اتر پردیش پنچایت انتخابات کے نتائج کودیکھ کر رام مندر
تحریک کے دوران لگنے والا ایک پرانا نعرہ’یہ تو بس ایک جھانکی ہے کاشی
متھرا باقی ہے‘یاد آگیا۔ اس بار بی جے پی رام کی ایودھیا سمیت کرشن کی
متھرا اور مودی کی کاشی میں بھی ہار گئی ۔ ویسے یوگی کے گورکھپور میں بھی
کمل کی حالت پتلی ہے۔ مودی اور یوگی چلے تو تھے بنگال فتح کرنے لیکن خود
اپنا قلعہ گنوا بیٹھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگال میں ’جئے شری رام‘ تو
دور خود ایودھیا میں ’رام نام ستیہ ہوگیا‘۔ ان شہروں کے رائے دہندگان نے
جہاں فرقہ واریت کا کھیل بڑے بھونڈے پیمانے پر کھیلا گیا تھا ، سماجوادی
پارٹی اور بہوجن سماج کو کامیاب کرکے یہ پیغام دے دیا کہ اب یہ ناٹک بہت
ہوچکا’ کام کرو یا راستہ ناپو‘ ۔ لوگ اب فرقہ وارانہ سیاست سے اوب رہے ہیں
اور تبدیلی چاہتے ہیں۔
پچھلے سال وزیر اعظم نے بڑے طمطراق سے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد
رکھا تھا۔ اس کو ٹیلی ویژن پر اس طرح دکھایا گیا گویا ہندوستان میں رام راج
آگیا ہے اور ہندوتوا کا کمل کھل چکا ہے لیکن پنچایت چناو نے نتائج نے یہ
ظاہر کردیا کہ خود ایودھیا کے لوگوں نے اس خوش فہمی کو دور کردیا ۔ ایودھیا
ضلع میں پنچایت کے ارکان کی تعداد 40 ہے۔ ان میں سے سماج وادی پارٹی نے 24
نشستوں پر جیت حاصل کی ہے جبکہ بی جے پی کو یہاں اس کے ایک چوتھائی یعنی
صرف 6 نشستوں پر قناعت کرنا پڑا ۔ اس سے دوگنا(12) تو آزاد امیدوارجیت گئے
۔ ایودھیا میں بی جے پی کے باغیوں کی تعداد 13 تھی ۔ یہ سنگھ پریوار کے نظم
و ضبط کا وہ نمونہ جس کی دن رات تعریف و توصفج کی جاتی ہے۔ کمل والے
مہابھارت کی روایت کے مطابق آپس میں لڑ کر خود بھی ڈوبے اور پارٹی کا بیڑہ
بھی غرق کردیا۔ ویسے وہ سب ساتھ ہوتے تب بھی بی جے پی ۱۸ سے آگے نہیں بڑھ
پاتی اور اسے ہار کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ۔
رام نگری میں تو خیر کمل کو سائیکل نے کچل دیا مگر کرشن کے شہر متھرا میں
اس کو بہوجن سماج پارٹی کے ہاتھی نے روندا ۔ متھرا نہ صرف کرشن کی جنم
بھومی بلکہ جن سنگھ کے بانی دین دیا اپادھیائے کی کرم بھومی بھی ہے ۔ وہاں
پر بہوجن سماج پارٹی کے 12 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد
چودھری اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی نے 9 نشستوں پر اپنا پرچم لہرایا اور عیدگاہ
کا مسئلہ اچھالنے والی بی جے پی 8 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ مرکزی حکومت نے کسانوں
کو تحریک کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے اس کو
سبق سکھا دیا۔ اتر پردیش میں لکھنو وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا حلقۂ انتخاب
ہے ۔ وہاں پر 25 میں سے بی جے پی کے حصے میں صرف 3سیٹ آئی جبکہ بی ایس پی
کو 4 اور سماجوادی پارٹی 10 مقامات پر کامیابی ملی ۔ دیگر جماعتوں نے 8
مقامات پر کامیابی درج کرائی ۔صوبے کی راجدھانی میں اگر عوام اس قدر ناراض
ہیں تو باقی علاقوں میں ناراضگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ادیتیہ ناتھ
کے گورکھپور میں سب سے زیادہ 21 آزاد امیدوار جیت گئے۔ اس کے بعد بی جے پی
کے 20 اور ایس پی کے 19؍ امیدوار کامیاب ہوے ۔ اسی کے ساتھ بی ایس پی کے 2
؍ امیدوار بھی کامیاب ہوگئے ۔ ان کے علاوہ نشادپارٹی، اپنا دل اور کانگریس
کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں یہ نعرہ لگایا گیا
تھا ’ہر ہر مودی ، گھر گھر مودی ‘ لیکن اس کی بھی قلعی کھل گئی ۔ وزیر اعظم
کے لیے شرم کی بات ہے کہ ان کے ضلع پنچایت کی 40 نشستوں میں ۲۶کے نتائج
ظاہر ہوئے تو اس میں سے بی جے پی کےحصے میںصرف 7نشستیں آئیں۔ اس سے دوگنا
کامیابی یعنی 14 نشستوں پر سماج وادی پارٹی نے قبضہ کیا ۔ بی ایس پی کو
بھی5 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ یہ 2015 کا اعادہ ہے ویسے پچھلے سال ایم ایل
سی انتخاب میں بھی بی جے پی شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا تھا مگر اس نے عبرت
پکڑنے کی زحمت نہیں کی۔ اس شکست کی بنیادی وجہ وزیر اعظم کی اپنے رائے
دہندگان کے تئیں بے حسی ہے۔ جس دن ان انتخابی نتائج کا اعلان ہورہا تھا
وارانسی میں کورونا وائرس سے 1610؍ افراد متاثر ہوئے تھے ۔ اس طرح ضلع میں
موجودہ متاثرہ افرادکی جملہ تعداد 16413 ہوگئی ہے۔ ان لوگوں کا علاج مختلف
اسپتالوں کے علاوہ گھروں پر کیا جا رہا ہے۔ ضلع میں اب متاثرین کی کل تعداد
70386 ہے جس میں سے 53374 شفایاب ہوئے اور 599 کی موت ہوگئی۔ وزیر اعظم
اپنے ان رائے دہندگان کی فکر کرنے کے بجائے مندر بنانے اور الیکشن لڑنے میں
مصروف ہیں اس لیے ان کے تئیں غم و غصہ فطری ہے۔
وارانسی ضلع میں بڑے پیمانے پر لوگ گھروں علاج کرانے پر اس لیے مجبور ہیں
کیونکہ وزیر اعظم اسپتال بنانے کے بجائے مندر بنانے میں مصروف ہیں۔ کورونا
کی وباء کے باوجود 650 مزدور وہاںکاشی وشو ناتھ کوریڈور پروجیکٹ پر دن رات
کام کررہے ہیں اس سال اگر کورونا نے جازات دی تو ممکن ہے 5؍ اگست کو وزیر
اعظم اس کا افتتاح کرکے اپنی ہوا بنا نے کی کوشش کریں۔ عوام کو کورونا سے
بچنے کے لیے احتیاط بتانے کے بجائے وہاں کے قدیم مندروں کی تاریخ بتا کر
بہلانے کا کام زور و شور سے چل رہا ہے۔ 5.3 لاکھ مربع فٹ پر کمپلکس میں ۲۴
عمارتیں بنائی جارہی ہیں۔ یہ در اصل مذہبی کم اور سیاحتی مرکز زیادہ ہے
جہاں مندر کے علاوہ ہوٹل، گیسٹ ہاوس ، میوزیم ، کتب خانہ اور ایک اسپتال
بھی ہے۔ اس پروجکٹ پر 345.27کروڈ رپئے خرچ ہورہے ہیں ۔ اس طرح وہاں سیاحوں
کی چار گنا زیادہ تعداد یعنی 2؍ لوگ جمع ہوکر گنگا کا درشن کرسکیں گے۔ یہ
تو خیر جب ہوگا تب ہوگا لیکن فی الحال مقدس سمجھی جانے والی کاشی میں لاشوں
کو جلانے کے لیے شمشان گھاٹ کم پڑ رہے ہیں اور لوگوں کو کورونا سے مرنے
والوں کو جلانے کی خاطر دور دراز کے مقامات پر جانا پڑ رہا ہے ۔ اس سے عوام
ناراض نہیں تو کیا خوش ہوں گے؟
اتر پردیش میں ضلع پنچایت کے کل 3050 عہدوں میں 3047 کے نتائج اس طرح سے
ہیں کہ بی جے پی کو ان میں سے صرف 768 پر کامیابی ملی اور سماجوادی پارٹی
بھی اس کے بالکل قریب یعنی 759 پر ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی نے 319 اور
کانگریس نے 125 نشستوں پر کامیابی درج کرائی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب
سے زیادہ یعنی 1071 مقامات پر آزاد امیدوار کامیاب ہوے ہیں ۔ صوبے کی عوام
کا غصہ زیادہ تر ان بڑے رہنماوں کے خلاف ہے جہاں بی جے پی نے اپنی پوری
طاقت جھونک دی تھی اس لیے رائے دہندگان نے اسے دھتکار دیا مگر جن علاقوں کو
بی جے پی نے نظر انداز کردیا وہاں کے لوگ اب بھی بی جے پی کے چنگل میں
پھنسے ہوئے ہیں ۔ اس سے یہ بھی پہا چلتا ہے کہ بی جے پی رہنماوں کی تشہیر
الٹا اثر ڈال رہی ہے اور لوگ قریب آنے کے بجائے دور جارہے ہیں ۔ اترپردیش
میں پنچایت انتخابات کو آٹھ ماہ بعدمنعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات کا
سیمی فائنل قرار دیا جا رہا تھا۔ ان نتائج میں بی جے پی ۲۵ فیصد پر سمٹ
جانا اس کے لیے خطرے گھنٹی اور عوام کے لیے باعثِ سکون ہے۔ مودی جی مجسمہ
لگانے کے بجائے آکسیجن پلانٹ اور مندر کی جگہ اسپتال بناتے تو یہ حالت نہ
ہوتی ۔ ویسے یوگی اور مودی کے لیے میر تقی میر کا اس شعر میں دلاسہ ہے کہ ؎
راہِ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا |