ہائیکنگ ٹوور پی تھا؟!

کہیں جانے کے لیے تیاری دو دن پہلے شروع کرو یا سات دن پر عین رخصت تک جا کر بمشکل انجام پاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔خیر اس دن موسم خوب دیوانہ تھا۔ یخ بستہ ٹھنڈی ہوا اور چم چم کرتے سرمئی بادل جیسے ابھی برسے کہ ابھی برسے۔ مری پہنچنے سے پہلے وہاں کے موسم کی سختی کا اندازہ لگوانے کو کافی تھے۔ مجھے جلدی نکلنا تھا اور باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سماعتوں کو چھلنی کررینے کے لیے کافی تھی۔اوپر سے امی کی یارہانیاں بیٹا چارجر رکھ لو فون مت بھول جانا پیسے رکھ لیے پرس میں؟؟

خیر بیگ کا پیٹ بھر چکا تھا لیکن پھر بھی دھنسا گھسا کر براون کورٹ بھی اس میں ٹھونس دیا۔ ویسے اس کام میں ہم پاکستانیوں سی مہارت کوئی رکھتا بھی تو نہیں جب رکشے میں اونٹ آسکتا تو بیگ میں چار جوڑوں اور کچھ سامان کے ساتھ ایک جوگر اور دو اورکورٹ کیوں نہیں سما سکتے؟

امی نے پیار اور دعا دی ماتھا چوما ۔میں دو قدم چلی اور مڑ کر دیکھا تو ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ اسکی وجہ تھی میرا سفر کرنا انکے خیال میں سفر چاہے کہین کا بھی ہو مصیبت کی کنجی ہوتا خیر میں واپس آگئی ان سے گلے ملی اتنے میں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔گاڑی کا ہارن نان سٹاپ ٹرین کی طرح بج رہا تھا۔امی نے کہا چلو بیٹا جلدی جاو موسم خراب ہو رہا ہے ۔

بارش کی بوندیں گرنے لگی؛ میں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ہم تھوڑی دیر بعد کالج کے گیٹ پر پہنچ گئے بارش اتنی تیز تھی کہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ پورے 5 منٹ تک ڈرائیور میری طرف حیرانگی میں اور میں بارش کی طرف پریشانی میں گھورتی رہی۔ بارش کو بھی شاید جوش ہی بہت آگیا تھا۔ خیر اس سے پہلے کہ مجھے نکالا جاتا میں نے چھتری کا سوچا! فورا سے خیال آیا وہ تو ہینڈ کیری میں رکھ چکی ہوں جو کہ ڈیگی میں پڑا ہوا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں ہمت کرتی ڈرائیور خود ہی باہر نکلا اور اس کے ہاتھ میں ایک عدد کالی چھتری تھی ۔اس نے پچھلا گیٹ کھول کر کہا میڈم یہ لیں۔ میں نے اظہار تشکر والی نگاہوں سے گردن جھکائی اور چھتری کا دستہ پکڑا ،باہر نکل کر شکریہ کہنے ہی والی تھی۔

ڈرائیور: آپ جائیں میں آپ کا سامان پہنچا دیتا ہوں۔

وہاں پہنچ کر پتا چلا ابھی سب لوگ اکٹھے نہیں ہو سکے موسم خراب تھا۔ بس یہی وجہ تھی کہ گھروں سے نکلنا مشکل تھا۔ اور ایسے میں اگر آپ لڑکی ہو تو اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

اللہ اللہ کر کے شام 7 بجے تک سٹرینتھ پوری ہوئی۔ بارش تھم چکی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے اپنی چھتری ہاتھ میں پکڑ لی۔ ٹیچر بار بار آتے اور ہدایات دیتے۔ ہمیں لگ رہا تھا جیسے ہم کسی محاذ پر جارہی ہیں۔ اساتذہ کی اس انتھک محنت کو کوئی لفٹ نہیں مل رہی تھی۔ویسے بھی لڑکیاں وہی سنتی ہیں جو وہ سننا چاہتی ہیں۔

ڈیوو آگئی اس ایک صدا نے کھلبلی مچا دی۔ نہ کوئی تیری رہی نہ میری سب آگے پچھے اپنا اپنا سامان لیے باہر کو لپکیں۔مقصد صرف ایک تھا اپنی پسند کی سیٹ مل جائے۔میں بھی باقیوں شامل تھی میری کوشش تھی کہ کھڑکی والی سیٹ مل جائے۔ اور میں تھوڑی تگ دو کے بعد کامیاب ہوگئی ڈرائیونگ سیٹ سے دو سیٹ چھوڑ کر تیسری سیٹ ہمیں نصیب ہوئی۔

بوتل کھولی اور اپنے خشک گلے کو تر کیا آنکھیں بند کیں سیٹ ایکسٹینڈ کی سر ٹیکا اور لمبی سانس بھری۔

یوں لگا گویا کہ ابھی ابھی 100 میٹر دوڑ میں حصہ لیا ہو۔

یہ میں لوں گی، نہیں مجھے ادھر سے ڈر لگتا ہے، وہ میری تھی، بچو اتفاق سے بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر تک ایسی اور اس سے ملتی جلتی بہت سی آوازیں میرے کانوں سے ٹکراتی رہیں ۔ یکدم سے گھڑ گھڑ کرتے سپیکروں کی آواز کانوں میں پڑی تو میں چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔۔مری آگیا کیا؟ ساتھ بیٹھی کلاس فیلو نہیں ابھی تو شاہکوٹ کو خیر آباد کیا ہے۔ ہر سیٹ سے سرگوشیوں کی آوازیں آرہئ تھی۔ میں فون پر لگ گئی۔ اندھیرا کافی زیادہ محسوس ہو رہا تھا بادلوں نے آنچل کی طرح تاروں کو چھپایا ہوا تھا۔گاڑی کے بھیگے شیشوں سے سڑک کے کناروں پر لگی لائٹس ٹم ٹماتے تاروں کی طرح نظر آرہی تھیں۔

پنڈی بھٹیاں میں ٹول ٹیکس ادا کرنے کے بعد ہم موٹر وے پر انٹر ہوگئے۔ شام کے 8بج کر 23 منٹ ہوچکے تھے موٹر وے پر کافی زیادہ رش تھا۔ میں بھی صبح ناشتے کے بعد سے تیاریوں میں مصروف رہی کھانے پینے کی کوئی ہوش نہ رہی۔ پرس کھولا اور چپس کے پیک کو ہاتھ لگایا بس وہ ذرا سا زور سے لگ گیا،کہ اردگرد کی دو تین سیٹوں تک لوگوں کو چکنا کر دیا۔ ساتھ بیٹھی لڑکی نے کہنی ماری ابھی 2 دوگھنٹوں میں بھوک لگ گئی؟ میں بتانے کے لیے ابھی اس کی طرف مڑی ہی تھی کہ میری نظر ٹیچر پر پڑ گئی ۔ جو ہمارے برابر والی نشست پر اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ براجمان تھے۔ میں اجلت میں بولی نہیں۔۔۔ نہیں مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میں نے جلدی سے شال کھنچی اور اپنے اوپر لپیٹ لی۔ مجھے ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ کے بدلے سچ مچ مسکرانہ پڑا۔

دوران سفر یوں محسوس ہوا گویا بس ہوا میں اڑنے لگی ہو ۔پھر پتہ چلا کہ میدانی علاقہ ختم ہوگیا اور ہم پہاڑی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں۔ انچائی کی طرف جاتے تو سانس اندر گھٹ جاتی پھر آتا رائے کے وقت ایک خوشنما ہوا کا جھونکا نصیب ہوتا۔

کلرکہار پہچنے پر 30 منٹ کا سٹیے کیا۔ میں نے اپنی بھوک مٹائی تو سکون کا سانس ملا۔ لگا جیسے برسوں سے بھوکی تھی گویا ابھی کچھ کھایا ہو۔ 12 بجے ہم فیض آباد کی طرف چل پڑے ۔

پیٹ بھرا تو نیند نے آن لیا۔مجھے ساتھ والی لڑکی نے جگایا یہیں بس میں رکنے کا ارادہ ہے؟ نہیں تو! میری نظر شیشے سے ٹکراتے ہوئے برف کے سفید گالوں پر پڑی تو ساری سستی یہ جا وہ جا۔ میں نے اسکو چھونا چاہا مگر شیشہ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگیا۔

یہ بھی حقیقت ہے زیادہ خوشی کے موقع پر انسان عقل استعمال نہیں کرتا۔

بس تقریباً خالی ہوچکی تھی میں بھی باہر نکلی ۔ ایسا خوش آمدید شاید ہی کبھی مجھے نصیب ہوا ہو ۔جب برف کے سفید گالوں نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا ہو۔ میں نے اپنا منہ اوپر کو اٹھایا آنکھیں بند کر لیں ۔ایک لمحے کے لیے لگا جیسا زندگی بھر کی تلخی کو اس کی نرم و ریشمی ٹھنڈک نے روح تک جا لیا ہو۔

سب ہوٹل میں داخل ہو چکے تھے میں نے بھی انہیں فالو کیا۔ سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی یوں لگ رہا تھا ۔ جیسے فیصل آباد میں مری سے زیادہ سردی تھی۔ ہمیں دوسری منزل پر 26 نمبر روم آلاٹ ہوا۔ کمرے میں پہنچتے سامان رکھا ،میں حواس باختہ رہ گئی، زمین پر لگے میٹرس وہ بھی ایسے ٹھنڈے کہ جیسے پانی میں بھگو کر رکھے ہوں ۔ کمبل ایسے کہ جنہیں اوڑھ کر گرمیوں میں بھی ٹھنڈ محسوس ہو۔
اللہ اللہ کر کے رات گزاری سردی سے برا حال تھا۔ ہیٹر کا تو نا نشان نہ تھا۔۔۔البتہ ایک لڑکی استری لائی تھی وہی لگا کر ہاتھوں کو گرم کیا۔ اس رات پتہ چلا کہ ہیٹر کے بغیر زندگی کتنی مشکل ہے۔ وہ تو شکر ہے امی نے پولی بیگ میں کمبل رکھ کر دے دیا۔ورنہ ہوٹل والواں کے بستر کا تو اللہ ہی حافظ تھا۔

میری آنکھ کھلی تو ایسا منظر تھا۔ جیسے سردیوں میں صحراؤں پر خانہ بدوشوں کی بھیڑ بکریاں اپنی ناک چھپائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ کھڑکی سے جانکا تو کافی برف پڑ چکی تھی جیسے ساری رات برف باری تھمی ہی نہ ہو۔

میں باہر نکل گئی۔ ٹیرس کی گریل پر دو سے تین انچ برف جم چکی تھی ۔ ٹیرس کے اوپر کئی کئی سینٹی میٹر برف پڑی تھی۔ ہر چیز نے برف کی سفید چادر اوڑ رکھی تھی۔ میں ابھی اس منظر کو ابھی سمیٹ ہی نہ پائی تھی ۔ کسی نے میرے سر پر برف کا بڑی سی گیند بنا کر دے ماری۔ اچانک سے میری چیخ نکل گئی میں خود کو سنبھال نہ پائئ اور لڑھکتے لڑھکتے مشکل سے سنبھل سکی۔ 10 پندرہ منٹ کی برفانی مار کٹائی کے بعد ہم تھک چکے تھے ۔ ناشتہ کیا اور راستوں کے کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔

یوں ہی اگلا دن اور رات گزر گئی۔ ہمیں لگ رہا تھا کے جیل میں قید ہیں لڈو اور موبائل فونز نے تھوڑی بوریت ختم کی۔ ورنہ تو دونگا گلی(ہائیکنگ کی جگہ ) تو برف سے کھچا کھچ بھری ہوئی بتائی گئی۔
اگلے دن دوپہر کو راستہ کھل گیا ہم کشمیر پوائنٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہلکی ہلکی برف باری ماحول کو اور پر لطف بنائے ہوئے تھی۔ خوبصورت دلکش جنت نظیر وادی کا نظارا آنکھوں کو اپنے سحر میں ڈوبو گیا۔ برف باری تیز ہو گئی ہم ایوبیہ کی طرف چل دئیے ۔ لیکن سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے ہمیں بھاری دل کے ساتھ واپس آنا پڑا ۔ یونہی یہ دن بھی گزر گیا اور موسم کی دل کشی ہماری چیئر لفٹ پر بیٹھنے کی خواہش کی کو کش کر گئی۔

ہوٹل سے اسلام آباد تک پورے 35 منٹ تک بس میں خاموشی چھائی رہی۔

ایک آواز آئی بچو! ہم آبپارہ روڈ پر ہیں اور ٹھیک بارہ منٹ تک ہم اپنے ہائیکنگ پوائنٹ پر ہونگے گے۔
پھر ہماری گاڑی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اتر گئی کچھ دیر بعد گاڑی رکی ۔ ہم نے پانی کی ایک ایک بوتل کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا ۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک تاریخی غار کے میں پہنچے ۔ ایسا تاریخی ورثہ اور اسلام آباد میں۔ اس منظر نے مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ ہکا بکا بھی کردیا۔ سینکڑوں سال پرانے درختوں کی جڑوں میں چٹانیں جن کے دامن میں کھڑا شفاف پانی شاہ اللہ دتہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگارہا تھا۔سورج کی سفید بادلوں کے ساتھ چھپن چھائی تو اس منظر کو اور دل فریب بنا رہی تھی۔ ہم لوگ غار میں گھس گئے ۔ یہ جگہ ایک مسافر خانہ لگ رہی تھی۔

یقینا سٹوپاز کی وجہ سے یہ جگہ بدومت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہو گی۔ یوں لگا گویا بہت پیچھے زمانے میں پہنچ چکی ہوں۔ چٹانوں کے اندر سیچی ہوئی بڑے بڑے درختوں کی جڑیں انکی تاریخی اہمیت کی گواہی دے رہیں تھی۔ اگر انتظامات اچھے ہوجائیں تو یہ جگہ کسی بھی اہم بین الاقومی سیاحتی مقام کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔

یہ آج تک نہیں سمجھ پائی اتنی برف باری والے موسم میں ہائیکنگ ٹور پلان کیوں کیا گیا؟ اگر کے کر جان تھا تو trial 5پر ہی لے جاتے خیر یوں ہمارا ہائیکنگ ٹور انجام کو پہنچا۔گھنے بادل چھا گئے بس لگ رہا تھا،بارش ابھی برسی کہ ابھی برسی ۔ اس سے پہلے موسم کوئی اور رنگ دکھاتا ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
ازقلم حبور


 
Peerni G
About the Author: Peerni G Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.