چند سال قائم ہونے والی تحریک ِ لبیک پاکستان کی تیسری
بڑی سیاسی جماعت نے عام انتخابات میں25لاکھ سے زائد ووٹ لے کر سب کو حیران
پریشان کردیا تھا اس کا کریڈٹ ایک یہ بھی ہے کہ انتہائی قلیل مدت میں عروج
حاصل کرنے والی واحدجماعت ہے علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی جوشیلی تقریروں
نے ہرخاص و عام میں مقبول بنادیا پھر ان کے جنازے میں شامل ہونے والے شرکاء
کی تعداد نے مخالفین کو چونکاکررکھ دیا تھا بلاشبہ علامہ خادم حسین رضوی کا
جنازہ برصغیر کا سب سے بڑا جنازہ کہاجاسکتاہے اس جماعت کے بانی علامہ خادم
حسین رضوی نے اپنی جدوجہد کا آغاز ممتاز حسین قادری کے پھانسی کے خلاف
تحریک سے کیا پھر تحریک لبیک یارسول اﷲ کو تحریک لبیک پاکستان کے نام پر
ایک سیاسی پارٹی کے طورپر رجسٹرڈ کروایاگیا علامہ خادم حسین رضوی نے اپنی
جوشیلی تقریروں سے پورے پاکستان میں ہلچل مچادی میاں نوازشریف دور میں
ناموس ِ رسالت ﷺ قانون میں ترمیم کے خلاف ایک تاریخی دھرنا دیا جس کے نتیجہ
میں پرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔پھر موجودہ حکومت کے
دوران جب فرانسیسی صدرنے گستاخانہ خاکوں کی سرپرستی کرنے کااعلان کیا تو
علامہ خادم حسین رضوی نے پاکستان سے فرانسیسی سفیرملک بدرکرنے کا حکومت کو
الٹی میٹم دیا حکومت نے مذاکرات کے بعد علامہ خادم حسین رضوی سے ایک معاہدہ
کیا کہ 20 اپریل تک حکومت فرانسیسی سفیرکو نکالنے کی قرارداد پیش کردے گی
اس سے پہلے ہی علامہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے۔تحریک ِ لبیک نے مرحوم کے
صاحبزادے سعدحسین رضوی کونیاامیرچن لیا جس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ
معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 20 اپریل تک حکومت فرانسیسی سفیرکو نکالنے
کی قراردار پارلیمنٹ میں پیش کی جائے ورنہ دما دم مست قلندرہوگا لیکن اس سے
پہلے ہی پولیس نے سعدحسین رضوی کوگرفتارکرلیا جس کے خلاف ملک کے طول و عرض
میں شدید مظاہرے شروع ہوگئے پولیس اور مظاہرین کے درمیان خون ریز تصادم میں
درجنوں افراد ’’شہید‘‘ ہوگئے جن میں نصف درجن پولیس اہلکار بھی شامل ہیں
پھرتحریک نے اس وقت نئی کروٹ لی جب TLPکے مسلح جھتے نے تھانہ نواں کوٹ سے
پولیس افسران کو اہلکاروں سمیت اغواء کرلیا جس کی بازیابی کے لئے فورسزکو
گرینڈ اپریشن کرناپڑا اور کئی روز تک ملتان روڈ لاہورکے علاقے میں گھمسان
کا رن پڑارہا جس کے بعد وفاقی حکومت نے اینٹی ٹیرر ازم ایکٹ 1997ء کے رْول
11 بی کے تحت تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی لگادی ۔ اب سوال یہ پیدا
ہوتاہے کہ TLP پرپابندی لگادی گئی ہے تو پھرکراچی کے ضمنی انتخابات میں اس
کالعدم پارٹی کو کیوں حصہ لینے دیا؟ یہ کیسا معمہ ہے جس کی کسی کو کوئی
سمجھ آئی نہ حکومت نے کسی قسم کی وضاحت کی یہ پابندی ہے یا قانون کی رسوائی
۔ماضی میں بھٹو دورمیں خان عبدالولی خان کی جماعت نیپ کو خلاف ِ قانون
قراردے کر بین کردیا گیا تھا لیکن اس کے لئے بھٹو صاحب نے عدالت میں ریفرنس
داخل کیا تھا موجودہ حکومت نے تحریکِ لبیک بارے فی الحال کچھ فیصلہ نہیں
کیا۔ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے
ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کرتے ہوئے کہاتھا تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل
پی) کے لوگوں نے پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنا شروع کردیا۔ ٹی ایل پی ملک
میں بے امنی پھیلارہی ہے، پاکستان ایسا ملک نہیں کہ ایمبولنس بھی نہ چل سکے
جس سے ظاہرہوتاہے تحریک لبیک کا ایجنڈا کچھ اور ہے، حکومت نے سوچ سمجھ کر
پابندی لگائی ہے، ٹی ایل پی کے بینک اکاؤنٹس منجمند اور اثاثے بھی فریز
کردئیے گئے یہ سب کچھ اس لئے کرنا پڑا کہ تحریک لبیک کے قائدین کو منانے کی
تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، کیونکہ تحریک لبیک کا ایجنڈا تھا کہ ملک کو جام
کیا جائے کیا دنیا میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایمبولنسز پر حملہ کیا جائے
۔شیخ رشید کی باتیں اپنی جگہ پر لیکن قانونی طورپر کسی سیاسی جماعت پر
پابندی صرف عدالت ِ عظمیٰ ہی لگاسکتی ہے۔ ان حالات کے تناظرمیں ملک بھر کے
علماء و مشائخ نے پاکستان میں ہونے والے پْرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے
کہا تھاکہ سرکاری اور عوامی املاک کا جلایا جانا قابل مذمت اور قابل افسوس
ہے۔ مظاہرین کو کسی صورت تشدد کا راستہ نہیں اختیار کرنا چاہیے تھا فریقین
کوبھی چاہیے کہ وہ صرو تحمل اور تدبیر سے کام لے کیونکہ ملک ا ن حالات کا
متحمل نہیں ہوسکتا ۔ کچھ سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ ٹی ایل پی پر پابندی سے
ان کی جماعت کے ارکان ِ اسمبلی کو جماعتی وابستگی ختم کرنا ہوگی جبکہ کچھ
کا خیال تھا کہ پابندی لگنے سے تحریک لبیک کے ارکان ِ اسمبلی خود بخودنااہل
ہوجائیں گے۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا تحریک ِ لبیک نے ضمنی انتخابات میں حصہ
لیا کالعدم ہونے والی جماعت کانام بانگ ِ دہل استعمال کیا اور ہزاروں ووٹ
لے کرثابت کردیا کہ اسے عوام کی بھرپورتائید حاصل ہے سیاسی مبصرین کا خیال
ہے کہ کسی جماعت پر پابندی مسئلہ کا مستقل حل نہیں خلاف ِ قانون قراردے کر
جن جماعتوں پرپابندی لگائی جاتی ہے یا تو ان کی انڈرگراؤنڈ سرگرمیاں شروع
ہوجاتی ہیں یا وہ نئے نام پرپھر خودکو منظم کرلیتی ہیں جس سے وہ پہلے سے
زیادہ خطرناک ہو جاتی ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر
ایمل ولی خان نے ٹی ایل پی پر پابندی کا مذہبی، نظریاتی اور انسانی بنیادوں
پر خیرمقدم کرتے ہوئے کہاتھا پاکستان میں انتہاپسند قوتوں کو ملک کے مستقبل
سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی مذہب کو اپنی ضروریات، مقاصد یا اقتدار
کے حصول کے لئے استعمال کرنا ملکی سالمیت کیلئے نقصان دہ ہے۔ مذہب کو کارڈ
کے طور پر استعمال کرنے والوں کے خلاف اسی طرح سنجیدگی سے کارروائیاں ہوتی
رہیں تو پاکستان جلد گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔ اگر ایسے معاملات سے سنجیدگی
کے ساتھ نمٹا جاتا تو دنیا میں پاکستان کی بدنامی نہ ہوتی ہم عوامی نیشنل
پارٹی قانون، آئین اور پارلیمان کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں دنیا کو
پیغام دینا ہوگا کہ ہم پرامن، انتہاپسندی کے خلاف ایک سیکولر ملک ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو دو ٹوک اور واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان یورپی یونین کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے تیار ہے لیکن توہین رسالت
ﷺ قانون پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جی ایس پی پلس کے
حوالے سے یورپی یونین کے ساتھ معاہدے سے ناموس رسالت قوانین کا کوئی تعلق
نہیں ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے قانون اور
قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے
گاکیونکہ یورپی یونین سے معاہدے میں مذہب کے حوالے سے کوئی شرط طے نہیں کی
گئی تھی۔ اس لئے تمام یورپی یونین کے ممالک سے اس معاملے پر بات کی جائے
گی۔ خوفناک بات یہ ہے کہ اگر جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم ہوگیاتو پاکستان کو
تجارت میں سالانہ3ارب ڈالرکا نقصان ہوسکتاہے کیونکہ مسلمانوں کا موقف ہے کہ
اظہاررائے کی آڑمیں مقدس شخصیات کی توہین کا کسی کوکوئی حق نہیں ہے یورپی
یونین پارلیمنٹ کی ختم نبوت ﷺکے قانون کے حوالے سے قرارداد پاس کرنا تنگ
نظری اور اسلام دشمنی کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ قرارداد ان لوگوں نے پیش
کی جو خود کو انصاف کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ اس حساس معاملے پر پاکستان کی
تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے حکومت کی حمایت کا اعلان کرنا چاہیے۔ یورپی یونین پارلیمنٹ کی
قرارداد کے جواب میں ہماری پارلیمنٹ سے ختم نبوت ﷺکے قانون کے حق میں متفقہ
قرارداد منظور کر کے انہیں بھرپور جواب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے مسلم
کمیونٹی کے لئے یہ ایسا نازک، حساس اور اہم ترین مسئلہ ہے اس پر کوئی سیاست
یا نمبرگیم نہیں ہونی چاہیے۔ حرمت رسول ﷺ اور ختم نبوت ﷺکے معاملے پر پوری
پارلیمنٹ کو متحد ہو کر دنیا کو پیغام دینا چاہیے۔ پاکستان لا الہ الا اﷲ
محمد رسول اﷲ کے نام پر وجودمیں آیا تھا نبی پاک ﷺ کی حرمت پر ہم اپنی
جان،مال اولاد سب کچھ لٹانے کے لئے ہر وقت حاضرہیں تین ارب ڈالر کی کیا
حیثیت ہے۔ تاجدار انبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وا لہ وسلم
کی ختم نبوت اور ناموس کے لئے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے اس لئے یورپی
یونین پارلیمنٹ کو ہماری پارلیمنٹ متحد ہو کر جواب دے اس معاملہ میں تمام
سیاسی جماعتوں کوحکومت کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ناموس رسالت سیاسی مسئلہ
نہیں یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔یہ تحریک لبیک کابھی مسئلہ نہیں ہے ہم سب
کا مسئلہ ہے عمران خان کے واضح اعلان ’’ توہین رسالت ﷺ قانون پر کسی قسم کا
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ‘‘کے بعد TLP قائدین کوپاکستان کی نازک صورت
ِ حال کے تناظرمیں حکمت ِ عملی ،صبرو تحمل اور تدبر سے کام لینا ہوگا تحریک
کے کارکنوں کو بھی اس بات کااحسا س کرنا چاہیے یہ ملک ہم سب کا ہے قومی
اداروں میں جلاؤ گھیراؤ، عوام کی املاک اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنا،قانون
نافذکرنے والی سیکورٹی فورسزپرحملے کوئی دانش مندی نہیں قانون کے دائرے میں
رہ کر احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے لیکن حدسے گذرنا مناسب نہیں ہرمسلمان
کو نبی ٔ آخرالزمان ﷺ کی ناموس وحرمت اپنی جان سے بڑھ کر عزیزہے اس پرکوئی
کمپرومائزنہیں ہوسکتا لیکن احتجاج کی آڑمیں جلاؤ گھیراؤکا کوئی جوازنہیں
نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والا ایسا نہیں کرسکتا اس لئے اپنی صفوں میں سماج
دشمن عناصرکی سرکوبی کرنا بھی آپ پر واجب ہے۔ حکومت کو بھی کھلے دل و دماغ
سے غورکرتے ہوئے تحریک ِ لبیک پر سے پابندی اٹھالینی چاہیے ۔ |