ترنمول کانگریس ضلع صدر اور رکن اسمبلی انو برتا منڈل
نے14؍ اپریل کو ایک ایسا نعرہ لگایا جو دیکھتے ہی دیکھتے بنگال کی سرحدوں
سے نکل کر پورے ملک پر چھا گیا ۔وہ نعرہ تھا’کھیلا ہوبے، کھیلا ہوبے، آہی
ماٹی تے کھیلا ہوبے، لوڑتے لوڑتے، لڑائی کورے جیتتے ہوبے‘ ۔ بنگالی زبان کے
اس جملے کا اردو ترجمہ اس طرح ہوگا ’ کھیل ہوگا، کھیل ہوگا، اسی سرزمین سے
کھیل شروع ہو گا، جدوجہد جدوجہد، لڑائی کرکے فتح حاصل کرنی ہوگی‘۔ اس طرح
گویا ایک انتخابی مہم جنگ میں بدل گئی اور یہ اس کا اعلان تھا۔ ابتدا میں
بی جے پی نے اس نعرے کی پر زور مخالفت کی اور اسے عوام مخالف قرار دیا لیکن
جب دیکھا کہ یہ زبان زدِ عام ہورہا اور اس کی مخالفت نقصان دہ ہےتو خود بھی
لگانے لگے ۔ اس طرح یہ سبھی جماعتوں کے سیاسی رہنما وں بلکہ عام لوگ ،
نوجوان اور بچے بچے تک کی زبان سے رواں ہوگیا ۔اس زمانے میں کورونا کا کھیل
بھی زور و شور سے چل رہا تھا ۔ ۱۴؍ مارچ کویومیہ ۲۰ کا اضافہ ایک ماہ میں
پچاس گنا بڑھ کر ایک ہزار کو تجاوز کر چکا تھا لیکن کسی کو اس فکر نہیں
تھی۔ آج ۲ ؍مئی کو جب کھیل ختم ہوا تو یہ یومیہ اضافہ ۴ لاکھ کے قریب ہے۔
نتائج سے قطع نظر اس کھیل کے خاتمہ پر سلمان فارس کا یہ شعر من و عن صادق
آتا ہے؎
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے ’پینی وائز اینڈ پاونڈ فولش‘ یعنی دمڑی بچا
کر اشرقی گنوانے والا احمق ۔ سارے ملک کو کورونا کی تباہی میں جھونکنے کے
بعد بی جے پی کو ذلت و رسوائی کے سوا کیا ملا؟ اول تووہ مغربی بنگال پر
اپنا پرچم لہرانے میں ناکام رہی ۔ کیرالہ میں کوئی بڑی کامیابی تو دور اپنی
ایک سیٹ بھی گنوا رہی ہے ۔ آسام تو پہلے بھی اس کے پاس تھا لیکن ایک سیٹ
نہیں بڑھ رہی ۔ اس نے تمل ناڈو جیسی بڑی ریاست کو گنوا کر پڈو چیری جیسے
چھوٹے یونین ٹریری ٹیری کو حاصل کیا ۔ تمل ناڈو کی آبادی 2011 کی مردم
شماری کے مطابق 7 کروڈ 21لاکھ تھی جبکہ پدو چیری میں صرف ۲۲ لاکھ یعنی ۷
کروڈ کا فرق ۔ اب اگر کوئی تمل ناڈو گنوانے کے کے بعد پڈو چیری پر خوشی
منائے تو اسے پینی وائز پاونڈ فولش نہیں تو کیا کہا جائے؟ لیکن مسئلہ تمل
ناڈو اور پڈوچیری کا نہیں بلکہ ایک صوبے میں اپنا اقتدار قائم کرنے کی خاطر
ملک کی 20 فیصد آبادی کو کورونا کے منہ میں ڈھکیل دینے کا ہے۔ ہندوستان کے
لوگوں کی لاش پر اگر مودی جی بنگال جیت بھی جاتے تو وہ ان کے کس کام آتا
لیکن اب تو ان کی حالت یہ ہے؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
سرکار کے اس جرم میں الیکشن کمیشن برابر کا شریک ہے ۔ آخری ووٹ گر جانے کے
بعد 27 ؍ اپریل کو وہ ہوش میں آیا اور اس نے نتائج کے دن اور بعد میں کسی
بھی طرح کا جشن منانے پر پابندی عائد کردی ۔کمیشن کا یہ فیصلہ بھی بی جے پی
کے حق میں گیا اس لیے اس کے پاس جشن منانے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ وہاں تو
صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس نے کہنے کے لیے کورونا کے بڑھتے ہوئے معاملوں کے
پیش نظریہ حکم دیاہے لیکن کون یقین کرے گا ۔سوال یہ ہے کہ کیا کورونا حملہ
کرنے کے لیے رائے دہندگی کا منتظر تھا ۔ وہ تو پچھلے چار ماہ سے بڑھتا ہی
جارہا تھا اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے اندر اس میں بلا کسی شدت آگئی تھی ۔ یہ
وہی زمانہ تھا جب انتخابی مہم عروج پر تھی اور الیکشن کمیشن کمبھ کرن کی
نیند سو رہا تھا۔ اسے بیدار کرنے کی خاطر کورونا نے چیف الیکشن کمشنر سمیت
کئی عہدیداران کو اپنا شکار بنایا مگر انہیں تو گورنر بننے کا خمار چڑھا
ہوا تھا اس لیے وہ نہیں مانے ۔ اب 2؍ مئی کوجیت کے بعد ہرطرح کے جشن اور
جلوس پر پابندی لگائی گی ہے اور یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ امیدوار یا ان
کے نمائندوں کے ساتھ ؍2 سے زیادہ افرادکو ریٹرننگ افسر سے جیت کا سرٹیفکیٹ
حاصل کرنے کے لیے نہ آئیں ۔ قبل کمیشن نے اس سے مغربی بنگال میں انتخابی
جلسوں پر پابندی عائد کردی تھی مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی یا یوں کہا
جائے ’چڑیا کھیت چگ چکی تھی ‘ اور اس کا پچھتاوا مگر مچھ کے آنسو کی مانند
بے سود تھا ۔
وطن عزیز میں انتخاب پہلے پارٹی اور اس کے کارکنان کی مدد سے لڑا جاتا تھا
۔ وہ لوگ عوام کی خدمت کرکے اس کے عوض ووٹ مانگتے تھے لیکن اب ذرائع ابلاغ
میں پھیلائے جانے والی افواہوں اور بہتان تراشیوں کی مدد انتخابی مہم چلائی
جاتی ہے۔ جلسے جلوس کو ٹیلی ویژن اور ویڈیو کے ذریعہ تشہیر کا وسیلہ بنایا
جاتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے ٹیلی ویژن چینل سے لے کر چھوٹے موٹے
یو ٹیوب چینلس کے بھی وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔ انتخابی نتائج کے دن تو پوری
قوم ٹیلی ویژن سے مقناطیس کی مانند چپک جاتی ہے اور خبروں کے چینلس کی ٹی
آر پی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اس لیے اشتہارات بھی خوب ملتے ہیں گویا یہ
ان کے کمانے کا دن ہوتا ہے لیکن اب وہ بھی شرم محسوس کرنے لگے ہیں ۔
دودن قبل ایکزٹ پول کرکے اس کی قیاس آرائی کو شد و مد سے نشر کرنے والے
ٹائمز ناو کو اپنی حماقت پر ندامت کا اب احساس ہوا ہے۔ اس نے انتخابی نتائج
سے متعلق اپنی خصوصی نشریات کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔اس نے اپنے
بیان میں کہا اسے اپنے ناظرین کی انتخاب میں دلچسپی کا احساس ہے مگر وہ
انتخاب کے حوالے سے جشن کو نشر کرنے سے گریز کرے گا۔ یہ اس سرگرمی کے بے
وقت ہونے کے خلاف ایک علامتی رویہ ہے۔ ٹائمز نے کہا کہ اس دوران کورونا کو
ترجیح دے کر اس سے متعلق عوامی فائدے کی خبروں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گا
اور ماہرین کی رائے پیش کرے گا۔ اس اعلامیہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا کی
لہر اونچی سے اونچی اٹھتی جارہی ہے اور مہلوکین کی تعداد میں اجافہ ہورہا
ہے۔ اس بابت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے ہر سطح پر کوتا ہی ہوئی ہے۔
ٹائمز ناو نے یہ بھی کہا کہ اس نے کمبھ میلے کی بھی تبلیغی جماعت مرکز کی
مانند مخالفت کی ہے۔
اس اعلان کے بعد بھارت سماچارنا می چینل نے بھی انتخاب کے بجائے عوام کی
زندگی کو بچانے والی خبریں نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ این ڈی ٹی وی نے بھی
بتایا کہ وہ انتخابی خبروں کو نشر تو کرے گا مگر کورونا کے حالات پر بھی
ہمیشہ کی طرح نظر رکھے گا ۔ اس طرح گویا کورونا کی وباء نے سیاست دانوں کے
ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو ایسی پٹخنی دی کہ انہیں دن میں تارے نظر آنے لگے
۔
ہندوستان کا مسئلہ فی الحال ایک نہ شد دو شد کا ہے یعنی ایک بلائے دو آئے۔
اس محاورے کے حوالے یہ حکایت مشہور ہے کہ کوئی جادو ٹونے کا عامل مردے کو
اپنے منتر کے وسیلے سے جگا کر اس کے گھر کا تمام حال پوچھ لیا کرتا اور اس
کے گھر والوں کو بتا دیتا تھا۔ یعنی جو بات اس کے خاندان والوں کو اس سے
دریافت کرنی ہوتی تھی، وہ اپنے ہم زاد کی مدد سے پوچھ لیا کرتا ۔ جب وہ
عامل مرنے لگا، تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ منتر سکھا دیا۔ شاگرد نے
بطورِ آزمائش قبرستان میں جا کر ایک مردے کو جگایا مگر پھر قبر میں داخل
کرنے کا منتر بھول گیا۔اب ایک مردہ اس کے پیچھے لگ گیا ۔ اس سے پیچھا
چڑزانے کی خاطر اس نے اپنے استاد کو منتر کے وسیلے سے جگایا کہ وہ اُسے قبر
میں داخل کرنے کا منتر دوبارہ بتا دیں گے مگر ہوا یہ کہ استاد بھی موت کے
بعد منتر بھول چکا تھا ۔ اس پہلے تو ایک تھا، اب دو مردے ساتھ ہوگئے۔
ہندوستان کی عوام نے 2014ء میں پہلا منتر پڑھا تو ایک آسیب نکل آیا لیکن
2019 میں جب اسے پھر سے پڑھا دوسرا عفریت ظاہر ہوگیا ۔ اب یہ ملک دو بلاؤں
کے نرغے میں ہے لیکن بنگال میں ان کا جادو نے انہیں پھر سے قبر میں دفن
کردیا ہے ۔ ایسے ان دونوں پر علامہ اقبال کے یہ مصرع ترتیب بدل کرترمیم کے
ساتھ صادق آتے ہیں؎
حکومت کا تو کاپ رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
ثُریّا سے زمںم پر آسماں نے ان کو دے مارا
|