کربلا اور حسین ؓ (بارہویں قسط)
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل کوفہ میں اہل بیت کے لٹے پٹے قافلے کی توہین کے بعد ابن زیاد(بدبخت)نے شمر (ملعون) کی قیادت میں ایک لشکر اسیران کربلا اور حضرت امام حسین ؓ کے سرمبارک کو یزید (ملعون) کے دربار کی جانب روانہ کیا۔ بدبخت ابن زیاد نے لشکر کو حکم دیا کہ تمہارا گزر جس جانب سے بھی ہو ان کی تشہیر اور تذلیل کرتے جانااور لوگوں کو ڈرانا کہ جس نے بھی خلیفہ کی اطاعت سے روگردانی کی تو اس کا یہی انجام ہوگا۔
راستے میں ایک مقام پر بارش کی وجہ سے قافلے نے ایک گرجا گھر میں قیام کیا۔ گرجا گھر کے پادری نے حضر ت سیدناامام حسین ؓ کے سرمبارک کو دیکھا تو شمر ملعون کو دس ہزار دینار دے کر سر مبارک کچھ دیر کے لئے لے لیا اور پھر ا س نے آپؓ کے سرمبارک کو دھویا اور عطر و خوشبو لگائی۔ پھر آپ ؓ کے سرمبارک کے سامنے ہاتھ باندھ کر باادب کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پادری کی قسمت بدل دی
اور حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے سرمبارک کے نور کی بدولت ا س کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا اور اس نور کے صدقے میں کفر و شرک کے اندھرے مٹ گئے۔ دمشق پہنچنے کے بعد یزید ملعون کے سامنے جب حضرت سیدنا حسین کا سرمبارک اور اسیران کربلا کو پیش کیا گیا تو اس بدبخت نے چھڑی کے ساتھ سیدنا امام حسین ؓ کے دندان مبارک کو ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا لیکن ہماری خون ٹپکاتی تلواروں نے انصاف کردیا اور ظالموں اور نافرمانوں کی گردنیں اڑا ڈالیں۔
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے برداشت نہ ہوسکا، انہوں نے بہت بے باکانہ انداز میں کہا کہ اے یزید! قیامت کے دن ان کے نانا حضور اکرم ﷺ امت کی شفاعت کریں گے اور تیری شفاعت ابن زیاد کرے گا۔ یہ فرما کر وہ دربارسے باہر چلے گئے۔ یزید نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ انہوں نے خود کو مجھ سے بہتر سمجھا اور اپنے باپ کو میرے باپ سے اعلیٰ تصور کیا اور اپنے جد امجد کو میرے اجداد سے ارفع سمجھا اور اگر میں میدانِ کربلا میں ہوتا تو انہیں ہرگز قتل نہ کرتا۔
جس وقت حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ کو یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو یزید نے کہا کہ تمہارے باپ نے میرے ساتھ قطع رحمی کی اور میرے حقوق کو نظر انداز کردیا جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ نے قرآن کریم کی آیات تلاوت فرمائی کہ تم پر اور روئے زمین پر جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ عالم کی پیدائش سے قبل لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔
یزید نے جب آپ ؓ کی بات سنی تو کہا کہ تم پر یہ مصیبت تمہارے اعمال کانتیجہ ہے۔ حضرت امام زین العابدین ؓ نے اس کی بات سننے کے بعد خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ اس کے بعد حضرت سیدہ زینب ؓ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے یہ خطبہ دیا: "تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے اور درود وسلام حضور اکرمﷺ اور ان کے اہلبیت پر اللہ کا فرمان ہے کہ ان لوگوں کا انجام بُرا ہے جو برے کام کرتے ہیں اور اس کے احکامات کو جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اے یزید تونے ہم پر زمین تنگ کردی اور ہمیں قید کیا اور تو سمجھتا ہے کہ ہم ذلیل ہوئے اور تو برتر ہے تو یہ سب تیری سلطنت کی وجہ سے ہے اور تو نے شاید اللہ کا فرمان نہیں سنا کہ کفار یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے ان کے ساتھ جو نرم رویہ رکھا ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے بلکہ یہ صرف مہلت ہے تاکہ وہ دل کھول کر گناہ کریں پھر ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ تو نے آلِ رسول اور بنی عبدالمطلب کا ناحق خون بہایا اور عنقریب تو بھی ایک دردناک انجام سے دوچار ہوگا۔ میں اللہ سے امید رکھتی ہوں کہ وہ ہمارا حق ہمیں دے گا اور ہم پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لے گا اور ان پر اپنا قہر نازل فرمائے گا۔ تو عنقریب اپنے گناہوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ان کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ وہ زندہ ہیں، انہیں رزق ملتا ہے اور جن لوگوں نے تمہارے لئے راستہ آسان کیا وہ بھی عنقریب تیرے ساتھ برباد ہونے والے ہیں۔ اے یزید! اگر تو ہماری ظاہری کمزوری کواپنی فتح سمجھتا ہے تو کل قیامت کے روز تو اپنا کیا ہوا پائے گا، اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہم اس سے کوئی شکوہ کرتے ہیں بلکہ ہم ہر حال میں صابر اور اس پر بھروسہ کرتے والے ہیں۔ تو اپنے مکر وفریب سے جو چاہے کرلے مگر تو ہرگز ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکے گا اور نہ ہی ہمارے مقام کی بلندی کو چھو سکے گا۔ تیری یہ سلطنت عارضی ہے اور عنقریب منادی کرنے والا منادی کرے گا اور لعنت ایسی قوم پر جس نے یہ ظلم وستم کیا۔ پس اللہ کی حمد وثنا ہے جس نے ہمارے پچھلوں کا ایمان کے ساتھ اور شہادت پر خاتمہ فرمایا اور وہ نہایت مہربان اور رحم والا ہے اور ہمارے لئے کافی ہے کیونکہ وہ بہترین کارساز ہے "۔
یزید نے اپنے رفقاء سے اسیرانِ کربلا کے بارے میں مشورہ کیا تو حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے یزید سے کہا کہ تم میرا مشورہ مانو ان کے ساتھ وہی سلوک کرو جو حضور اکرم ﷺ نے کیا۔ یزید نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا مشورہ مان لیا کیونکہ وہ حالات کی نزاکت سمجھتا تھا کہ واقعہ کربلا کے بعد لوگ میرے مخالف ہوچکے ہیں اور اب مزید کوئی اقدام میری حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ یزید نے اہل بیت کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے سیدنا امام زین العابدین ؓ کو بلایا اور اپنے پاس
بٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ کو جس چیز کی بھی خواہش ہو میں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ سیدنا زین العابدین ؓ نے فرمایا کہ ہماری سالار اور غمگسار ہماری پھوپھی سیدہ زینب ﷺ ہیں۔ حضرت سیدہ زینب ؓ کو بلوایا گیا اوریزید نے ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگ یہاں رہنا پسند کریں گے یا پھر مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں؟پھر یزید نے ابن زیاد کو گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ اگر سیدنا حسین ؓ اور میرا آمنا سامنا ہوتا تومیں ان کو ہرگز شہید نہ کرتا۔ یزید کی باتیں سن کر سیدہ زینب ؓ نے فرمایا کہ تو ہمیں مدینہ منورہ واپس بھیج دے۔
یزید نے سیدہ زینب ؓ کی خدمت میں مال ودولت بطور نذرانہ پیش کیا تو آپؓ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اس نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی سربراہی میں تین سو سپاہیوں کا حفاظتی دستہ اہل بیت کے قافلے کے ہمراہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ کیا۔
سیدنا حسین ؓ کے سرمبارک کے مدفن کے بارے میں کتب سیر میں متعدد روایات موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یزید نے آپ ؓ کا سرمبارک اپنے شاہی خزانے میں رکھ لیا جب سلیمان بن عبدالمالک تخت نشین ہوا تو اس نے سرمبارک کو دمشق بھیج دیا جہاں اسے خوشبوؤں سے غسل دے کر مدفون کردیا گیا۔
ایک روایت کے مطابق آپ ؓ کے سرمبارک کو چالیس یوم کے بعد جسم مبارک سے ملادیا گیا اور کربلائے معلی میں سپردخاک کیا گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق آپؓ کے سرمبارک کو مشہد میں مدفون کیا گیا۔ جامعہ الازہر قاہرہ کی عمارت کے شمالی دروازے کے سامنے یہ مشہد عظیم واقع ہے جو مشہد حسین ؓ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ ===============
|