دولت جاتی رہی مگر غرور نہ گیا ۔ ہر وقت سزا پائی مگر بری
عادت نہ گئی۔ چین امریکہ سے سپر پاور کا تاج چھین چکا ہے ۔ اتحادیوں میں
پھوٹ پڑچکی ہے ۔ اب خبر یہ ہے کہ امریکہ اپنے چالاکیوں سے دنیا میں ایک نئی
جنگ کا آغاز کرنے جارہاہے ۔امریکی وزیر دفاع نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل کے
ممکنہ تنازعات کی صورت ماضی سے بالکل مختلف ہو گی۔ تقریب سے خطاب میں انہوں
نے کہاکہ مستقبل کے حالات کا تعین کرنا فی الوقت بہت مشکل ہے۔ امریکی
وزارتِ دفاع کے سربراہ نے واشنگٹن سے کہا کہ وہ سائبر اور اسپیس خطرات کا
اندازہ لگاتے ہوئے جدید ٹیکنیکل وڈیجیٹل اختراعات کو دفاعی معاملات میں
بھرپور انداز میں استعمال کرے۔لائیڈ آسٹن نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ
نئے دور کی عسکری ضروریات میں کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی دانش اور کمپیوٹر کی
جدید مہارت کا استعمالشامل ہو سکتا ہے اور ان سے دفاعی ریسپونس کی رفتار
بھی انتہائی تیز ہو گی۔ اسی ریسپونس میں اجتماعی ڈیٹا کا حصول اور اس کی
شیئرنگ بھی شامل ہو گی۔چینی افواج میں تیز رفتاری سے جدیدیت متعارف کرانے
کے خدشات اور ممکنہ جارحانہ رویوں کے تناظر میں امریکی وزیر دفاع نے واضح
کیا کہ اب اس تاثر میں رہنا درست نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے باصلاحیت
مسلح افواج رکھتا ہے اور ایسے حالات میں جب مخالف قوتیں اپنی طاقت کی دھار
کو تیز سے تیز تر کرنے میں مصروف ہوں۔ اپنی تقریر میں پینٹاگون کے سربراہ
نے چین کا نام نہیں لیا۔امریکی وزیر دفاع نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے خارجہ
امور میں سفارتی عمل کو بنیادی حیثیت دینے کے عمل کو کو اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کی قوت ملکی سفارت کاروں کو کسی بھی تنازعے میں
ممکنہ اضافے اور خطرے کی شدت کو کم کرنے میں مددگار دے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ کارپوریشنوں کی انتظامیہ، کارپوریٹ کریسی ایشیائی، افریقی
اور جنوبی امریکی ممالک میں کیا کیا حربے استعمال کرتی ہے۔ مثلا ان ملکوں
کے اندر اپنی فیکٹریوں کی تیار کردہ اشیا بڑے بڑے سٹوروں کے ذریعے فروخت
کرنے کے لیے عوام میں کس طرح ان کی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ انتہائی سستی اجرت
پر سامان تیار کرواکر اور خوشنما لیبل لگا کر اشتہاری بازی کے ذریعے ان سے
کتنا منافع کمایا جاتا ہے۔ پسماندہ ممالک کو بڑے بڑے منصوبے لگانے پر کس
طرح آمادہ کیا جاتا ہے۔ انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بھاری قرضوں کے
جال میں پھنسانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پھر ان منصوبوں
کی تکمیل کے لیے کن کمپنیوں کو ٹھیکے دلائے جاتے ہیں۔ جب ان کا بال بال
قرضوں میں بندھ جائے تو انہیں امریکی پالیسیوں کا کس طرح تابع بنایا جاتا
ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا آج تک اپنے کسی دشمن کو نقصان نہیں پہنچا سکا۔
ایران، کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا اس کی مثالیں ہیں، جبکہ صدام حسین،
حسنی مبارک، معمر قذافی اورشاہ ایران جیسے حکمرانوں کو امریکا عبرت کی مثال
بنا چکا ہے۔ صدام حسین نے امریکی اشارے پر ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے
کے لیے جنگ کی۔ ایران تو مستحکم ہے جبکہ عراق کا وجود صرف دنیا کے نقشے پر
قائم ہے۔ ملا عمر نے امریکی حکم پر اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار
کردیا۔ اپنی حکومت قربان کردی آج امریکی غلامی کی وجہ سے پاکستان کو پتھروں
کے دیس میں چلا گیا ہے اور امریکا طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ڈٹ کر اور کھل کر یہ کہے کہ عالمی
سیاست میں امریکی جنگ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ امریکی جھوٹ ہم پر کھل گیا
ہے۔ اب آپ پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہار
گیا ہے۔ قیادت امریکا کے مقابلے پر کھڑی ہوجائے تو عوام پشت پر ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک دشمن عناصر کیخلاف جنگ کے لئے ہرشہری کو اپنی
قومی زبان اردوپر عبور حاصل کرنا ہو گا ۔ کیونکہ پاکستان کے دشمنوں
پاکستانی قوم کو کئی علاقائی زبانوں میں تقسیم کر چکے ہیں ۔ جس کی وجہ سے
قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔چین ، ترکی ، ایران ، روس، جاپان اور امریکہ سمیت
دیگر ممالک کی ترقی کا زار ان کی اپنی قومی زبان بنیادی وجہ ہے ۔دنیا میں
تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہونے جارہاہے ۔ ہرپاکستانی ذمہ داری کا مظاہر ہ
کرتے ہوتے اپنے قومی زبان اردو پر توجہ دے ۔ ایسی میں ہماری کامیابی کا زار
ہے۔ امریکی سازشوں کی مثال ہے ’’ رسی جل گئی پر بل نہیں جلا‘‘
|