کاہو جو دڑو
بدھسٹ تہذیب کا مرکز، جس کے صرف آثار باقی رہ گئے ہیں
کاہو جو دڑو کا نام سن کر ایک ایسے تباہ حال شہر کا خاکہ ذہن میں آتا ہے
جوقدیم عمارتوں کے کھنڈرات پربکھرا ہوا ہو اور جس کے گرد بلند بالا فصیل
بنی ہوئی ہو۔ مگر وہاںکے تمام تاریخی آثاروقت کی دھول اور موسمیاتی تغیرات
کی وجہمعدوم ہوچکے ہیں۔اس مقام پر جا بجا مٹی اور پتھروں کے بلند و بالا
ٹیلے ہیں، جن کے اطراف میں خود رو جھاڑیوں ں کا جنگل اگا ہوا ہے۔میرپور خاص
سے ایککلومیٹر کے فاصلے پرخاردار تاروں سے گھرےیک وسیع و عریض مقام پر گندے
پانی کے تالاب کے عین درمیان سرخ مٹی کا ایک جزیرہ نما ٹیلانظر آتا ہےجسے
لوگ’’ کاہو جو دڑو ‘‘کے نام سے جانتے ہیں ۔
سندھ کے خطے میں ہزاروں سال قبل مختلف النوع تہذیبوں نے جنم لیا اور اس کے
ہر شہر میں ان کے آثار بکھرے ہوئے ہیں جو ارتقائے انسانی کی نشانیوں اور
پرشکوہ ادوار کی عکاسی کرتے ہیں۔ کاہو جو دڑو بھی ان میں سے ایک ایسا ہی گم
گشتہ شہر ہے ، جو بدھ مت کا مذہبی مرکز تھا۔تقریباً 40ایکڑ رقبے پرمحیط’’
کاہو جو دڑو ‘‘کے بارے میںقدیم آثار کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق ڈھائی
ہزار قبل اسے کاہن قوم کے راجہ ’’کاہو‘‘ نے بسایا تھا ، اسی کے نام سے یہ
شہر موسوم ہوا۔ایک اور تاریخی روایت کے مطابق500 سال قبل اس مقام پر ’’
کاہو‘‘ نام کے جاگیردار کی رہائش تھی، جو سومرا حکم راں جام نظام الدین
نندو کا سپہ سالار تھا، جس کی مناسبت سے اس شہر کو ’’کاہو جو ڈیرو‘‘ کے نام
سے پکارا جانے لگا۔
بریگیڈیئر جنرل جان جیکب جو ایسٹ انڈیا کمپنی کےمعروف فوجی افسر
تھے،برطانوی حکومت کی جانب سے ، انہیں 1847ء میں پولٹیکل سپرنٹڈنٹ بنا
کرخان گڑھ، موجودہ جیکب آباد بھیجا گیا۔ وہ 1857ء میں اپنی وفات تک جیکب
آباد میں خدمات انجام دیتے رہے۔ جان جیکب ، فوجی افسر ہونےکے ساتھ سول و
مکینیکل انجینئیر اور ماہر تعمیرات بھی تھے۔ انہیں تاریخی آثار سے بھی
گہری دل چسپی تھی، اس مقصد کے لیے انہوں نے سندھ کے متعدد شہروں میں کھدائی
کروائی جن میں میر پور خاص میں کاہو جودڑو کا علاقہ بھی شامل تھا۔کاہو جو
دڑو کی کھدائی ان کی زندگی کے آخری ایام میں شروع ہوئی جو دسمبر 1858میں
ان کی وفات کی وجہ سے ادھوری رہ گئی اور ان کا مشن نامکمل رہا۔ 1889ء میں
جب میرپورخاص کو نواب شاہ تک ریلوے لائن کے ذریعے مربوط کرنے کے لیے ٹرین
کی پٹڑی بچھائی جارہی تھی تو کھدائی کے دوران وہاں سےقدیم دور کے سکے،
نوادرات اور کرسٹل کے ٹکڑے ملے۔قدیم آثار کے ماہرین نے انہیںبدھ دور کے
آثار قرار دیا جب کہ برطانوی سرکار کی جانب سے انہیں کراچی اور بمبئی کے
عجائب خانوں میں رکھوادیا گیا جو آج بھی وہاںموجود ہیں۔
10-1909ء میں ضلع تھرپارمیں جب جان میکنزی ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات
ہوئے تو تو انہوں نے آثار قدیمہ کے محکمے سے کاہو جو دڑو کے آثار کی تلاش
کے لیے کھدائی کے لیے خط و کتابت شروع کی۔ان کی درخواستوں پر غور وخوض کے
بعدہندوستان کی برطانوی حکومت نےمحکمہ قدیم آثارکے سروے سپرنٹنڈنٹ مسٹر
ہنری کزنس کو میر پور خاص بھیجا جنہوں نے وہاں پہنچ کر کاہو جو دڑو کی
دوبارہ کھدائی شروع کرائی تو یہاں سے بدھ دور کا ایک اسٹوپا دریافت
ہوابدھسٹ اسٹوپا دریافت کیا جس کے اوپر مجسمہ تھا، جسے بہت خوبصورتی کے
ساتھ بنایا گیا تھا اور جو اس دور کےفن کاروں کی فنی مہارت کی عکاسی کرتا
ہے ۔
کاہو جو دڑوکا علاقہ تقریباً 40 ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہواتھا،
جہاںدور دور تک مٹی کے تودے ، ٹیلے اور گہرے کھنڈرات تھے۔ جب وہاں مزید
کھدائی کی گئی تو بدھ مت کی ایک عبادت گاہ یعنی ’’سمادھی‘‘ ملی جو تقریباً
50 سے 52 مربع فٹ طویل و عریض تھی اور اس کی چاروں دیواروں پرپھول منقش کیے
گئےتھے۔اس کے بالکل مرکز میں ایک دروازہ ملا جس میں اس سمادھی کی محرابیں،
گوتم بدھ کی شبیہیں اور مجسمے دریافت ہوئے ، جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین
کے مطابق مٹی سے بنا کر آگ میں پکانے کے بعد رنگا گیا تھا۔ کئی مجسموں میں
گوتم بدھ غم و اندوہ کی کیفیات کے عالم میںآلتی پالتی مارے مراقبے کی حالت
میں بیٹھے نظر آئے۔ اس سمادھی کو جب مغربی سمت سے کھودا گیا تو وہاں سے’’
کبیر‘‘ نام کے دیوتا کا مجسمہ بازیاب ہوا۔کبیر کومال و دلت کا دیوتا (دھن
پتی )کہا جاتا ہے ۔مزیدکھدائی کے دوران اینٹیں ہٹانےسے ایک چھوٹا سا کنواں
بھی دریافت ہوا جس کا منہ پتھروں سے بند تھا۔
ایک جگہ پتھروں کے ڈھیر ہٹانے کے بعد وہاں سے ایک ٹوٹی ہوئی بوتل ملی جس کے
اندر ایک موم بتی نما شیشی رکھی تھی جس پر سونے کا ورق چڑھا یا گیا تھا۔اس
کے اندر گوتم بدھ کی چتا کی راکھ تبرک کے طور پر محفوظ کی گئی تھی۔مورخین
کے مطابق گوتم بدھ کا تعلق ’’ساک منی‘ ‘قوم سے تھا، جس نے مختلف مذہبی
روایات اپنائی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک روایت کے مطابق جب کوئی مہاتما
بزرگ وفات پا تا تو اس کے جسم کو جلا کر اس کی خاک پر سمادھیاں تعمیر
کروائی جاتی تھی۔گوتم بدھ کےمرنے کے بعد بھی اس کی خاندانی روایات پر عمل
کیا گیا اور اس کی چتا کی راکھ 8 حصوں میں تقسیم کرکے مختلف مقامات پر دفنا
کر مندراسٹوپا اور سمادھیاں بنائی گئیں۔
کھدائی کے دوران ایک ٹیلے کے نیچے سے 17 فٹ بلند چوکورطرز کا چبوترا دریافت
ہوا، جس پر 38 فٹ بلند گنبد نما میناربنا ہوا تھا۔چبوترے کے تین اطراف
مہاتما بدھ کےطویل قامت مجسمے ایستادہ تھے ۔ اس چبوترے پر بدھ بھکشو
’’پرادکشنا ‘‘کی مذہبی رسم کی ادائیگی کے لیے آتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں
سےمٹی کے ظروف اور ناپ تول کے اوزان بھی دریافت ہوئے ، جن پر گوتم بدھ کے
بجائے ’’پگوڈوں‘‘کی اشکال منقش تھیں۔ کاہو جو دڑو سے ملنے والے نوادرات،
ممبئی کے’’پرنس آف ویلز ‘‘عجائب خانے لے جائے گئے، جہاں یہ آج بھی محفوظ
ہیں ۔
|