آئینِ پاکستان کے تحت کسی جماعت کا ــــــ’’کالعدم ‘‘ ہونا (حصہ اوّل

 آئین ِپاکستان 1973کا آرٹیکل 17(2)کسی بھی جماعت پر پابندی عائد کرنے کے متعلق ہے ۔جس میں تحریر ہے کہ ’’ہر وہ شہری جو کہ پاکستان میں سرکاری ملازمت نہیں کرتا ہوتواُسے کسی بھی سیاسی جماعت کی تشکیل یا اُس کا رکن بننے کا حق حاصل ہوگا جو پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے مفاد میں قانون کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی معقول پابندی کے تابع ہوگی اور یہ قانون یقینا فراہم کرتا ہے کہ جب وفاقی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ کوئی بھی جماعت جو تشکیل دی گئی ہے اور وہ پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے لئے متعصبانہ انداز میں کام کررہی ہے تو وفاقی حکومت اِس جماعت پر پابندی عائد کرکے اِس معاملے کو پندرہ (15)دن کے اندر اندرسپریم کورٹ کے پاس ریفر نس بھیجوائے گی۔ جس کے بعداُس جماعت پر پابندی عائد کرنے یا نہ کرنے کاسپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا ‘‘۔
اگرپابندی عائد ہوجائے گی توپھر انتخابی ایکٹ 2017 کے تحت اُس سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے کیونکہ ریفرنس دائر کرنے سے قبل اور اِس کے اختتام تک سپریم کورٹ میں کچھ وقت درکارہو گا۔جس کے بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی سیاسی جماعت کو انتخابی ایکٹ 2017 کی دفعہ 212 کے تحت مکمل تحلیل کرنے کا مجاز ہوگا۔

گذشتہ دنوں حکومتِ پاکستان نے ایک اُبھرتی ہوئی سیاسی و مذہبی جماعت تحریک ِ لبیک پاکستان’’TLP‘‘ پرپابندی عائد کی ہے مگر اِس جماعت کا ریفرنس ابھی سپریم کورٹ بھیجنا باقی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔چند مشہور واقعات میں کمیونسٹ پارٹی پاکستان’’CPP‘‘ وہ پہلی جماعت تھی جس پر 1951میں اُس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے تحت جولائی 1954پابندی عائد کی گئی۔اِس کے علاوہ 1960کی دہائی میں جماعتِ اسلامی پاکستان’’JIP‘‘ پرپورے پاکستان یعنی مشرقی و مغربی دونوں حصوں میں پابندی عائد کی گئی ۔ فروری 1975میں خان عبدالولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی’’NAP‘‘ پرپاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما حیات محمد خان شیرپاؤکے ایک بم دھماکے میں قتل کے الزام پر پابندی عائد کی گئی۔اِس حوالے سے یہ ایسے واقعات ہیں جو باربار ہماری تاریخ کا مطائعہ کرنے پر ہماری نظروں سے گزرتے ہیں جبکہ ’’کالعدم‘‘قرار دی جانے والی مذہبی اور قوم پرستوں جماعتوں کی ایک طویل فہرست بھی موجود ہے جن کوپرویز مشرف دور میں آئین ِپاکستان کی روشنی میں انسداد ِ دہشت گردی قانون1997 کے تحت فرقہ واریت پھیلانے اورپاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پابندی کا سامنا کرنا پڑاہے۔اِن جماعتوں میں سپاہ صحابہؓ پاکستان’’SSP‘‘ اور تحریک جعفریہ پاکستان’’TJP‘‘ بھی شامل تھیں ۔

یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ پابندی کا شکار ہونے والی بہت سی جماعتیں اب بھی کسی دوسرے یا نئے ناموں سے موجود ہیں اِن میں خان عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی ’’ANP‘‘ہے جبکہ جماعتِ اسلامی پاکستان’’JIP‘‘آج بھی اپنے اصل نام سے کام کررہی ہے کیونکہ اِس جماعت پر عائد پابندی بعد میں ختم کردی گئی تھی۔

مختلف قانونی ماہرین رائے میں دہشت گردی کے قانون کے تحت کسی’’ سیاسی جماعت ‘‘کو ختم کرنے کے فیصلہ کے بارے میں اُن کوشکوک و شبہات ہیں۔اُن کے نزدیک یہ ایک ایسی کوشش ہے جس میں حکومت کی خواہش پر دیگر سیاسی جماعتوں کے حقوق کو مجروح کیا جاسکتاہے۔ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے قلیل مدتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کسی پوری سیاسی جماعت کی پابندی ختم کرنے سے دوسری جماعتوں کے خلاف بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔اگر کوئی جماعت کسی مقصد کے حصول کے لئے احتجاج یاسڑکیں بند کرے یا پھرپرتشددجلوس نکالنے میں ملوث ہوتو اِس کے اقدام سے دوسری جماعتوں کے حقوق کے لئے بھی کچھ حفاظتی اقدامات کرنے بھی ضروری ہونگے ۔

انہی ماہرین کے مطابق وہ اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتے ہیں کہ جن جماعتوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں اور عوامی املاک میں توڑ پھوڑ کی ہے اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہئے لیکن کچھ افراد کی کارروائیوں پر مناسب قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر فیصلہ کرنا خطرناک نتائج کے مترادف ہوگالہٰذاکسی بھی جماعت کو ختم کرنے کے لئے حکام ِبالا کوہر طرح کے مکروہات سے پاک ہونالازمی ہوگا۔(جاری ہے)

Shahzad Imran Rana
About the Author: Shahzad Imran Rana Read More Articles by Shahzad Imran Rana: 68 Articles with 51010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.