آج اسلامی دنیا اس مقام پر کھڑی ہے کہ عوام اور حکمران
الگ الگ دھاروں پرکھڑے ہیں۔عوام کے اور حکمرانوں کے خیالات میں آخر اتنا
تضاد کیوں ہے ؟آخر اس کے پیچھے کیا محرکات کار فرما ہیں ؟کیا عوامل ہو سکتے
ہیں؟ اسلامی ممالک کے حکمران اور ان ممالک کی رعایا کیوں ایک پیج پر اکٹھے
نہیں ہوپارہے ہیں؟
کیا ان تمام ایشوز پر ایک مسلم کے طور پر سوچنا ہمارا حق نہیں ‘کیا ہم
ھمیشہ اسی طرح دوسروں کے ایجنڈے کے لیے ٹشو پیپرکے طور پر استعمال ہوتے
رھیں گے۔کبھی کشمیر،کبھی فلسطین،کبھی افغانستان،کبھی عراق اور شام اور دیگر
کئی مظلوم اسلامی ممالک،کیا دنیا میں دھشت گردی اور مظلومیت اسلام کے ماننے
والوں کے مقدر میں ہی لکھ دی گئی ہے۔یا پھر ہم خود ہی اس سب کے ذمہ دار
ھیں۔اس کے علاوہ کسی طرف سے یہ باقاعدہ اسلامی دنیا کے کے لیے مکمل پلاننگ
کیساتھ مسلم دنیا کے لیے پھندا تیار کیا جاتا ہے۔
فلسطین کی مظلوم عوام کی دل دہلا دینے والے حالات دیکھ کر،ان کی دنیا کے
تمام مسلم ممالک سے فریادیں سن کر دنیا کا ھر مسلم پریشان ھے۔لیکن جب ھم
مسلم ممالک کے حکمرانوں کے اقدامات کو صرف مزمتی بیانات تک محدود دیکھتے
ہیں تو یہ پریشانی دکھ اور غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔آج بھی او آئی سی کا
ایک بیان نظر سے گزرا جس میں دنیا کے تمام مسلم امہ کی ترجمانی کرتے ہوۓ
کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور تمام مغربی دنیا اس معاملے میں نوٹس لے مطلب
ما رنے والے سے کہا جا رہا ھے کہ وہ ہم پر رحم کرے،واہ رے مسلم تیری قسمت
وہ اسلام جس نے دنیا کو قانون انسانیت دیے۔آج وہ اسلام اور کے ماننے والے
نمونہ عبرت بن رھے ہیں۔کبھی اپنوں کے ہاتھوں اور کبھی غیروں کے ہاتھوں۔
اور بہت تعجب کی بات ہے کہ فلسطین کے حق میں سب سے بڑا منظم مظاہرہ دنیا کے
کسی مسلم ممالک میں نہیں بلکہ برطانیہ کے شہر لندن میں دیکھنے کو ملا۔کیا
اس میں صداقت ہو گی کہ آج یہ صرف فلسطین کے مسلمانوں کیساتھ ھو رھا ھے۔کل
یہ حالات دنیا کے کسی اور مسلم ملک کیساتھ نہیں ہوں گے۔اور ہم اسی طرح اپنی
زندگیاں عیش و آرام میں گزارتے رہیں گے۔ہم اس تصور میں جی رہے ھیں کہ ھم
محفوظ ہیں ھمارے اہل و اھیال محفوظ ھیں جو کہ ایک خام خیالی تو ھو سکتی ھے
لیکن حقیقت کبھی بھی نہیں ھو سکتی۔جس اسلام نے انسانیت کی قدر کرنا سکھایا
اس اسلام کے اپنے ھی ظلم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔کسی بھی اسلامی ملک کیطرف سےاتنی شدید بربریت دیکھنے کے بعد اب تک کسی
بھی طرح کا شدید قسم کا رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا،مسلم دنیا ایک ایسی خواب
غفلت کا شکار بن چکی ہے کہ جب تک اللہ نہ کرے کہ یہ آہ بکا تمام مسلم امہ
کے اپنے گھر تک نہیں پہنچ جاتی شاہد مسلم دنیا اس خواب غفلت سے نہ جاگ
سکے۔اور یہ بات بھی کافی حد تک درست ھے کہ خواب غفلت میں پڑی قوم کے چہرے
پر جب تک خون کے چھینٹے نہ پڑیں، ہوش میں نہیں آتی خدا نہ کرے کہ مسلم امہ
ان حالات کا شکارہو۔آج فلسطین کے ساتھ جو حالات چل رھے ہیں اگر تمام مسلم
دنیا اکٹھی ہو کر اسرائیل کے خلاف ایک سخت بیان ہی دے دیں تو اسرائیل ایسا
کرنے سے پہلے خود کو خود ہی ختم کر دے ۔ آج اگر یہ سب مسلم ممالک کیساتھ ہو
رھا ہے تو وہ اس یقین کیساتھ ہو رہا ہے کہ مسلم دنیا کا شیرازہ بکھر چکا
ہے۔ |