انتخا بی اصلاحات کا معاملہ ایک مرتبہ پھر خبروں کی
زینت بنا ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے دو آرڈیننس منظور کئے ہیں،
تاکہ آئندہ انتخابات الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروائے جا سکیں اور
بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹنگ کی سہولت مہیا کی جا سکے۔ انتخابی اصلاحات
پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ پر ایک نگاہ
ڈالی جائے۔ اسے بدقسمتی ہی کہیے کہ ہماری جمہوری اور انتخابی تاریخ اچھی
نہیں ہے۔ پاکستان کا انتخابی عمل ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ نہ صرف متنازعہ
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ملکی مسائل اور قومی سانحات اس کے بطن سے
پھوٹے ہیں۔ ہمارے ہاں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے براہ راست انتخابات
1970 میں ہوئے۔ یعنی قیام پاکستان کے چوبیس برس بعد عوام سے پوچھا گیا کہ
وہ اقتدار کسے سونپنا چاہتے ہیں۔ یہ انتخابات جنرل یحیی خان کے دور میں
ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی تاریخ کے منصفانہ اور شفاف ترین انتخابات تھے۔
انتخابی عمل مداخلت سے پاک تھا۔ نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ شیخ مجیب
الرحمن کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اصولی طور پر عوام کی رائے کا احترام
ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کے
بجائے، بنگالیوں کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ اس سب کا یہ
نکلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ کم و بیش نوے ہزار
فوجیوں کو بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔دنیا بھر میں ہمیں ذلت و رسوائی
کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد بچے کھچے پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی۔ ملک
کچھ آگے بڑھا۔ ایک متفقہ آئین منظور ہوا۔ایٹمی پروگرام کی بنیاد پڑی۔1977
میں دوسرے عام انتخابات ہوئے۔ اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل اتحاد
پی۔این۔اے نے دھاندلی کا شور بلند کرتے ہوئے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر
دیا۔ ان انتخابات کے بطن سے نظام مصطفی کی تحریک پھوٹی۔ ملک بھر میں
اپوزیشن کا احتجاج شروع ہو گیا۔ حا لات اس نہج پر جا پہنچے کہ ذولفقار علی
بھٹو کو کراچی، حیدر آباد اور لاہور میں مارشل لاء نا فذ کرنا پڑا۔ حکومت
اپویشن مذاکرات شروع ہوئے ۔ لیکن اس سے قبل کہ کسی منطقی انجام تک پہنچتے،
جنرل ضیاء نے شب خون مارا اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔ فوجی آمر نے وعدہ کیا
کہ وہ نوے دن کے اندر اندر انتخابات کروانے کے بعد اقتدار عوام کے منتخب
نمائندوں کے حوالے کر دے گا۔ یہ نوے دن بڑھتے بڑھتے گیا رہ طویل برسوں پر
محیط ہو گئے۔بالاخر ایک طیارہ حادثے کے نتیجے میں جنرل ضیا رخصت ہوئے۔ایک
مرتبہ پھر 1988 میں انتخابات منعقد ہوئے اور بینظیر بھٹو برسر اقتدار
آگئیں۔لیکن ڈیڑھ برس کے بعد ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد
1990 میں انتخابات ہوئے اور نوا زشریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اڑھائی برس کے
بعد انہیں بھی گھر جانا پڑا۔ اگلے انتخابات میں محترمہ وزیر اعظم بنیں۔
لیکن تین سال بعد پھر سے رخصت کردی گئیں۔ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی حکومت
قائم ہوئی، مگر 1999 میں جنرل مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور
اقتدار پر قابض ہوگئے۔ مشرف بھی طویل عرصہ تک اس ملک کے سیاہ اور سفید کے
مالک بنے رہے۔
2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک انتخابی ریلی میں دہشت گردی کا شکار ہو
کر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ 2008 میں انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی
کی حکومت قائم ہوگئی ۔ یہ پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے پانچ سالہ مدت
اقتدار مکمل کیا۔ لیکن ا س دوران اس کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک
عدالتی فیصلے کے نتیجے میں رخصت ہونا پڑا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) بر سر
اقتدار آئی۔اس نے پانچ سال پورے تو کئے مگر کچھ اس طور کہ اس کے وزیر اعظم
نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر حکومت سے بے دخل کر دیا گیا۔ 2018 میں ملکی
تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں جو کچھ ہوا ،
اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ مختصر یہ کہ پہلے
انتخابات کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ دوسرے انتخابات کے بعد ایٹمی پروگرام
کی بنیاد رکھنے والا وزیر اعظم پھانسی لگا اور ملک میں گیارہ برس کیلئے
مارشل لاء مسلط ہو گیا۔ اس کے بعد جو انتخابات ہوئے ، ان میں مداخلت اور
دھاندلی کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اس افسوسناک جمہوری اور انتخابی تاریخ
کو دیکھیں تو واقعتا انتخابی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مگر یہ
اصلاحات پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہونی چاہییں۔ راتوں
رات آرڈیننس جاری کر دینا اس مرض کا علاج نہیں ہے۔
آج کل جو انتخابی اصلاحات زیر بحث ہیں، ان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو
تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر
الیکٹرانک مشینیں استعمال ہو ں گی تو ہر نوع کی دھاندلی کا راستہ بند ہو
جائے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اس قدر قابل
اعتبار ہوتیں تو برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک انہیں استعمال کے
بعد ترک نہ کر چکے ہوتے۔ دنیا بھر میں الیکڑانک مشینوں کے قابل بھروسہ ہونے
کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ماضی
قریب میں اس نظام کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ یوں بھی
مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک مثال آر۔ ٹی۔ ایس سسٹم ہے۔
2018 میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
ہوا۔کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والا یہ نظام نتائج کی ترسیل کے عین وقت
بیٹھ گیا تھا۔ بعض نتائج تو 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سامنے نہیں آ سکے
تھے۔ ہمارے دانشور اور مبصرین اپنی گفتگو میں ہمیشہ 1970 کے انتخابات کی
شفافیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ خود عمران خان نے کچھ دن پہلے اپنی گفتگو میں ان
انتخابات کی شفافیت کا تذکرہ کیا۔ الیکٹرانک مشینیں تو دور کی بات ، اس
زمانے میں شناختی کارڈ تک کا تصور نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ انتخابات شفاف
طریقے سے منعقد ہوئے۔ اس کی وجہ یہ کہ ان انتخابات میں مداخلت نہیں ہوئی
تھی۔ مطلب یہ کہ جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بھی صاف شفاف انتخا بات ہو سکتے
ہیں۔ بالکل اسی طرح جدید ٹیکنالوجی بھی عین وقت پر معاملات کے بگاڑ میں حصہ
ڈال سکتی ہے۔ جیسا کہ آر ۔ٹی۔ایس کے معاملے میں ہوا۔
جہاں تک انتخابی اصلاحات کا تعلق ہے تو گزشتہ حکومت میں 2014 میں ایک 35
رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی تھی۔ تمام جماعتوں کے نمائندے اس میں شامل
تھے۔ اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم یہ کمیٹی اڑھائی برس تک کام کرتی رہی۔
اس کے 129 مشاورتی اجلاس ہوئے۔ ہر جماعت کی طرف سے تجاویز آئیں۔ خود تحریک
انصاف کے نمائندوں نے اس میں عمدہ تجاویز دی تھیں۔ ان تجاویز کی روشنی میں
ایک جامع الیکشن بل قومی اسمبلی اورسینٹ میں پیش ہوا۔ باقاعدہ بحث کے بعد
الیکشن ایکٹ 2017 جاری ہوا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد کہا جاتا تھا کہ
ہمارے الیکشن کمیشن کے اختیارات ، بھارت کے الیکشن کمیشن سے بھی زیادہ ہو
گئے ہیں۔ان اصلاحا ت بعد انتخابی عمل میں بہتری تو آئی لیکن دھاندلی کا
راستہ نہیں روکا جا سکا۔ انتخابات کی ساکھ بہتر نہیں بنائی جا سکی۔ 2018
میں انتخا بات ہوئے تو کہیں آر۔ٹی۔ایس بیٹھ گیا۔ کہیں فارم 45 غائب ہو
گئے۔کہیں انتخابی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اور نجانے کیا کیا قصے سامنے
آئے۔
بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ضروری ہے کہ
وہ ٹیکنالوجی مفید اور قابل بھروسہ ہو۔پھر یہ بھی لازم ہے کہ کوئی بھی نیا
نظام متعارف کروانا ہے تو اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور رضامندی
شامل ہونی چاہیے۔ مشینوں کے استعمال کی بحث سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ
ہمارے مسائل کی جڑ کچھ اور ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کھلے
الفاظ میں اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔دونوں سیاسی راہنما انتخابی عمل کو
مداخلت سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔اگرپاکستان کا جمہوری اور
انتخابی نظام بہتر کرنا مقصود ہے ، اگر اس ستر سالہ مرض کا علاج درکار ہے،
تو انکی باتوں پر غور کرنا ہو گا۔ وگرنہ غریب عوام کے ٹیکس کے کروڑوں اربوں
روپے خرچ کر کے مشینیں خرید بھی لیں تو وہ بیچاری مشینیں کیا کر لیں گی؟ |