء ملک نعمان لنگڑیال، اجمل
چیمہ، صوبائی مشیران عبدالحئی دستی، امیر محمد خان، رفاقت گیلانی، فیصل
جیوانہ، ممبران پنجاب اسمبلی خرم لغاری، اسلم بھروانہ، نذیر چوہان، آصف
مجید، بلال وڑائچ، عمر آفتاب ڈھلوں، طاہر رندھاوا، زوار وڑائچ، نذیر بلوچ،
امین چوہدری، افتخار گوندل، غلام رسول سنگھا، سلمان نعیم اور سجاد وڑائچ
شامل تھے۔ ملاقات کے بعد اراکین کے چہرے ہشاش بشاش تھے۔ایک سیاسی تجزیہ
نگارکا کہناہے کہ’’ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر خان ترین کے مابین
معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے۔ وزیراعظم عمران خان کی جہانگیر
ترین کے ہمخیال گروپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں نہ برف پگھلی، نہ پانی
گرا، نہ اختلافات ختم ہوئے، نہ رعایت ملی، نہ گنجائش نکلی نہ درمیانی راستہ
پیدا ہوا۔ وفد خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔ حد درجہ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس
ملاقات نے واضح کر دیا ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی مستقبل میں
پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کی
وزیراعظم سے تیس منٹ کی ملاقات شیڈول تھی لیکن یہ ملاقات ایک گھنٹہ دس منٹ
جاری رہی۔ اس دوران وفد کے شرکاء وزیراعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش
کرتے رہے کہ جہانگیر ترین بے قصور ہیں، وہ کسی بھی قسم کی کرپشن یا
بددیانتی میں ملوث نہیں ہیں۔ جہانگیر ترین کو حکومت کے چند لوگ ذاتی
اختلافات کی بنیاد پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سب کی
گفتگو سنی لیکن انہوں نے کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے کے بجائے واضح
موقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین نے کرپشن کی ہے، وہ بددیانتی کے مرتکب
ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین کے ساتھیوں
کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہو گا۔
دوسری طرف جہانگیر ترین بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، وہ
یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ انہیں ذاتی اختلافات کی وجہ
سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی واضح موقف اپناتے ہوئے سیاسی اور
قانونی محاذ پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھیوں نے
بھی مستقبل میں پی ٹی آئی کے بجائے جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے رہنے کا
فیصلہ کر لیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے تیس اراکین جہانگیر ترین کے ساتھ
ڈھائی گھنٹے کی طویل مشاورت کے بعد وزیراعظم عمران خان سے ایک گھنٹہ دس منٹ
کی ملاقات کی ۔ وفد دوبارہ لگ بھگ ساڑھے چار بجے جہانگیر ترین کی رہائش گاہ
پہنچا وہیں ان لوگوں نے افطاری کی ۔انہوں نے بتایا ملاقات بے سود رہی۔ نہ
وزیراعظم عمران خان کے موقف میں نرمی آئی بلکہ انہوں نے وفد کے سامنے دو
ٹوک انداز میں جہانگیر ترین کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ وزیراعظم
عمران خان نے وفد کو بتایا کہ وہ قائل ہیں کہ جہانگیر ترین کے غیر قانونی
عمل کی وجہ سے صرف حکومت نہیں عوام کو بھی بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا
پڑا۔ جبکہ وفد اپنے موقف پر قائم رہا کہ جہانگیر ترین بے قصور ہیں۔ یوں اس
ملاقات نے پاکستان تحریک انصاف میں دھڑے بندی کو واضح کر دیا ہے۔ جہانگیر
ترین کے ساتھیوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں
ناکام ہو چکی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس جانے کے لیے پی ٹی
آئی کے پاس کچھ نہیں لہذا باغی اراکین نے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے
پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کا اہم فیصلہ بھی کر لیا ہے۔‘‘
باخبر ذرائع کاکہناہے کہ وزیراعظم نے واضح کردیاکہ میں وزیراعظم رہنے کیلئے
حق کا ساتھ چھوڑ دوں ایسا نہیں ہو گا حکومت میں آنے کا مقصد انصاف قائم
کرنا ہے۔ جہانگیر ترین سمیت کوئی بھی قصور وار نکلا تو کارروائی کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ تمام کارروائی بلا امتیاز ہو گی۔ کسی کا خیال ہے کہ دباؤ میں
آکر تحقیقات روک دوں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ میری پالیسی بڑی واضح ہے
انصاف کے دوران مخالفین سے بھی زیادتی نہ ہو۔ جہانگیر ترین توپھرمیرے دوست
ہیں کسی سے ناانصافی نہیں ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی
بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ راجہ ریاض، نعمان
لنگڑیال، عبدالحئی دستی، نذیر چوہان نے اس دوران زوردے کر کہا وزیراعظم
صاحب ! جہانگیر ترین کی خدمات آپ سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ہم آپ سے فیور
نہیں مانگ رہے صرف یہچاہتے ہیں انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ نذیر چوہان نے کہا
کہ ایسا لگتا ہے کہ شہزاد اکبر کا ٹارگٹ صرف جہانگیر ترین ہیں۔ نعمان
لنگڑیال نے کہا کہ معاملہ چینی کا تھا، اس میں سے کچھ نہیں ملا تو اور کیسز
کھول دیئے۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ مشیر داخلہ شہزاد اکبر اور انکی ٹیم کو
اس معاملے سے الگ کرکے جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کروائی جائے لیکن اس کے
جواب میں عمران خان نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا
کہ میری واضح پالیسی ہے کہ احتساب کے دوران مخالفین کے ساتھ بھی زیادتی نہ
ہو جہانگیر ترین میرے ذاتی دوست اور پارٹی کے اہم رہنما ہیں، انصاف کا
تقاضا ہے کہ ہم سب قانون کے سامنے جوابدہ ہوں، ہم میرٹ اور انصاف کے مقصد
کے لیے اقتدار میں آئے ہیں، چینی کی قیمت میں اچانک اتنا اضافہ ہوا تو کیا
ہم پوچھیں بھی نہیں؟ کہ ایسا کیوں ہوا؟۔ عمران خان کاکہنا تھا آپ لوگ یقین
رکھیں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی
معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، انصاف کا تقاضا ہے کہ سب کو صفائی کا پورا موقع
ملے۔ شہزاد اکبر کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، وہ میرٹ پر کام کررہے ہیں
انہیں نہیں ہٹاؤں گا۔ راجہ ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آپ
میں سے بہت لوگ بعد میں تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں، یہ ذہن میں رکھیں کہ
میں صرف وزیر اعظم رہنے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑ دوں، ایسا نہیں ہو گا
جہانگیر ترین کیس خود مانیٹر کروں گا۔ قابل ِ ذکربات یہ ہے کہ وزیراعظم سے
ملاقات میں جہانگیر ترین موجود نہیں تھے۔وزیراعظم نے جہانگیر ترین گروپ کے
تحفظات کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹر علی ظفر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر
دی۔ کمیٹی اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ راجہ ریاض نے دعویٰ کیا کہ
وزیراعظم نے بتایا ڈاکٹر رضوان کو ہٹا دیا۔ رضوان شوگر سیکنڈل تحقیقاتی ٹیم
کے سربراہ تھے۔ شہزاد اکبر کا بھی اب شوگر سیکنڈل سے تعلق نہیں۔ اب علی ظفر
اس کیس کو دیکھیں گے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ وزیراعظم
عمران خان نے جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلی سے ملاقات میں واضح کیا ہے
کہ ایف آئی اے کو تحقیقات سے نہیں روکا جائے گا۔ جس طرح دیگر لوگوں نے
ٹرائل کا سامنا کیا ہے، ویسے ہی پارٹی کے لوگوں کو بھی کرنا ہوگا، انصاف کے
تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ جو پارٹی انصاف اور احتساب کے نام پر وجود میں
آئی ہو وہ اپنے اور دوسروں کیلئے انصاف کے دوہرے معیار نہیں رکھ سکتی۔
جہانگیر ترین کے متعلق وزیراعظم نے ان پر واضح کردیا ہے کہ تحقیقات نہیں
روکی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ایم این ایز نے بعض حکومتی شخصیات سے
متعلق شکایت کی جس پر وزیراعظم عمران خان نے سینیٹر علی ظفر کو ذمہ داری دی
ہے کہ وہ بعض شخصیات سے ارکان اسمبلی کو ہونے والی شکایت پر رپورٹ تیار
کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے کہہ دیا ہے کہ ایف آئی اے یا
کسی اور ادارے کو جہانگیر ترین سے نرمی برتنے کا نہیں کہا جائے گا، انصاف
کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ حالانکہ وفدمیں شامل ارکان وزیراعظم کو بتایا
گیا کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر جہانگیر ترین سے پرسنل ہو رہے ہیں۔ جو
مقدمات ترین فیملی کے خلاف درج کئے گئے ہیں ان میں چینی کا کہیں ذکر ہی
نہیں، وہ تو منی لانڈرنگ سے متعلق ہیں جو جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت
بنائے گئے ہیں۔ تاکہ پاکستان تحریک انصاف کو کمزور کیا جا سکے۔ ارکان نے
مطالبہ کیا کہ شہزاد اکبر کو اس معاملے سے الگ کر کے دو یاتین ریٹائرڈ چیف
جسٹس صاحبان ناصر الملک اور تصدق حسین جیلانی، ریٹائرڈ جج سائر علی پرمشتمل
تاہم جوڈیشنل کمیشن قائم کیاجائے لیکن اسی وقت وزیراعظم عمران خان نے ان کی
یہ استدعا مسترد کر دی۔ یہ بات بھی قابل ِ دکرہے کہ وزیراعظم عمران خان
ترین گروپ کے حامی ارکان سے ملنے کے لئے تیار نہیں تھے تاہم گورنر پنجاب
چودھری سرور کی درخواست پر وزیراعظم نے ان ارکان سے ملاقات پر رضامندی ظاہر
کی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک ِ انصاف میں دھڑی بندیاں کھل کرسامنے
آگئیں ہیں کچھ کا خیال ہے کہ جہانگیرترین کو مثال بناکر مخالفین کا دھڑن
تختہ ہونے والا ہے اب عید کے بعد سیاسی کبڈی کبڈی کا کھیل شروع ہونے والاہے
حالات تیزی سے ٹرننگ پوائنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں جولوگ عمران خان پردباؤ
ڈالنا چاہتے ہیں یا ان کو بلیک میل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کیلئے آرمی
چیف قمرجاوید باجوہ کے ریمارکس ہی کافی ہیں کہ’’ عمران خان کو انڈر اسٹیمیٹ
نہ کریں‘‘ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان بہت سٹرونگ پرائم منسٹرہیں یہ بات ان
کے سیاسی مخالفین کو جتنی جلدی سمجھ میں آجائے ان کا اتنا ہی فائدہ ہے۔
|