یہ ایک فطرتی بات ہے کہ دنیا میں فطرتی خوبصورتی اور
قدرتی مناظر دیکھنے کو ہر انسان کا دل بے تاب ہوتا ہے اور شاید یہ میرے وطن
عزیز سے محبت کا ہی جذبہ ہے جو دل میں اس کا ایک ایک ذرہ دیکھنے اور چھونے
کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ یہی خواہش ہمیں ملک کے دُور دراز علاقوں کی طرف
کھینچے چلی جاتی ہے۔
میرے دیس کے متنوع رنگ، ملنساری اور مہمان نوازی سے کون واقف نہیں؟ میں جس
کونے میں گیا وہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے منفرد ضرور پایا مگر ہم وطنوں کو
ہر حال میں اور محدود وسائل کے باوجود انسانیت کے ہر تقاضے کو پورا کرتے
دیکھا۔
چنانچہ اس دفعہ ہمارا دس دوستوں کا ایک حسین گلدستہ مولانا آصف صاحب کی زیر
قیادت ہمارے محترم جناب پروفیسر خالد پرویز صاحب کے پاس جانے کے لئے "وادی
چترال" کے خوبصورت علاقے "بونی" کی طرف روانہ ہوا ۔
لاہور یا اسلام آباد سے چترال جانے کے لئے مسافر حضرات فضائی سفر کی بجائے
زمینی سفر کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، جو فلائنگ کوچ اور بسوں کے ذریعے
باریک سی پگڈنڈی نماسڑک، دونوں اطراف بلند و بالا پہاڑ، ہزاروں فٹ گہری
گھاٹیوں،کھائیوں اور مالاکنڈ ڈویژن کے خطرناک پہاڑی راستے، اندھے موڑ اور
وادی دیر،تیمر گڑھ، اور ایشیا کے مشہور و معروف اور وسیع و عریض بٹ خیلہ کے
بازار اور یہاں سے مزید آگے لواری کے درے سے ہوتا ہوا گزرتا ہے، لواری سرنگ
سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے، یہ سرنگ دیر اور چترال کے درمیان کوہ
ہندوکش میں درہ لواری میں واقع ہے یہ سرنگ 26ارب 95 کروڑ روپے کی لاگت سے
جون 2017 میں مکمل ہوئی ۔اس کی لمبائی دس کلو میٹر سے کچھ زائد ہے۔سردیوں
کے موسم میں برف باری ہونے کے باوجود بھی یہ سرنگ مسافروں کے لئے کھلی رہتی
ہے جبکہ لواری ٹاپ برف باری کے باعث بند ہو جاتا ہے ۔ لواری ٹینل کے بعد سر
بہ فلک برف پوش پہاڑ، سرسبز پہاڑی میدان، درختوں کے جھنڈ مسافروں کے لیے
حیرت انگیز مناظر ہوتے ہیں۔
ہم نے رات گیارہ بجے کے قریب تیمر گرہ کے خوبصورت تبلیغی مرکز میں عشاء کی
نماز ادا کرنے کے بعد عشائیہ کیا اور پھر دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد ایک
بجے پھر روانہ ہوگئے لیکن اچانک ہماری گاڑی کے مین لائٹیں خراب ہوگئیں جس
وجہ سے وقتی طور پر پریشانی تو ہوئی لیکن یہاں کے لوگوں میں ہمدردی اور
محبت اتنی زیادہ ہیں کہ پیچھے آنے والے تمام چترالی ڈرائیوروں نے باری باری
گاڑی کے ساتھ گاڑی لگا کر اس پریشانی کو دور کیا اور یوں ہم نے تقریباً چار
گھنٹے کا سفر لائٹ کے بغیر ہی دوسروں کی ہمدردی اور اللہ کے حفظ و امان سے
الحمدللہ پورا کیا ۔
وادی چترال پاکستان کے خوبصورت مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ چترال اپنی
منفرد ثقافت اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اس وادی میں
سیاحوں کے لیے نہ صرف دلفریب مناظر سے بھرپور مقامات ہیں بلکہ ہر 50
کلومیٹر پر بدلتی ثقافت کے رنگ بھی بکھرے ہیں، یہی خاصیت اسے ملک کے دیگر
مقامات سے ممتاز اور خوبصورت بناتی ہے۔
ضلع چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے جو
پاکستان کا ایک اہم سرحدی علاقہ بھی ہے۔ جس کی آبادی چار لاکھ نفوس سے
زیادہ ہے، اس کی سرحد دو اطراف میں افغانستان سے ملی ہوئی ہے۔اور واخان کی
پٹی اس کو تاجکستان سے ملاتی ہے، اور تاریخ یہ بھی بتلاتی ہے کہ پہلے زمانے
کے لوگ حج پر جانے کے لئے اونٹوں پر سفر کرتے ہوئے چترال کا پہاڑی راستہ
استعمال کرتے تھے کیونکہ یہ راستہ سہل بھی ہے اور محفوظ بھی ہے۔
یہاں کے لوگوں کی بودوباش اور تہذیب اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔چترالیوں کے
لباس یوں تو سیدھے سادے ہوتے ہیں لیکن وادی کالاش کے لوگ اپنے روایتی لباس
پہنتے ہیں۔ اور پورے پاکستان میں اپنے اسی روایتی لباس سے پہچانے جاتے
ہیں۔کھپورڑ،چترالی ٹوپی اور واسکٹ اون سے بنائے جاتے ہیں۔اور خواتین کے لئے
ٹوپی اور واسکٹ کڑھائی کر کے بنائی جاتی ہے۔یہ ٹوپی خوبصورت اور انتہائی
نفیس ہوتی ہے۔جو کہ زیادہ تر شادی بیاہ کے موقعے پر دولہا اور دولہن بھی
چترالی ٹوپیاں زیب تن کرتے ہیں۔دولہن کو سفید گھونگھٹ کے اوپر ٹوپی اور
سربند پہناتے ہیں تو چترال کے پہاڑوں کی شہزادی اور بھی معصوم اور خوبصورت
لگتی ہے۔ چترالی انگوٹھی بہت مشہور ہے۔یہ مارخور اور ہرن کے سینگ سے بنائی
جاتی ہیں۔ اس کی پوری جیولری بھی ملتی ہے۔لیکن پلنگو شٹو یعنی انگوٹھی بہت
مشہور ہے۔چترال میں یہ بھی ایک رسم ہے کہ جب دولہا دولہن کو لے کر رخصت
ہوتا ہے تو دولہا دولہن کا ہاتھ پکڑ کر باہر جا کر دولہا واپس اپنے ساس کے
پاس آتا ہے اور اس موقع پر ساس تحفے کے طور پر دولہے کوانگوٹھی پہناتے
ہیں۔
چترال کے روایتی کھانوں میں چھیرا شاپیک،شوشپ یعنی چترالی حلوہ
،کڑی،سنباچی،ڑلے گانو وغیرہ بہت مشہور ہیں۔
چترال میں اسلام چودھویں صدی میں رئیس اول شاہ نادر رئیس کے ساتھ آیا، یہاں
سنی مکتبہ فکر کے علاوہ اسماعیلی، آغا خانی اور کیلاشی(کافر) لوگ رہتے ہیں
اور بونی کے علاقہ میں جہاں ہم ٹہرے ہوئے ہیں وہاں تقریباً ساٹھ فیصد کے
قریب اسماعیلی مسلک کے لوگ رہتے ہیں اور چالیس فیصد سنی مکتبہ فکر کے لوگ
آباد ہیں۔
وادی چترال کی شاہی مسجد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے، جس کو 1924 میں یہاں
کے حکمران شجاع الملک نے تعمیر کروایا تھا۔اسے خاص سنگ مر مر سے تعمیر
کروایا گیا ہے اور اس میں کندہ کاری اور پچی کاری بہت مہارت سے کی گئی ہے
جو کہ دیکھنے والوں کو حیرت کے عالم میں ڈال دیتی ہے، اس کے ساتھ ہی شاہی
قلعہ واقع ہے جو تقریباً اکثر بند ہی رہتا ہے۔ ﻧﮯ 1924ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
چترال کی سر زمین اپنے اندر بہت سے اسرار سمیٹے ہوئے ہے، گرم چشمہ بھی ان
ہی میں سے ایک ہے، اس میں موسم بہار میں بھی پانی گرم رہتا ہے، وہاں تک
جانے کے لئے چترال کے شمال میں جیپ پر 45 میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔مقامی
لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں بہت سے لاعلاج امراض کی
شفا ہے۔ اسی طرح آیون کا علاقہ بھی اپنی مثال آپ ہے، یہ چترال میں بہترین
پکنک اسپاٹ ہے، جو بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے ۔
ہمارے میزبان پروفیسر خالد پرویز صاحب نے ہمیں بتایا کہ اس سلسلہ کوہ کی
دیگر مشہور پہاڑی سلسلے میں کاکلشٹ کی وادی بھی ان دنوں میں اپنا منفرد
مقام رکھتی ہے۔ اور وہ ہمیں صبح دس بجے وہاں لے گئے اور چار بجے تک ہم وہاں
کے قدرتی مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتے رہیں اسی طرح فٹ بال بھی کھلتے رہیں
اور خوب انجوائے کیا ۔
سر سبز پہاڑی ڈھلوانوں پر واقع یہ ایک جادوئی مناظر والا میدان ہے۔ کاکلشٹ
کا علاقہ سر سبز و شاداب میدانی علاقہ ہے جو کہ بونی، وادی تورکوہ اور مور
کوہ کے سنگھم پر واقع ہے اس سر سبز میدان کی حیران کن شادابی اور خوبصورتی
اپریل کے مہینے کے آخر تک اپنے جوبن پر ہوتی ہے جو کہ اپنے گرد و نواع کے
دور دراز رہنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اپنی جنت نما
خوبصورتی دیکھنے پر مجبور کرتی ہے،گزشتہ دنوں سے مسلسل بارش کی وجہ سے یہ
علاقہ اپنی خوبصورتی میں یگانہ ہو گیا ہے۔علاقہ کے مکینوں کے علاوہ قرب
وجوار سے لوگ یہاں تفریح کرنے آتے ہیں۔ہر طرف سبزہ زاروں نے جھیل اور اس
کے سامنے پہاڑوں کو ایک رومانوی منظر دے دیا ہے۔ علاقہ کے مکینوں کے علاوہ
قرب وجوار سے لوگ یہاں تفریح کے لیے کھینچے چلے آ رہے ہیں۔
مقامی لوگ بتلاتے ہیں کہ یہاں ان دنوں میں ایک خوبصورت میلہ بھی لگتا ہے،
جس کو جشن کاکلشٹ کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ہر قسم کے کھیلوں کا مقابلہ
کروایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ کرونا کی وجہ سے دو سالوں سے اس میلے کا
اہتمام نہیں کیا جا رہا، لیکن پابندیوں کے باوجود بھی لوگوں کا اپریل کے
مہینے میں تانا بانا لگا رہتا ہے ۔
الغرض ضلع چترال کے دیگر چھوٹے بڑے شہر، قصبے اور خوبصورت وادیوں میں بونی،
مستوج، گرم چشمہ،دروش،سنوگر، بروز,پرواک، لسپور، بریپ، بروغل اور یارخون
شامل ہیں۔
چترال کی مشہور چترالی ٹوپی اور چترالی چغہ پورے ملک میں پہنا اور پسند کیا
جاتا ہے۔
یہاں کے مقامی لوگ اپنے مہمانوں کو بھی چترالی ٹوپی بطور تحفہ پیش کرتے
ہیں، ثقافت کے رنگ ہر گھر میں واضح نظر آتے ہیں موسیقی کے آلات جن میں
ستار، رباب اور جھرکن اکثر گھروں میں موجود ہوتے ہیں جن کی بدولت مقامی
تہواروں اور خوشی کے دنوں میں چترالی رقص اور موسیقی کی محافل کے رنگ جمائے
جاتے ہیں۔
پہاڑوں پر سارا سال برف رہتی ہے اور سردیوں کا موسم منفی درجہ حرارت کی وجہ
سے بہت سخت سرد ہوتا ہے۔
البتہ کہا جاتا ہے سردیوں میں بھی جن گھروں کے پاس خشک لکڑی اور خشک میوہ
جات کا ذخیرہ وافر مقدارموجود ہو ان کی سردیاں بھی اچھی گزر جاتی ہیں اور
اگر گھر کا دودھ بھی ہو تو یہ سونے پہ سہاگے والی بات ہو جاتی ہے۔چترال کے
لوگ رات کے کھانے کے ساتھ لسی پینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
لیکن سردیوں اور برف باری کے موسم کچھ لوگ یہاں سے ہجرت کر کے پنجاب وغیرہ
کے علاقہ کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔
چترال اپنے موسمی پھلوں کی وجہ سے بھی بہت مقبول ہے جن میں شہتوت، چیری،
خوبانی، انگور، ناشپاتی،آلوچہ اور سیب قابل ذکر ہیں۔
یہاں چاروں طرف پہاڑ ہیں اور درمیان میں دریائے چترال کی روانی ہے۔
یہ علاقہ اور یہاں کے لوگ جدید ترقی یافتہ دور کی آسائشوں سے آج بھی
ناآشنا ہیں لیکن اپنی روایات کے مطابق انتہائی خوش و خرم اوت مطمئن زندگی
گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کی آمدنی کاشت کاری اور سیاحوں کی خدمت پر منحصر
ہوتی ہے ۔اور بہت ہی پرامن زندگی گزارتے ہیں ۔
وادی چترال کی یہ رنگا رنگ ثقافت اسے حقیقی معنوں میں سیاحوں کی دلچسپی کا
مرکز بناتی ہے اور سیاح یہاں آکر اپنے آپ کو ایک نئی دنیا کا باسی محسوس
کرتے ہیں۔ |