کربلا اور حسین ؓ (گیارہویں قسط)
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل سانحہ کربلا کے اگلے روز یعنی 11 /محرم الحرام کو حضرت سیدنا امام حسین ؓ کا سر کوفہ کے گورنر ابن زیاد (ملعون) کے دربار میں پیش کیا گیا۔ ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کیا۔ سیدنا حسین ؓ کا سر اس کے سامنے رکھا تھا اور وہ ایک چھڑی سے آپؓ کے دہن مبارک کوچھونے لگا، وہاں حضرت زید بن ارقمؓ موجود تھے، ان سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ چھڑی کو ان پاک ہونٹوں کے اوپر سے ہٹا، قسم ہے، اس ذات کی جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو ان لبوں پر بوسہ کرتے دیکھا ہے۔ پھر وہ شدت غم سے روپڑے۔
ابن زیاد نے حضرت زید بن ارقم کی بات سنی تو کہا کہ اگر تم بوڑھے نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی قتل کروا دیتا۔ حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا کہ اے بد بخت! تو نے تو حضور نبی کریم ﷺ کے جگر گوشے تک کا خیال نہ کیا تو ان کے مقابلے میں میری کیا حیثیت ہے؟ یہ کہہ کر آپ ؓ وہاں سے چلے گئے اور جاتے ہوئے اہل دربار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ؓ کے لعل کوشہید کیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر تسلیم کرلیا، یہ تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرے گا اور بُروں کو زندہ چھوڑے گا۔
روایات میں آتا ہے کہ جس وقت اسیران کربلا کو ابن زیاد بدبخت کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے حضرت سیدنا امام زین العابدین کو دیکھتے ہوئے کہا کہ تم کون ہو؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں علی ابن حسین ؓ ہوں۔ ابن زیاد نے کہا کہ علی ابن حسین ؓ تو کربلا میں مارے گئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ وہ میرے بھائی تھے اور میرا نام بھی علی ابن حسین ؓ ہے اور میرے بھائی کو شہید کیا گیا ہے۔ ابن زیاد نے کہا کہ اسے ہم نے نہیں اللہ نے مارا ہے۔ حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ نے جواب میں اللہ عزوجل کا فرمان سنا دیا کہ بے شک اللہ ہی جانوں کو قبض کرنے والا ہے اور اللہ کے حکم کے بغیر کوئی دوسرا نفس ان کی موت کے وقت نہیں مارتا۔
ابن زیاد نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ تمہیں کیوں چھوڑ دیا گیا؟ پھر ابن زیاد نے حضرت امام زین العابدین ؓ کے قتل کا حکم دیا۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا کہ مجھے بھی قتل کروانا ہے توکرادے۔ مگر ان عورتوں کے ساتھ کسی صالح متقی مسلمان کو بھیجنا جو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور ان کا حق ادا کرسکے۔ ابن زیاد نے یہ سن کر اپنا حکم واپس لیا اور کہنے لگا کہ ان عورتوں کے ساتھ یہی جائیں گے۔
حضرت سیدہ زینب بنت علی ؓ کو جب ابن زیاد کے پاس لے جائے گا تو اُن ؓ کا لباس بہت میلا ہوچکا تھا۔ ابن زیاد نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے جواب ملا کہ یہ زینب بنت سیدہ فاطمہ زہر ا ؓ ہیں۔ ابن زیاد نے کہ اللہ نے تمہیں رسوا کیا اور تمہاری بات کو جھوٹا کردیا۔ حضرت سیدہ زینب ؓ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے ہمیں شرفِ عظیم عطا فرمایا اور ہمیں آلِ رسول ؐ بنایا اور قرآن کریم ہماری پاکی بیان کرتا ہے۔ ابن زیاد نے غصے میں کہاکہ اللہ نے مجھے تمہارے غضب سے بچایا اور تمہارے سرکشوں کو ہلاک کردیا۔ حضرت سیدہ زینبؓ نے فرمایا کہ تونے ہمارے چھوٹے اور بڑے شہید کئے، اگر تو اسی میں اپنی بھلائی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہ۔ ابن زیاد نے جب بنتِ علی ؓ کی یہ جرأت دیکھی تو خاموش رہنے میں اپنی عافیت سمجھی۔
کوفہ کی گلیوں میں جس وقت اسیرانِ کربلا اور حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے سرمبارک کو گلیوں میں لایا گیا تو لوگوں نے زارو قطار رونا شروع کردیا۔ حضرت سیدہ زینبؓ نے یہ دیکھ کر فرمایاکہ تم نے اپنے ایمان کو دھوکے اور فریب کا ذریعہ بنایا اور تم لوگوں کی مثال اس سبزے کی سی ہے جو نجاست کے ڈھیر پر اُگتا ہے۔ تم لوگ صرف عیب جوئی اور لونڈیوں کی طرح خوشامد اور چابلوسی کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اس لئے تمہارے رونے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔ (جاری ہے) ===================
|