حکومت چلانا سیاستدانوں کا کام ہے لیکن اگر وہ اپنے فرض
منصبی سے منہ چرا کر دن رات انتخابی عمل میں غرق ہوجائیں تو بہ حالت مجبوری
عدلیہ کو میدان میں آنا پڑتا ہے۔ اس بابت فی الحال اتر پردیش کی غیر ذمہ
دار صوبائی سرکار کے برعکس الہ باد ہائی کورٹ نہایت چاک و چوبند ہے۔ لکھنؤ
اور مر ٹھ مںش آکسجنم کی کمی کی وجہ سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ہلاکت پر
خبروں کے سلسلے میںکووڈ 19 کے پھیلاؤ اورقرنطینہ مراکز کی حالت سے متعلق
مفاد عامہ کی ایک درخواست پر جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس اجیت کمار نے کہا
کہ یہ مشاہدہ ہمارے لیے تکلفا دہ ہے کہ اسپتالوں مںا آکسجنف کی عدم فراہمی
کی وجہ سے کووڈ مریضوں کی موت ہورہی ہے ۔ یہ مجرمانہ فعل ان لوگوں کے ذریعہ
نسل کشی سے کم نہں جن کو آکسجنں کی مسلسل خریداری اور فراہمی کاکام سونپا
گاڈ ہے ۔ عدالت نے انگریزی لفظ ’genocide‘ استعمال کیا ہے جس کا مطلب کسی
قوم ، مذہب، یا نسل کے لوگوں کا عمداً قتل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس
قتل عام کا ارتکاب کون کررہا ہے؟ اس کا اشارہ اگر حکومت کی طرف ہے تو وہ کس
کا قتل کررہی ہےاور کیوں ؟
اتر پردیش کے کئی شہروں مںر جس وقت کورونا کی دوسری لہر نے تباہی مچارکھی
تھی تو اس سے بے نیازیوگی انتظامیہ پنچایت چناو کرانے میں مصروف تھا ۔ اس
وقت عدلیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے قدم بڑھایا ۔ اپریل 14, 2021
کوالٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کییوگی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ
زیادہ متاثر شہروں مںا دو یا تنا ہفتے کے لےا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر
غور کرے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ سڑک پر کوئی بھی شخص بغرک ماسک کے
دکھائی نہ دے، ورنہ عدالت پولس کے خلاف حکم عدولی کی کارروائی کرے گی۔کورٹ
نے سماجی و مذہبی تقریبات مںر 50 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی
عائد کردی اوریو پی حکومت کو شہروں مں کھلے مدٹان لے کر عارضی اسپتال بنانے
اور کورونا متاثرین کے علاج کا انتظام کرنے کی ہدایت دی ۔ ہائی کورٹ نے
حسبِ ضرورت کانٹریکٹ پر اسٹاف تعناکت کرنے کا حکم بھی دیا۔ عدالت کےنزدیک
رات کا کرفو ناکافی تھا ۔ اس نے کہا کہ زندگی رہے گی تو معشتو بھی ٹھک ہو
جائے گا۔ ترقی لوگوں کے لےح ہے، جب آدمی ہی نہںف رہے گا تو ترقی بے معنیٰ
ہوجائے گی ۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ سمتھ پانچ اضلاع مںا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے
کی اس دردمندانہ اپیل کو شکریہ کے ساتھ قبول کرنے کے بجائے ناعاقبت اندیش
ریاستی حکومت نے اسے سپریم کورٹ مںل چلنج کردیا ۔ مرکزی حکومت نے یوگی کی
حمایت میں اپنے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کو میدان میں اتاردیا ۔ مہتا نے
پیروی کے دوران کہا کہ ریاستی حکومت نے بہت سارے اقدامات کیے ہںج ۔ ہائی
کورٹ کے ذریعہ لاک ڈاؤن کا فصلہ درست نہں ہے۔ اس مںہ ریاست کے جائزہ کو
نظرانداز کا گااہے۔اس سے انتظامہا کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔چفا
جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہودالی بنچ نے حسبِ توقع ہائی کورٹ کے حکم معلق
کردیا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں پانچ سب سے متاثرہ شہر پریاگراج ، لکھنؤ
، وارانسی ، کانپور اور گورکھپور مںں لاک ڈاؤن لگا ئے جانے کی عدالتی سفارش
نہایت معقول نظر آتی ہے ۔ اس پر عمل ہوتا تو آج ایسی بری حالت نہ ہوتی
جبکہ عدالت نے واضح کا تھا کہ وہ ریاست مںا مکمل لاک ڈاؤن مسلط نہں کررہی
ہے۔ وہ چاہتی ہے لوگوں کو ایک ہفتہ کے لئے گھروں میں روکا جائے تاکہ کورونا
کے پھیلاو کا سلسلہ ٹوٹے اور اس کی وجہ سے فرنٹ لائن کے ہلتھ ورکرس کو کچھ
راحت ملے۔
یوگی حکومت پر چونکہ پنچایت الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا اس لیے اس نے
29؍ اپریل تک کورونا کو بے روک ٹوک پھیلنے دیا مگر آخری مرحلہ میں ووٹ پڑ
جانے کے بعد جب حالت مکمل طور پر بے قابو ہوگئی تو ویکینڈ لاک ڈاؤن میں
ایک دن کااضافہ کر دیا۔ یعنی اب ریاست مںٹ جمعہ کی شام 8 بجے سے پیر کے
بجائے منگل کی صبح سات بجے تک بندی رہے گی۔ اس تبدیلی کے لیے ایک روز قبل
عدالت عالیہ کی سخت پھٹکار بھی ذمہ دار ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’صاحب
اقتدار ’ مرحا قاعدہ مانو، ورنہ کوئی قاعدہ نہںد‘والارویہ ترک کرے۔ کاش کہ
سرکار کو پہلے ہوش آتا اوروہ سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر عوامی فلاح و
بہبود میں انتخاب ملتوی کرتی لیکن جو اقتدار کے نشے میں چور ہو اور جسے
الیکشن اور اس میں کامیابی کے سوا کچھ سجھائی اس سے کسی دانشمندی کی توقع
کرنا خود فریبی ہے۔ ان خود غرض سیاستدانوں کی حالت کو کسی شاعر نے کیا خوب
بیان کیا ہے؎
موت سستی ہے ووٹ مہنگا ہے، مرنے والوں کی کوئی فکر نہیں
اپنے نام و نمود کی خاطر، جلتی لاشوں کا کوئی ذکر نہیں
اس انتخاب نے اور بھی کئی مسائل پیدا کیے ان میں سے ایک یہ ہے شہروں سے
لوگوں نے بڑے پیمانے پر گاوں کا رخ کیا۔ پچھلے سال ان لوگوں کو جن اسکولوں
اور پنچایت گھروں میں قرنطینہ کیا جاتا تھا وہ فی الحال الیکشن کے مراکز
تھے ۔ اس لیے یہ لوگ بغیر جانچ کے گھروں میں چلے گئے ۔ اب وہ نہ صرف دوسروں
کو بیمار کررہے ہیں بلکہ بہت جلد بیماری کے ساتھ واپس بڑے شہروں میں لوٹ کر
وباء کے پھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے جو تباہی آئے گی اس کا اندازہ
کرنا مشکل ہے۔ اس بیچ اتر پردیش کے ایک بڑے ہندی روزنامہ امر اُجالا نےیہ
انکشاف کیا کہ پنچایت انتخابات کے دوران 577 بسک ٹچراوں کی موت واقع ہو چکی
ہے۔ یہ دعویاساتذہ کی ریاستی تنطیمکے حوالے سے کاہگیا۔ راجہ شکشک سنگھٹن نے
باقائدہ ہر ضلع میں ہلاک ہونے والے اساتذہ یا ان کے نائبین کی اعداد پیش
کردئیے ۔ یہ تو خیر مہلوکین کی تعداد ہے لیکن اس کے ساتھ مختلف بڑے شہروں
میں 1000 اور 1200 تک اساتذہ کے کورونا سے متاثر ہونے کی خبر بھی متعدد
اخبارات میں چھپی۔
اس دوران 135 پولنگ افسران کے اترپردیش میں انتخابڈییوٹی پر مبنہا طور پر
کورونا وائرس کی وجہ سے دم توڑ نے کی خبر بھی آگئی ۔ یہ واٹس ایپ
یونیورسٹی افواہیں نہیں بلکہ آج تک نامی معتبر چینل پر شائع ہونے والی خبر
ہے۔ موجودہ جبرو استبداد کے دور میں سرکار کے خلاف ایسی خبر شائع کرنے کی
جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔پنچایت انتخاب کے حوالے سے اس خبر پر اپریل 28 کو
الہ آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر مقدمہ درج کرلیا اوردورانِ انتخاب
135 پولنگ افسران کی ہلاکت پر ریاستی الکشنے کمیشنسےجواب طلب کا ۔ عدالتِ
عالیہ نے الکشنن کمشنک سے پوچھا کہ وہ انتخابات کے دوران کوویڈکے تعلق سے
رہنما خطوط کی عدم تعملا کو جانچنے مںز کیوں ناکام رہا؟حیرت کی بات یہ ہے
مذکورہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ شکشک مہا سنگھ کے صدر دنش چندر شرما کے مطابق
کئی اضلاع سے ابھی معلومات آنا باقی ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہوتا ہے کہ
مزید اضافہ کی توقع ہے۔ شرما نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 12 اپریل کو انہوں نے
انتخابات ٹالنے کے لئے کہا تھا لکنل ان کی اپل کو نظر انداز کر دیا گا ۔
یہ عجیب خود سری ہے کہ میدانِ عمل میں کام کرنے والے اساتذہ کی درخواست کو
ٹھکرا دیا جاتا ہے ۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کو چیلنج کیا جاتا ہے مگر انتخاب
ملتوی نہیں کرائے جاتے۔ اس دوران اترپردیش کے انتظامیہ نے جس سفاکی کا
مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک نائب ٹیچر کو جسے شکشا متر کہا جاتا
ہے ڈیوٹی پر اپنی والدہ کے انتقال کی خبر ملی تو اس نے چھٹی کی درخواست دی
۔ اسے مسترد کردیا گیا اور وہ اپنی والدہ کے جنازے میں شرکت نہیں کرسکا۔ 37
حاملہ خواتین کی شکایت ملی ہے جن سے زبردستی ڈیوٹی کرائی گئی۔ ان میں سے
ایک کے رحم میں جڑواں بچے تھے اور کورونا سے متاثر ہو کر ہلاک ہوگئی۔ ایک
تو بیچاری نویں مہینے میں تھی ۔ اس پر بھی رحم نہیں آیا اور اس کا بھی
انتقال ہوگیا ۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا؟ ان میں سے نہ جانے کتنوں نے
گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ اس کا انہیں کیا صلہ ملا؟ اب تو
انتخاب میں کامیاب ہونے والے کئی لوگوں کے کورونا سے متاثر ہوکر مرنے کی
خبریں بھی آرہی ہیں ۔ سوال پھر وہی ہے کہ آخر اس قتل عام کا ذمہ دار کون
ہے؟ وزیر اعلیٰ خود تو قرنطینہ میں مقید کرلیتے ہیں اور عوام کو موت کے منہ
میں جھونک دیتے ہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ایسا تو تاریخ کے کسی سفاک ترین
حکمراں نے بھی نہیں کیا۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اس خبر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے
ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’یوپی پنچایت انتخابات مںی ڈیوٹی مںا مصروف تقریباً 500
اساتذہ کی ہلاکت کی خبر افسوسناک اور خوفناک ہے۔ جب انتخابی ڈیوٹی کرنے
والوں کی سکوورٹی کے انتظامات ناقص تھے، تو پھر انہںب کوںں بھجا گاک؟ مںو
تمام اساتذہ کے اہل خانہ کو 50 لاکھ روپے معاوضہ اور متاثرہ اساتذہ کے گھر
والوں کا ملازمت کے مطالبے کی بھر پور حمایت کرتی ہوں‘۔ یہ کوئی انوکھا
مطالبہ نہیں ہے کیونکہ بہار اور راجستھان میں حکومت نے الیکشن ڈیوٹی پر
مرنے والوں کو تیس لاکھ روپئے دئیے تھے ۔ خیر حزب اختلاف نے تو اس پر فکر
مندی کا اظہار کیا مگر اقتدار کے ایوانوں میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔
مہاراشٹر کے اندر کسی اسپتال میں حادثہ رونما ہوجائے تو وزیر صحت سے
استعفیٰ مانگا جاتا ہے لیکن اترپردیش کے خونخوار وزراء سے سوال نہیں کیا
جاتا؟
وزیر اعلیٰ یوگی سے بعید نہیں کہ وہ اساتذہ یونین کے صدر دنیش چندر شرما کو
قومی تحفظ ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیں اور اعلان فرمادیں کہ یہ
ان کی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے مگر خود اپنے رکن اسمبلی کے بیٹے
وشال گنگوار کا کیا کریں گے جس نے اپنے والد کی موت کے لیے ریاستی سرکار کی
کوتاہی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔پچھلے دنوں برییک کے نواب گنج اسمبلی حلقہ سے
دبنگ بی جے پی رکن اسمبلی کسرا سنگھ گنگوار کا کورونا سےانتقال ہو گاو۔
کسری سنگھ جب بما ر تھے تو انہوں نے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو
اپنی حالت بتاتے ہوئے درخواست کی تھی کہ ان کو دہلی کے مکس اسپتال مں ایک
بڈر دلا دیا جائے کوپنکہ انہیں پلازما تھرتپی کی ضرورت ہے۔ لکنک مرکز سے
کوئی مدد نہںھ ملی۔ اس سے نالاں آنجہانی کے بٹے وشال گنگوار نے فیس بک
پرلکھا کہ ’’کاطییں ہے اتر پردیش حکومت جواپنے ہی رکن اسمبلی کا علاج نہںم
کرا پا رہی ہے۔ مںج نے کئی مرتبہ وزیر اعلی کےدفتر کو فون کاں، مگر مجال ہے
جو کوئی فون اٹھالے، دھنّیہ ہے یو پی سرکار، دھنّیہ ہںں مودی جی۔‘‘ یوگی
اور مودی کو اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لینا چاہیے۔
|