رمضان المبارک میں جس طرح دنیا بھر کے اہل ایمان حرمین
شریفین کی زیارت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں اسی طرح فلسطین کے
مسلمان قبل اول میں نماز جمعہ اور اعتکاف وغیرہ کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس
سال آخری عشرے کی ابتدا میں ممتاز فلسطینی عالم دین اور مسجد اقصیٰکے
امام الشیخ عکرمہ صبری نے مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کا سلسلہ جاری رکھنے اور
لیلۃ القدر کےاہتمام کی ترغیب دی ۔الشیخ عکرمہ صبری نے۴ؑ؍مئی کو خبردار کیا
تھا کہ یہودی انتہا پسندوںکے لیے مسجد اقصیٰ کو کھولنے اور 28؍ رمضان
المبارک کو یہودیوں کے قبلہ اول میں داخلے کی خاطر انتظامات کرنے کے سنگین
نتائج نکلیں گے۔ اس اعلان کی وجہ یہ تھی کہ یہودی انتہا پسند 'متحدہ القدس'
کے دن کی آڑ میں مسجد اقصٰی کے اندر گھس کر تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی
رسومات ادا کرکے مقام ِ مقدس میں مذہبی اشتعال انگیزی کا ارادہ ظاہر کرچکے
تھے۔ الشیخ عکرمہ صبری نے واضح کیا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور القدس میں ہر قسم
کی مذہبی غنڈہ گردی کے نتائج کا ذمہ دار اسرائیل ہوگا۔
الشیخ صبری نے 28 ؍رمضان المبارک کو یہودی آباد کاروں کے دراندازی کو روکنے
کے لیے اس روز بڑی تعداد میں قبلہ اول کے دفاع کی خاطر مسجد اقصیٰ میں
موجود رہنے کی تلقین کی تھی ۔جمعتہ الوداع کو یوم القدس کے موقع پر اس دعوت
پر لبیک کہتے ہوئے تمام تر پابندیوں کو پامال کرکے 70؍ہزار سے زیادہ جانباز
فرزندانِ توحید قبلۂ اول میں جمع ہوئے ۔ اس موقع پر مسجد اقصیٰ میں
اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینی روزہ داروں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے
کم از کم 205 مصلیان کو زخمی کردیا جن میں سے بعضکی حالت خطرے میں بیان
کی جاتی ہے۔ اس ساتھ تصادم کی وجہ اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کی
بڑی تعداد کا مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوکر اس کی حرمت کو پامال کرنا
تھا ۔ اسرائیلی فوج نے جب وہاںموجود روزہ دار نمازیوں کو تشدد کا نشانہ
بنایا تو اس کا بھر پور جواب دیا گیا اور نتیجتاً مسجد اقصیٰ میدان جنگ میں
تبدیل ہوگئی۔
فلسطینی اتھارٹی نے مسجد اقصیٰ میں برپا ہونے والے تشدد کی تمام تر ذمہ
داری اسرائیلی ریاست پرعائد کی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے
وحشیانہ تشدد کی ساری دنیا کے مسلمانوں نے شدید مذمت کرتے ہوئے القدس میں
زائرین حرم کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت
'حماس' کے رہنما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل کو
مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی ، فلسطینی نمازیوں پر تشدد اور القدس میں جرائم کا
حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’ہم قبلہ اول کے دفاع کی
پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور قابض دشمن کے خلاف نئے محاذ بھی کھول سکتے
ہیں‘اس مقصد کے حصول کی خاطر ابو مرزوق نے غرب اردن اور اندورن فلسطین کے
باشندوں کو مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر نے کا
مشورہ دیا ۔ انہوں نے غزہ کی پٹی اور ملک کے باہر بسنے والے فلسطینیوں سے
بھی اپیل کی کہ وہ القدس (یروشلم) کے عوام کی نصرت کے لیے اقدامات کریں اور
مقامی عوام کے دفاع اور قابض دشمن کے ساتھ مقابلے کے لیے اپنی قوت مجتمع
کریں۔ ابو مرزوق نے اس موقع پر مسجد اقصیٰ کی خاطر پیش کی جانے والی
قربانیوں کی تحسین کرتے ہوئے اسے سراہا ۔
دہشت گرد اسرائیل کی اس دھاندلی کو اقوام متحدہ جنگی جرائم میں شمار کرتا
ہے ۔ امسال 5مارچ سے بین الاقوامی فوجداری عدالت(آئی سی سی) نے مقبوضہ
فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی باقاعدہ طور پر تحقیقات کا آغاز
کیا ہے۔ ظاہر ہے عالمی عدالت کے اس اقدام پر مظلوم فلسطینیوں اور جارح
اسرائیل کی جانب سے متضاد ردعمل سامنے آیا ۔ فلسطینی اتھارٹی نے جہاں 'آئی
سی سی' کے فیصلے کا خیرمقدم کرکے اس کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلایا وہیں
اسرائیل نے مذمت کرتے ہوئےاس کو مسترد کردیا ۔ یہ دراصل چور کی داڑھی میں
تنکے کے مترادف ہے۔ اسرائیل تمام تر تشدد کے لیے فلسطینیوں کو ذمہ دار
ٹھہرا کر اپنے مظالم کو دفاع کی کارروائی کہتا رہا ہے۔ وہ اگر اپنے دعویٰ
میں سچا ہے تو اسے تفتیش سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ
ایسا نہیں ہے اس لیے وہ اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے مخالفت کررہا ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں
آتے ہیں اور ان علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں گی ۔
عالمی سطح پر دسمبر 2019 کو یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے
ممکنہ طور پر مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کا ارتکاب
کیا ہے۔ اس کا اگلا قدم یہ تعین اور تشخیص ہے کہ اسرائیل یا فلسطینی حکام
نے خود ان جرائم کی کس حد تک تحقیقات کی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطابق یہ
دیرینہ اقدام فلسطین کی انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے انتھک کوششوں کا
ثمر ہے جو فلسطینی عوام کے مطالبے کا عکاس ہے۔اس نے دعویٰ کیا ہے کہ
فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی ریاست کی طرف سے کیے جانے والے مسلسل ،
منظم اور وسیع پیمانے پر جرائم کے ثبوت موجود ہیں۔اسلامی تحریک مزاحمت
'حماس' کے ترجمان حازم قاسم نے بھی عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے
ہوئے اسے فلسطینی قوم کے لیے انصاف کے حصول کی طرف اہم پیش رفت قرار دیا
ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ عالمی
فوجداری عدالت نے دلیراور اخلاقی اقدار کے پابند اسرائیلی فوجی افسران کو
دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ یہ ایک ایسی عدالت ہے جو ہمیں اپنے
دارالحکومت یروشلم میں مکان بنانے سے روکتی ہے اور مکان بنانے کو جنگی جرم
قرار دیتی ہے۔ کسی حقدار کواپنی زمین سے بے دخل کرکے گھر بنانا جرم نہیں تو
کیا ہے؟ سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے بھی کہا تھا کہ ان کا ملک بین
الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعہ ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا نشانہ
بننے والے سیکڑوں اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے ۔ بین الاقوامی
فوج داری عدالت کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف صہیونی فوج کے وحشیانہ جنگی
جرائم کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد صہیونی لیڈر شپ نے یورپی ممالک سے مدد
کی درخواست کرنے کے لیے حکام کو خط لکھ کر انہیں دی ہیگ میں قائم عالمی
عدالت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات اور اس کے بعد پیدا
ہونے والی صورت حال سے آگاہ کیا ۔ اس خط کا سب سے مضحکہ خیر پہلو یہ ہے کہ
اس میں عالمی عدالت کو'جانب دار' اور اسرائیل کے اپنے عدلیہ کو آزاد ادارہ
قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی ۔
اسرائیل کو چونکہ اپنے جرائم کا علم ہے اس لیے اس کا خوف کھانا تو قابل فہم
ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں عدل و انصاف کا علمبردار
بننے والے اسرائیل کے آقا امریکہ نے بھی عالمی عدالت کے اعلان پر سخت
اعتراض کردیا ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ
انہیں عالمی فوج داری عدالت کے فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات
کے اعلان پر مایوسی ہوئی ہے۔ اسرائیل کی وکالت کرتے انہوں نے کہا کہ عالمی
فوج داری عدالت کو فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی ریاست کے خلاف جرائم کی
تحقیقات کا حق نہیں ہے کیونکہ اسرائیل نے عالمی فوج داری عدالت کی رکنیت
اختیار نہیں کی ہے۔ دنیا کاہر مجرم عدالت سے بھاگتا ہے۔ اسرائیل کا راہِ
فرار اختیار کرنا اس کے مجرم ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ
ایک طرف تو اسرائیل کے رکن نہیں ہونے کے سبب اس کا دفاع کرتے ہیں دوسری
جانب فلسطین کو عالمی عدالت کی رکنیت کا اہل نہیں سمجھتے ۔ سوال یہ ہے کہ
امریکہ کو یہ طے کرنے کا حق کس نے دے دیا کہ کسے رکنیت ملنی چاہیے اور کس
کو نہیں؟ امریکہ کے اس غیر منصفانہ مخالفت کو فلسطینی حکام نے اسرائیلی
ریاست کے جرائم کی طرفداری قرار دیا ہے۔
ڈیڑھ ماہ قبل 19 مارچ کو بین الاقوامی فوج داری عدالت یعنی 'آئی سی سی' نے
اسرائیل پر جرائم کے الزامات کا جواب جمع کرانے کی خاطر 30 دن کی مہلت دی
تھی ۔عدالتی مکتوب میں سن 2014ء کی جنگ، فلسطینی علاقوں میں غیرقانونی
بستیوں کی تعمیر اور غزہ کی پٹی کی سرحد پر سن 2018ء میں ہونے والے مظاہروں
کے دوران ہلاکتوں کے بارے میں جواب طلب کیا گیا ہے۔ اس خط کے بعد اسرائیل
کے کئی عہدیداروں کو گرفتاری کی تشویش لاحق ہوگئی ہے ۔ ویسے مغربی استعمار
کسی نہ کسی بہانے سے اسرائیل کا دفاع کرتاہے اس کے باوجود ایک جائزے کے
مطابق فلسطین کی 2015ء میں عالمی فوج داری عدالت میں شمولیت سے پانچ سال
قبل اور پانچ سال بعد کے واقعات اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں میں نیز
ہلاکتوں کےاندر میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔آئی سی سی میں شمولیت سے
قبل کے پانچ برسوں کے اعدادو شمار کا بعد پانچ سالوں سے موازنہ کیا جائے تو
پہلے کے پانچ سالوں کے اندر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں میں 2730 فلسطینی
شہید ہوئے تھے جب کہ عالمی عدالت میں فلسطینی شمولیت کے بعد شہیدوں کی
تعداد 436 پر آگئی ۔
غزہ کی پٹی پر شمولیت سے قبل کے پانچ سالوں میں 17 ہزار 365 فضائی اور
زمینی حملے ہوئے جو بعد کے پانچ برسوں میں گھٹ کر 3 ہزار 703 پر آگئے ۔
پہلے مرحلے میں فضائی اور توپ خانے کے 15 ہزار 155 حملے کیے گئے اور دوسرے
مرحلے میں 599 فضائی اور زمینی حملے کیے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
اسرائیل کے سرزنش سے پہلے ہی وہ کسی قدر خوفزدہ ہوگیا ہے۔ اس کمی کی دیگر
وجوہا ت بھی ہوسکتی ہیں لیکن ظلم و جبر کی کمی میں عدالتی دباو کا اثر بھی
ہے۔ فلسطینی جہدکار پرامید ہیں کہ عالمی عدالت انصاف اگر فلسطین میں غیر
قانونی یہودی آباد کاری، فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام، جبری ہجرت، مکانات
اور املاک کی مسماری جیسے معاملات کی تفتیش کرےگی تو اسے وافر مقدار میں
شواہد مل جائیں گی۔ اس جمعتہ الوداع کو ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی بھی
عالمی عدالت کے دائرۂ کار میں آئے گی اور اسرائیل سے اس کا مواخذہ ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ عالمی عدالت کی مداخلت مسئلۂ فلسطین کا دائمی حل نہیں
ہے لیکن اس کی جانب ایک پیش قدمی ضرور ہے۔
|