کربلا اور حسین ؓ (تیرہویں قسط)


تحریر: شبیر ابن عادل

حضرت سیدنا امام حسین ؓ کی شہادت کے بعدیزید اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اب اس کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس کا یہ خیال محض اس کی خوش فہمی تھا۔ سیدنا حسین ؓ کی شہادت کے بعد اہل مدینہ نے اپنی بیعت منسوخ کردی۔ یزیدنے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کروادی۔ بیت اللہ شریف کو نذر آتش کردیا، اتنے بڑے جرم کی ہمت تو کفار کو نہیں ہوئی، افسوس یہ سب ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔
یزید ملعون پر ان بڑے گناہوں اور جرائم کی بدولت اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور وہ مرضِ قولنج میں مبتلا ہوگیا۔ بڑے سے بڑے طبیب سے علاج کروایا گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا اور اسی مرض میں تڑپ تڑپ کر یزید جہنم واصل ہوا۔
حضرت سیدنا حسین ؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے اللہ عزوجل نے کوفہ کی جیل میں قید ایک شخص مختار ثقفی کو چنا۔ مختار ثقفی قید خانے سے نکلنے کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچا۔ اقتدار سنبھالتے ہی اس نے حضرت سیدنا حسین ؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور کوفہ کے ہر اس گھر میں جہاں مجرم موجود تھے، پورے گھر والوں سمیت تباہ وبرباد کرڈالا۔ ابن زیاد ملعون نے جب یہ صورتحال دیکھی تو راہِ فرار اختیار کی مختار ثقفی کے سپاہیوں نے اس کا تعاقب کیا اور اس کا سر تن سے جدا کرڈالا۔ جب ان زیادہ کا سر مختار ثقفی کے پاس لے کر جایا گیاتو اس نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا، جس طرح اس بدبخت نے حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے سرمبارک کی آبرو ریزی کی تھی۔

مختار ثقفی کے اعلان کے بعد عمرو بن سعد بھی روپوش ہوگیا۔ بالآخر اسے مختار ثقفی کے سپاہیوں نے ڈھونڈ نکالا۔ جس وقت ابن سعد کو مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تو وہ ملعون ہے جس نے حضور اکرم ﷺ کے جگر گوشے حضرت سیدنا امام حسین ؓ کو میدان کربلا میں پیاسا شہید کیا۔ پھر مختارثقفی نے حکم دیا کہ اس کے بیٹوں کو اس کے سامنے قتل کیا جائے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اس نے کس طرح دنیاوی فوائد کے لیے حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کو میدان کربلا میں شہید کروایا تھا۔ چنانچہ ابن سعد کے گڑگڑانے کے باوجود اس کے بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے مارا گیا پھر اسے بھی جہنم واصل کردیا گیا۔

مختار ثقفی کے سپاہیوں نے جب شمر ذی الجوشن مردود کو گرفتار کیا اور اسے مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا تو اس وقت وہ تھر تھر کانپ رہا تھاپیاس سے اس کا حلق سوکھ رہاتھا۔ اس نے رو رو کر مختار ثقفی سے عرض کی کہ مجھے چند گھونٹ پانی پلا دو مگر مختار ثقفی نے اس کی آہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور کہا کہ اپنی پیاس کی تجھے اتنی تڑپ ہے اور تجھے یاد ہے کہ تو نے نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کو پانی سے دور رکھا اور ان کے بچوں پر ظلم کیا اس وقت تجھے احساس نہ ہوا؟ اب تو خو د پانی کو ترس۔ چنانچہ شمر پیاس سے تڑپتا ہوا تلوار کی نذر ہوا۔

ایک نوعمر یزیدی سپاہی جو حسن وجمال میں بے مثال تھا۔ اس کے چہرہ کا رنگ خوب سرخ وسفید تھا۔ اس نے حضرت امام حسین ؓ کا سرمبارک اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا۔ لیکن واقعہ کربلا کے بعد اس کا رنگ تبدیل ہوتا چلاگیا اور رفتہ رفتہ بالکل سیاہ ہوگیا۔ جب اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگا کہ جس روز سے میں نے سیدنا امام حسین ؓ کے سرمبارک کی بے حرمتی کی ہے۔ ہر رات دو افراد میرے پاس آتے ہیں اور میرے دونوں بازو پکڑ کر کہیں لے جاتے ہیں۔ وہاں سخت آگ بھڑک رہی ہوتی ہے۔ وہ مجھے منہ کے بل اس آگ میں بار بار ڈالتے اور نکالتے ہیں۔ یہ عمل ہر رات دوہرایا جاتا ہے۔ میری یہ حالت اسی وجہ سے ہوئی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ وہ شخص اسی طرح جھلس جھلس کر عبرتناک موت مرا۔


علامہ جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوفہ میں چیچک کی مہلک وبا پھوٹ پڑی۔اس وبا سے لاتعدا نوعمر بچے اندھے ہوگئے۔ جب تخمینہ لگایا گیا تو ان میں سے کم وبیش ڈیڑھ ہزار بچے ان بدنصیب ظالموں کے تھے جنہوں نے میدان کربلا میں قافلہ حسینی کے خلاف جنگ کی اور مظلوموں کو بے دردی سے شہید کردیا تھا۔
==================



shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.