آسام میں سربانند کانگریس سے جیتے کانگریسی سے ہار گئے

کورونا کی سونامی کے دوران وطن عزیز میں چار صوبوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں منعقد ہونے والے الیکشن میں بی جے پی نے اپنی ساری توجہات کا مرکز مغربی بنگال کو اس لیے بنایا کیونکہ آساممیں تو بی جے پی پہلے سے برسرِ اقتدار تھی اس لیے دوبارہ جیت کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔یہ اور بات ہے کہ وہاں بھی ترنمول ، ڈی ایم کے یا کیرالہ کےدائیں محاذکی مانند بی جے پی آسام میں بھی کوئی غیر معمولی کامیابی درج نہیں کراسکی۔ اس کی ایک سیٹ بھی نہیں بڑھی ۔ اس کے برعکس کانگریس اور یوڈی ایف نے تین تین سیٹوں کا اضافہ کرلیا ہے۔ آسام میں کانگریس اور یوڈی ایف کے ساتھ آجانے سے این ڈی اے کی شکست کاامکان بھی رونما ہوگیا تھا ۔یہ دیکھ کر اس بار این ڈی اے کی شراکت دار بوڈو پیوپلس فرنٹ این ڈی اے سے الگ ہوکر یو پی اے میں شامل ہوگئی تھی ۔ اس سے این ڈی اے کا اقتدار خطرے میں پڑگیا اور مودی وشاہ کی دلچسپی بھی کم ہوگئی ۔ پچھلی بار بوڈو پارٹی نے بارہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس میں پھوٹ ڈال کر بی جے پی نے نئے حلیف کو 6 نشستوں پر کامیاب کردیا اور وہ 4 پر سمٹ گئی۔

2011ء کے صوبائی انتخاب میں کانگریس نے 78 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے تیسری بار اقتدار میں آئی تھی اور اس وقت بی جے پی صرف پانچ پر تھی ۔ ایےگ برے وقت میں اے جی پی سے نکل کر بی جے پی میں آنے والے سربانند سونوال نے اس کو سہارا دیا۔ بی جے پی نے انہیں پارٹی کا صوبائی صدر بناکر قومی انتظامیہ میں شامل کرلیا ۔ کانگریس میں ترون گوگوئی بوڑھے ہوچلے تھے اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو آگے بڑھایا۔ ان کی اس حرکت نے 2001 سے تیسری بار منتخب ہوکر وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے ہیمنت بسوا سرما کو بے چین کردیا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 52؍ارکان اسمبلی کی حمایت ان کے پاس ہے لیکن کانگریس نے اس کی ان دیکھی کردی ۔ ہیمنت بسوا پر بدعنوانی کے الزامات بھی تھے اس لیے مرکز میں مودی سرکار کے آتے ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ بننے کی خاطربی جے پی کا چولہ اوڑھ لیا ۔ اس وقت تک سربانند مرکزی وزیر برائے کھیل کے عہدے پر فائز ہوچکے تھے۔

2016ء میں جب آسام کے اندر بی جے پی اقتدار میں آگئی تو وزارت اعلیٰ کے دو دعویدار تھے اور زیادہ تجربہ بسوا سرما کو تھا مگر ایک سال کے اندر کانگریس سے بی جے پی میں آنے والے کو وزیر اعلیٰ بنانے میں اسے شرم محسوس ہوئی اس لیے پانچ سال قبل اے جی پی سے آنے والے سربانند کو وزیر اعلیٰ بنا یا گیا ۔ بدعنوانی کےملزم بسوا سرما کو وزیر مالیات بنانا پڑا۔ اس طرح چور کے ہاتھ میں خزانے کی چابی چلی گئی۔ اس درمیان بسوا سرما نے شمال مشرقی صوبوں میں این ڈی اے سے ہٹ کر این ای ڈی اے بنا ڈالی اور اسے کافی مضبوط کرلیا۔ اس الیکشن کے بعد انہوں نے یقیناً بی جے پی کو دھمکی دی ہوگی کہ اگر اب بھی انہیں وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جائے گا تو این ای ڈی اے کو لے کر الگ ہوجائیں گے ۔ اس لیے کسی طرح سربانند سونوال کو سمجھا بجھاکر بسوا سرما نامی سابق کانگریسی کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔ اس طرح آسام کانگریس سے پاک تو ہوگیا مگر اقتدار پھر سے کانگریسی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ ویسے بھی فی الحال کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ میں صرف ساڑھے تین فیصد اور این ڈی اے اور یوپی اے کے درمیان تو صرف ایک فیصد کا فرق ہے ۔ خیر آسام میں اپنے ہی سابق وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر بی جے کے ایک نئے وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کرادی اور سربانند غیروں سے جیت کر اپنوں سے ہارگئے۔

تمل ناڈو میں بی جے پی فی الحال انا ڈی ایم کے کندھوں پرزبردستی سوار ہے۔یہ سواری اس نے وزیر اعلیٰ پلنی سوامی کومرکزی حکومت کا گاجر اور ہنٹر دکھا کر حاصل کی تھی ۔ بی جے پی کے بوجھ سے اے آئی ڈیم کے کا بیڑہ غرق ہوگیا ۔ اب چونکہ سواری ہی ڈوب چکی ہے تو سوار ازخود غرق ہوگیا ہے۔ بی جے پی کو اس انجام کا اندازہ ہوچکا تھا اس لیے تمل ناڈو کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ تمل ناڈو کے بغل میں ایک ننھا سا یونین ٹرکی ٹری پدو چیری ہے۔ بی جے پی نے وہاں کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ رنگا سوامی کو این ڈی اے میں شامل کیا اور اس کی مدد سے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے جونیر پارٹنر بن گئی ۔ ویسے 22لاکھ کی آبادی والے یونین ٹرشٹری میں انتخاب جیتنا یا ہارنا کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ اس لیے اسپر بھی دھیان نہیں دیا گیا ۔

کیرالہ میں اس بار بی جے پی عجب خمار میں مبتلا تھی ۔ پچھلی بار ایک نشست پر کامیاب ہونے والی بی جے پی مونگیری لال کا حسین سپنا سجا رہی تھی ۔ اس خوب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر میٹرو مین کو پارٹی میں شامل کرنے کےاگلے دن وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایااور ایک دن بعد اپنی غلطی کا احساس کرکے پہلے اسٹیشن سے قبلمیٹروریل کو پٹری سے اتار دیا۔ بی جے پی کے نائب صدر نے اقتدار کے سفر سپنا اس طرح بیان کیا کہ 10 نشستوں پر کمل کھلنے کے سبب معلق اسمبلی بنے گی ۔ مرکزی حکومت اس تحلیل کرکے دوبارہ انتخاب کروائے گی اور پھر صوبےکے رائے دہندگان بی جے پی کامل اکثریت سے نواز دیں گے ۔ ایسا حسین سپنا تو مونگیری لال نے بھی نہیں دیکھا تھا ۔ انتخابی نتائج کے بعد پتہ چلا کہ کمل ایک سے دس پر جانے بجائے پھر سے صفر پر آگیاہے ۔ ویسے دس کے ہندسے میں ایک کے ساتھ صفر ہوتا ہے ۔ اس لیے مودی اور شاہ نے کیرالہ پر داوں لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
بی جے پی کے پاس اب لے دے کر مغربی بنگال بچ گیا تھا جہاں اس نے اپنے سارے پینترے استعمال کرلیے اور پوری طاقت جھونک دی لیکن ڈھاک کے تینوں پات ، مودی، شاہ اور یوگی چاروں خانے چت ہوگئے ۔ مودی جی کی پہلی مدت کار میں راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جانا خطرے کی گھنٹی تھا۔ اسی طرح گجرات کے اندر بھی پچھلے الیکشن میں بی جے پی نشستوں میں کمی واقع ہوئی تھی ۔ کرناٹک بھی نتائج کے فوراً بعد ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن اسی کے ساتھ مہاراشٹر، ہریانہ اورجھارکھنڈ کے علاوہ آسام کا ہاتھ لگ جانا ایک لاٹری سے کم نہیں تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں کے دونوں بڑے رہنما سربانند اور بسوا سرما سنگھ کی شاکھا کے بجائے بالترتیب اے جے پی و کانگریس سے ٹوٹ کر آئے تھے ۔ 2019 ء میں جب بی جے پی کو مغربی بنگال میں 40 فیصد ووٹ اور 18نتوب ں پر کامیابی مل گئی تو اس نے محسوس کیا کہ مغرب کے نقصان کی بھرپائی مشرق سے ہوسکتی ہے۔ اس طرح مغربی بنگال بی جے پی توجہات کا مرکز بن گیا ۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر کورونا کی زبردست وبا کے دوران ہر محاذ پر ناکام ہونے والی مرکزی حکومت نے انتخاب کیوں کروایا جبکہ لوگ آکسیجن کے لیے گھٹ گھٹ کر مررہے تھے ۔ شمشان گھاٹ سے باہر لاشوں کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں۔ آخریہ خطرہ مول لینے کی ضرورت کیا تھی ؟ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں انتخابی عمل نہ صرف اقتدار تک پہنچنے کا وسیلہ بنتا ہے بلکہ اس سے اہل اقتدار کے سارے پاپ دھل جاتے ہیں بلکہ پونیہ میں بدل جاتے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد یہ ہوچکا ہے۔ اس حماقت کی ناکامی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم نے خود ہاتھ پھیلا کر وقت مانگا تھا کہ میری نیت درست ہے اگر میں ناکام ہوگیا تو 90 دن بعد مجھے جس چوراہے پر چاہو پھانسی لگا دے دینا یا میں جھولا اٹھا کر چلا جاوں گا۔

اس کے بعد اترپردیش کے ریاستی انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ اس کو دیگر جذباتی مسائل اچھال کر جیتنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ملک کے عوام وزیر اعظم اور ان کی نوٹ بندی سے خوش ہیں ۔ مغربی بنگال میں اگر بی جے پی جیت جاتی اور امیت شاہ کے مطابق دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوجاتی تو یہی دعویٰ دوہرایا جاتا کہ عوام مرکزی حکومت کے کورونا سے متعلق کیے جانے والے اقدامات سے خوش ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دیدی نے کورونا کے محاذ پر اپنے دیور کی ناکامی کو طشت ازبام کر کے یہ پیغام دیا کہ اپنے تمام تر وسائل اور پینترے بازی کے باوجود دھرم و یر کی یہ جوڑی ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔ اس کو نہ صرف ناک آوٹ کیا جاسکتا ہے بلکہ دنگل سے اٹھا کر باہر بھی پھینکا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے گزشتہ سال درگا پوجا کے تہوار سے ہی بنگالی طرز کی دھوتی باندھ کر انتخابی بگل بجا دیا تھا مگر ممتا بنرجی نے درگا کا روپ دھار کر اپنے دشمن کو پھاڑ کھایا ۔ اب کمل والے اپنے زخموں کو سہلا رہے ہیں ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448843 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.