بالآ خر ایوان کی راہداریوں کی چہ مہ گوئیاں ختم ہوئیں ‘
کالعدم تحریک لبیک اور تحریک انصاف میں وقتی اور مصلحتی مذاکرات ہوگئے
‘نتائج نیتوں اور حالات پر منحصر ہیں البتہ ایوان کے جذبہ ایمانی کا امتحان
شروع ہوچکا ہے اور دوسری طرف ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے قائد حزب اختلاف
شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت پر رہا کر دیا ہے ۔اس
رہائی کو اپوزیشن حق اور سچ کی فتح قرار دے رہی ہے اور تبدیلی سرکار نیب کو
حرف تنقید بنا رہی ہے اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو حکومت کا بیانیہ
’’میں کسی کو نہیں چھوڑونگا ‘‘ بری طرح پٹ چکا ہے تقریباً ہرالزام ٹائیں
ٹائیں فش ہوچکاہے تبھی تو اس مرتبہ حکومتی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے بھی
لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ ثابت ہوچکا ہے کہ نیب خود مختار ادارہ
تھا جس نے کمزور ریفرنسس بنائے، تحقیقات بھی نہیں کی گئیں اور کمزور دلائل
اور ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مبینہ
طور پر جن لوگوں کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا ان کے خلاف شواہد
کب آتے ہیں جس سے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا کہ دونوں فریقین میں سے اصل
کرپٹ اور جھوٹا کون ہے!
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خان صاحب متنازع رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یا
تووہ خود انصاف سے کام نہیں لے رہے یا ان کے ادارے انصاف سے کام نہیں لے
رہے یہی دیکھ لیں کہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر اتحاد ،کسان ،لیڈی
ڈاکٹر،حکومتی ملازمین، سکول ٹیچرز یا کوئی بھی سیاسی یاجماعتی ہو جو بھی
اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے پہلے کوئی سنتا نہیں ہے پھر جب میڈیااس
معاملے کو اٹھاتا ہے تو اس پر ریاستی طاقت کا کھل کر مظاہرہ کیا جاتا ہے
بعد ازاں یوٹرن کے نام پر ڈور ڈھیلی چھوڑ کر پھر ایک ہی جھٹکے میں آواز
بلند کرنے والوں کوثبوتاژ کر تے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے تھوپ دیے جاتے اور
اپوزیشن دیکھتی رہ جاتی ہے اور اپوزیشن ہے کہ ہر وقت منفی کاروائیوں میں
رہنے کی عادی بن چکی ہے اسی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مافیاز
ہمہ وقت بلیک میلنگ میں لگے ہوئے ہیں جس کاکھلا ثبوت یہ ہے کہ خان صاحب نے
کہا تھا کہ وہ ماہ مقدس میں خود مانیٹرنگ کریں گے مگر حالات اس کے برعکس
ہیں کہ اشیائے خوردونوش اورعام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ
سے دور ہو چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے رمضان المبارک میں
قیمتیں کنٹرول کرنے اورلمبی قطاروں کو ختم کرنے کے لیے صوبائی سیکرٹریز کو
28 اپریل تک مہلت دے دی ہے اور کہا ہے کہ شناختی کارڈ مانگنا بنیادی حقوق
کی خلاف ورزی ہے ،لمبی لمبی قطاروں کو ختم کیا جائے کیونکہ اسطرح عوام کو
بھکاری بنایا جا رہا ہے لہذا بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے ۔حکمت عملی کا
تو پتہ نہیں البتہ وزیراعظم کا بیان بھی نظر سے گزرا ہے کہ قوم وسائل کی
کمی نہیں بلکہ قانون کی بالا دستی نہ ہونے سے غریب ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا
ہے کہ وہ عدل و انصاف کے اداروں سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے اگر عدالتیں انصاف کر رہی ہوں تو بد امنی اوربد معاشی کے
حالات بدستور قائم نہیں رہ سکتے کہیں نہ کہیں نمایاں طور پر دو عملیاں ضرور
ہیں۔
ہم سوچ رہے ہیں کہ اس بے حسی کا خمیازہ تو عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جبکہ
کہنے اور لوٹنے والوں کی پانچوں گھی میں رہتی ہیں لیکن حقائق سے کہاں تک
پہلو تہی کریں کہ موت کی دستکیں کہہ رہی ہیں کہ غلطی کی گنجائش نہیں ہے
جبکہ ہمارے اقدامات گذشتہ برس کی طرح پھرسوالیہ نشان ہیں ۔میڈیا مسلسل چیخ
رہا ہے کہ کورونا کیوجہ سے کیسزز اور اموات بڑھتی جا رہی ہیں، ہسپتالوں میں
بیڈ کم پڑ گئے ہیں ، وینٹی لیٹر نہ ملنے سے لوگ مر رہے ہیں لیکن مسیحائی کا
یہ عالم ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی خریداری کو بند کر دیا گیا ، اینٹی
بائیوٹک اور دیگر قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے
کے برابر ہے ،ویکسین شارٹ ہے اور لیبارٹریز مہنگے داموں لگا رہی ہیں یعنی
علاج کو غریب کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے ۔کیا حالیہ وبائی ایام میں مہذب
اقوام کا یہی وطیرہ ہے جو اس وقت ہمارا ہے ؟ ٹائیگر فورس کہاں ہے جس کے
لباس اور دیگر لوازمات پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تھے ؟ ادویات
بلیک میں فروخت کرنے والے مافیاز کو کھلی چھوٹ کیوں حاصل ہے ؟ حکومت جان
بچانے والی ادویات کی خریداری پر پابندی کیوں لگا رہی ہے ؟
سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ عوامی مسائل کو کس نے اجاگر کرنا ہے‘ تقریباً
ڈھائی سال کا عرصہ گزر گیا ہے آج تک پارلیمان نے دھینگا مشتی اور گالی گلوچ
کے سوا کیا کیا ہے بلکہ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اگر جذبات میں آکر سپیکر
کو جوتا مارنے کی دھمکی کوئی دے بیٹھے تو معذرت کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے
اور چئیرمین شپ اس حد تک کمزور ہے کہ کوئی مناسب اقدام کرنے کی بجائے معافی
جیب میں لئے پھرتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ فوجداری عدالتیں بھی یہی سوچ لیکر
عدالتوں میں کام کریں درحقیقت باشعور عوام کو الجھا کر یہی پارلیمان بعض
اہم اورنہایت ضروری باتوں پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جیسا کہ
بچوں کی نصابی کتابوں سے سوائے اسلامیات کے باقی ہرمضمون سے سیرت النبی
ؐاور مشاہیر اسلام کی زندگیوں کو ختم کر دینا ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ
جو ناقابل معافی ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں یہاں پر اقلیتوں کے حقوق
بھی محفوظ ہیں مگر یہ سیکولر سٹیٹ نہیں بلکہ ایسی سٹیٹ ہے جو اسلام کے نام
پر قائم ہوئی ہے اور اس میں اسلامی زندگی اور اسلامی نظریات کو افضل ترین
گردانتے ہوئے اعلیٰ پاکیزہ عظیم ہستیوں کی زندگیوں کو بطور بہترین مثالی
زندگی کے پیش کرنا اشد ضروری ہے اور مذکورہ ابواب کو حذف کرنے کا اصل مقصد
ہی عوام کو مثالی زندگیوں کو بطور نمونہ اختیار کرنے سے محروم کرناہے۔سچ تو
یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے مابین جتنے تنازعات ہیں وہ خواہ مذہبی ،سماجی
،معاشی یا اخلاقی ہوں ان سب کے بیج پارلیمان کے ممبران ہی بوتے ہیں کیونکہ
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں حق و باطل کو مسخ کیا جا رہاہے تبھی
تو عوام بھی آئے روز ہر نام نہاد مسیحا کی آواز پر لبیک کہتے نظر آتے ہیں
کہ شاید
’’ ابن مریم ہوا کرے کوئی ۔۔میرے درد کی دوا کرے کوئی ‘‘
یہ الگ بات کہ سیاسی مفاد پرست جانیں لٹانے والوں کو فراموش کر دیتے ہیں
اور اندر کھاتے سب طے کر لیتے ہیں تبھی تو مذکورہ حالات میں اپنوں کے لاشے
اٹھاتے ، مہنگائی اور ادویات کی کمی سے اپنے پیاروں کو سسکتے دیکھ کر عوام
جس بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں وہ کچھ ایسا تاثر ہے کہ وہ نظریں جھکائے کہہ
رہے ہوں !
لوٹ لیا حالات نے ہم کو۔۔ تیرا جہاں آباد رہے ۔لیکن یاد رہے کہ مظلوموں کی
بے آواز آہیں رائیگاں نہیں جاتیں
|