کربلا اور حسین ؓ (چودہویں قسط)


تحریر: شبیر ابن عادل

حضور اکرم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت حضرت سیدنا حسین ؓ کی عمر صرف سات سال تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے مرض کے شروع زمانے میں حضرت سیدنا حسن ؓ اور حضرت سیدنا حسین ؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضورؐ حسب معمول انہیں اپنے پاس بٹھاتے اور شفقت فرماتے۔ لیکن جب بیماری میں اضافہ ہوا تو دونوں شہزادوں کو قریب آنے سے روک دیاگیا تاکہ وہ اپنے نانا جان ﷺ کی حالت دیکھ کر پریشان نہ ہوجائیں اور ان کے ننھے سے دل چوٹ نہ کھاجائیں۔ لیکن آخر انہیں حضور ؐ کی شدت مرض کا حال معلوم ہوہی گیا اور وہ آہ و زاری میں مشغول رہنے لگے اور دنیا ان کے لئے اندھیر ہوگئی، جن خوبصورت زبانوں سے پیاری پیاری باتیں نکلتی تھیں ان پر نانا جان ﷺ کے غم میں تالے لگ گئے اور وہ خاموش ہوگئیں۔

جو پھول سے جسم پیارے نانا جان ﷺ کو دیکھ کر خوشی سے کھل جاتے تھے، وہ مرجھا کر رہ گئے اور حزن وملال نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔

ایک دن نبی کریم ﷺ نے دونوں شہزادوں کو بلایا، وہ حاضر ہوئے تو اپنے نانا ؐ کی حالت دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے پھر اپنی والدہ کو روتے دیکھا تو بے چین ہوگئے اور سمجھ گئے کہ نانا جان ؐ ہمیشہ کے لئے رخصت ہونے والے ہیں۔ حضور ؐ نے انہیں چپ کرایا، پیار کیا، چوما اور تسلی دی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے انہیں پیار کرنے کے بعد حاضرین کی طرف توجہ فرمائی اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ دوسرے اہل بیت رضی اللہ عنہم کا احترام کرنے اور خیال رکھنے کی وصیت فرمائی۔

اس کے تھوڑی دیر بعد ہی سرکار ؐ پر نزع طاری ہوگئی اور رحمت للعالمین ؐ " اللھم فی الرفیق
الاعلیٰ " کا ورد کرتے ہوئے اپنے رفیق اعلیٰ کی آغوش رحمت میں چلے گئے۔

دونوں شہزادں کو نانا جان کی فراقت کا بے حد صدمہ ہوا، وہ روضہ رسول ؐ پر جاتے۔ اشک غم بہاتے اور اللہ سے دعائیں مانگتے۔ حضرت سیدنا حسین ؓ تو غم کی شدت کی کیفیت میں کبھی کبھی نانا حضور ﷺ کو آوازیں بھی دینے لگتے تھے۔ اور جس جگہ حضور ؐ علم و عرفان کی محفلیں لگاتے، وہاں جاتے تو ان کا اضطراب اور بھی بڑھ جاتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے بعد سیدنا حسین ؓ اپنی پیاری امی جان سیدہ فاطمہ زہرا ؓ کے زیر سایہ تربیت پانے لگے۔ لیکن چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ان کی والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ ؓ بھی انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جانے لگیں۔ وہ شدید بیمار پڑگئی تھیں اور مرض کسی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

وفات سے ایک روز قبل بستر علالت سے اٹھیں۔ اپنے دست مبارک سے آٹا گوندھ کر پاس رکھ لیا، اور دونوں جگر گوشوں کے سر دھوئے۔ سیدنا علی مرتضی ؓ تشریف لائے تو سیدہ فاطمہ ؓ کو مصروف دیکھ کر چونک گئے اور دریافت کیا کہ یہ کیا؟ بیماری کی شدت سے تجھے اٹھنا دشوار تھا اور اپنے باپ کی جدائی میں تو روز و شب روتی رہتی اور سب کام چھوڑ بیٹھی تھی۔ لیکن آج خلاف معمول یہ کیا ہورہا ہے؟ کہ آٹا پاس گوندھا پڑا ہے، بچوں کے کپڑے بھگو کر الگ رکھے ہیں اور ان کے بال بھی خود دھو رہی ہیں۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے اباجان ؐ کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ مجھے اپنے پاس بلارہے ہیں اور مجھے خوش خبری دی کہ جلد ہی مجھ سے آملو گی۔ اس لئے خیال آیا کہ بچوں کے کپڑے اور بال دھو کر صاف کرلوں اور انہیں اپنے ہاتھ کی روٹی بھی کھلا جاؤں۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے بچوں کو نہلا دھلا کر ان کے بال سنوارے، کپڑے پہنائے اور روٹی پکا کر کھلائی اورفرمایا کہ واری جاؤں، ذرا مسجد نبویؐ تک ہو آؤ۔ اپنے لئے بھی دعا مانگو اور میرے لئے بھی۔ دونوں شہزادے چلے گئے اور خاتونِ جنت بستر پر لیٹ گئیں۔ ان کی حالت تیزی سے خراب ہوتی چلی گئی اور اگلے دن ہی وہ اپنے ابا جان کے پاس پہنچ گئیں۔

دونوں شہزادوں کو والدہ محترمہ ؓ کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہوا، بچے ہی تو تھے، کہاں تک صبر کرتے، سخت گریہ و زاری کی۔ مگر اپنے عظیم والد سیدنا مولاعلی شیر خدا ؓ نے سمجھایا کہ بیٹا! اللہ صابروں کو پسند کرتا ہے، بے صبروں کا ساتھی نہیں ہے۔ چنانچہ صبر آہی گیا اور وقت بھی بہت بڑا مرہم ہے۔ انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑا صدمہ بھول جاتا ہے اور وہ تو رسول اکرم ﷺ کے نواسے اور جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔(جاری ہے)
====================



shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.