کیا مسلم لیگ ن سیاسی کنفیوژن کا شکار ھے؟

پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی اس وقت کیا ہے؟ اس پر ن لیگی قیادت کے حالیہ متضاد بیانات ایک مرتبہ پھر موضوع بحث ہیں۔

خاص طور پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اس انٹرویو پر تبصروں کا بازار گرم ہے جس میں انہوں نے کہا تھا تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ جب لڑائی ہی کوئی نہیں تھی تو صلح کس بات کی۔

اس سے قبل مریم نواز کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح ہو چکی ہے اور موجودہ حکمران جماعت کو یہ بات ہضم ہونے میں دشواری ہے۔

ن لیگ کے سیاسی بیانیے میں یہ '' تبدیلی " اس وقت سے دیکھی جا رہی ہے جب پارٹی کے صدر شہباز شریف نہ صرف جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے بلکہ عدالت نے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی۔

یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے انہیں برطانیہ نہیں جانے دیا اور ایئرپورٹ سے ہی واپس گھر بھیج دیا۔
ایسے کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جو اس موجودہ '' کنفیوژن " کا سبب بن رہے ہیں۔

ن لیگی راہنما جاوید لطیف کی غداری کے الزامات میں گرفتاری اور مریم نواز شریف کا شیخوپورہ ان کے گھر جا کر اظہار یکجہتی کرنا اور نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو ایک بار پھر شد و مد سے بیان کرنا، مبصرین اس صورت حال کو '' کنفیوژن " کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

شہباز شریف رہائی کے بعد فرداً فرداً ان کارکنان اور رہنماؤں کے گھر مسلسل جا رہے ہیں اور بذریعہ موبائیل فون ان سے رابطے کر رھے ھیں جو ان کی غیر موجودگی میں کسی نہ کسی تکلیف سے دوچار ہوئے تاہم وہ شیخوپورہ میں جاوید لطیف کے گھر ابھی تک نہیں گئے۔

اسی طرح جاوید ہاشمی کے ساتھ ہونے والے واقعات (ان کے خاندان کی ملکیتی جائیداد مسمار کرنا) اور پارٹی مؤقف نے بھی اس تذبذب میں اضافہ کیا ہے۔

جاوید ہاشمی نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک وی لاگ میں سخت زبان استعمال کی تو جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ : جاوید ہاشمی کا بیان ان کا ذاتی موقف ہے وہ پارٹی پالیسی نہیں۔

اس پر بھی سوشل میڈیا پر لیگی کارکنوں نے کسی حد تک برا منایا اور اسے شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کیوجہ قرار دیا۔

جبکہ جاوید ہاشمی کے خاندان سے منسوب کمرشل جائیداد مسمار کیے جانے پر مریم نواز نے نام لیے بغیر حکومت پر شدید تنقید کی ہے جس سے یہ بات اور بھی واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ن لیگ اب کس رخ چلے گی؟

شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی یا نواز شریف کا ٹکراؤ کا بیانیہ؟

کیونکہ پارٹی صدر شہباز شریف جب سے جیل سے رہا ہوئے ہیں ان کی ساری توجہ یا تو گورننس کے مسائل پر ہے یا پھر فلسطین کے حق میں مہم پر۔ جبکہ ان کے بیانات سے بھی ٹکراؤ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دے رہی اور ان کے صاحبزادے اور پنجاب کے اپوزیشن رہنما حمزہ شہباز بھی اپنے والد کے نقش قدم پر ہیں۔

اس حوالے سے ن لیگی نظریات کے حامی سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کسی حد تک اس کو '' کنفیوژن " کہا جا سکتا ہے لیکن ان خیال میں یہ کوئی پارٹی کے اندر کشمکش والی صورت حال ھرگز نہیں۔

میاں شہباز شریف چونکہ پارٹی کے صدر ہیں اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف بھی یوں ان کا سیاست کا ایک اپنا انداز ہے اور وہ سیاسی ٹکراؤ کو کم کرنے میں ہمیشہ کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت حال اسوقت بہتر ہو جائے گی جب نواز، شہباز بالمشافہ ملاقات ہو گی۔ اس سے پارٹی کی سمت بھی متعین ہو جائے گی کیونکہ اگر دیکھا جائے تو یہ کنفیوژن اس وجہ سے بھی آئی ہے جب اگلا سیاسی لائحہ عمل ابھی سامنے نہیں ہے۔ آیا پی ڈی ایم کی سیاست چلے گی یا ن لیگ پارلیمانی سیاست پر انحصار کرے گی۔
ن لیگ میں یہ دوراہا صورت حال پہلے بھی رہی ہے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے انداز میں متحرک ہیں اور اس سے نقصان کا اندیشہ بالکل بھی نہیں۔

جبکہ قومی سطح کے غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ نے اپنی پوزیشن بدل لی ہے یا پوزیشن بدلنے سے پہلے والی صورت حال کا شکار ہے، کیونکہ ابھی وہ بھی '' دیکھو اور انتظار "کی پالیسی پر ھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اپنے آپ کو فلسطین اور کورونا معاملات پر متحرک کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ابھی کوئی فیصلہ کن پوزیشن لینے کی جلدی دکھائی نہیں دے رہی ھے۔

شہباز شریف کے حوالے سے کہنا ھے کہ بہرحال ان کے باہر آنے سے مجموعی طور پر لیگی رہنماؤں کے بات کرنے کے انداز میں تبدیلی آئی ہے اور سب اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی واضع پالیسی مرتب ہو تو تب ہی پارٹی کی اگلی پوزیشن واضع ہو گی یوں اسوقت تک اس طرح کے بیانات دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334551 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More