ملک کا بھیانک منظرنامہ اور حکومت کی نااہلی

 ہمارا ملک بھارت جو کبھی امن و امان ،آپسی پیار و محبت ، اخوت، دوستی اور یکجہتی کا گہوارہ رہا ہے ۔ وہ ملک گزشتہ پانچ چھہ سال سے فرقہ واریت، ظلم و تشدد، عدم رواداری، خوف و دہشت کے سائے میں جی رہا ہے ۔ ہر طرف انتشار ، سراسیمگی،بے چینی اور بے قراری کی مسموم فضا چھائی ہوئی ہے ۔ بڑے بڑے دعٰوں اور وعدوں کے ساتھ این ڈی اے کی نئی حکومت سامنے آئی ۔ لیکن سارے دعٰوے اور وعدے کھوکھلے نکلے ۔عوام کی بنیادی ضرورتوں اور مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ حکومت اپنے خاص مشن میں پوری طرح مشغول رہی ۔ ان ہی سب لاپرواہی اور لاتعلقی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک بہت ہی مشکل حالات سے گزر رہا ہے ۔ اس وقت کورونا ہر شہر، گاؤں اور قصبہ میں قہر ڈھا رہا ہے ۔ہر طرف لاشیں ہیں ، روتے بلکتے لوگ ہیں، آہ و بکا ہے ، چیخ و پکار ہے ․․․․․․ گھر کا گھر اجڑ گیا ، کسی کی ماں ، کسی کی بہن ،کسی کا باپ ، کسی کا شوہر اور کسی کا بیٹا دیکھتے دیکھتے حکومت کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت کے شکار ہو کر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں ۔ جن گھروں میں کبھی خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ایسے ہزاروں گھر ماتم کدہ بن گئے ہیں ۔ شمشان آتش فشاں بنے ہوئے ہیں قبرستان چھوٹے پڑ گئے ہیں ۔ انسانی لاشیں ندی ،نالوں میں سڑ رہی ہیں اور ان سڑتی تیرتی انسانی لاشوں کو چیل ،کتّے کوّے نوچ رہے ہیں ۔ ان ہی انسانوں کے ووٹوں سے مخملی کرسیوں پر بیٹھنے والے نام نہاد رہنمأ جھوٹ اور فریب کے رنگ برنگے بیلون، شمشان کے شعلوں اور سڑتی گلتی لاشوں کے تعفن سے مکدر فضا وں میں لہرا رہے ہیں ۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ گزشتہ سال کورونا ایک عالمی وبا بن سامنے آئی تھی ۔ جس میں بہت سارے ممالک میں بہت بڑی تعداد میں انسانی جانیں تلف ہوئیں ۔ اس مہلک وبا سے متاثر ہونے والا سر فہرست ملک امریکہ رہا ،جو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ملک تصّور کیا جاتا ہے۔ تمام تر سائنسی اور نئی ٹکنالوجی میں اہم مقام رکھنے کے باوجود کورونا کی وباسے متاثر ملک امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی نا عاقبت اندیشی اور لاپرواہی کے باعث اوّل مقام پر رہا ۔ لیکن ٹرمپ کے جاتے ہی اس وباسے اپنے عوام کو نجات دینے کی عملی اور بہت سنجیدہ کوششیں جنگی پیمانے پر جو بائڈن نے کی ۔ اس کا بے حد مثبت نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ کورونا کو شکست دینے میں تقریباََ کامیاب ہے اور امریکہ میں زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آتی نظر آ رہی ہے ۔ یہی حال کئی دوسرے ممالک میں بھی ہے،جہاں بھی حکومت کی نگاہ میں انسانی زندگی کی اہمیت سمجھی گئی اور ان کا تحفظ ملک کے سربراہوں کے لئے ترجیہات میں رہیں،وہاں اس وبا پر قابو پانے میں کامیابی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک بھارت کے سربراہ کی نگاہ میں عوامی فلاح و بہبود لئے کبھی بھی فکر مندی نہیں دیکھی گئی ۔ بس جھوٹ اور صرف جھوٹ کے خوبصورت کھلونوں سے بہلانے اور سبز باغ دکھانے میں ہی زیادہ مشغول نظر آئے ۔بس دولت کا انبار لگانے ، پورے ملک کی تمام ریاستوں پر جائز اور ناجائز قبضہ کرنے ، ہندو مسلم کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اپنے چند بہت ہی خاص صنعت کاروں کی تجوریوں کو بھرنے میں اپنی پوری طاقت و مشنری لگا دی اور افسوس کہ ان سب منفی غیر جمہوری و غیر انسانی کوششوں کو زر خرید گودی میڈیا ملک کے عوام کومثبت بتا بتا کر ورغلاتا رہتا ہے ۔

ملک کے اندر پھیلنے والی کورونا کی وبا پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ گزشتہ سال کے جنوری ماہ میں کورانا نے دستک دے دی تھی ۔ اسی وقت اگر WHO اورملکی و غیر ملکی سائنسدانوں ، وبائی امراض کے ماہرین اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دئے جانے والے انتباہ پر ملک کے عوام کے مفاد کو ترجیح سنجیدگی سے توجہ دی جاتی تو شاید کووڈ کی پہلی لہر میں جتنی انسانوں کی اموات ہوئیں ،وہ نہ ہوتیں اور نہ ہی ملک کی معیشت اور معاشرت اس قدر تباہ و برباد ہوتی۔ ملک کے بے پناہ ہوتے غریب و مزدور طبقہ پناہ ڈھونڈنے اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے جس طرح اپنی بیوی بچوں و خاندان کے دیگر افرادکے ساتھ سینکڑوں میل کے اندھے سفر پر نکلے اور ٹرکوں ، ریل گاڑی اور بھوک و پیاس کی شدت سے اپنی جان گنوائی۔جسے دیکھ کر پوری دنیا میں افسوس کا اظہار کیا گیا اور حکومت کی ناکامیوں کا تمسخر اڑایا گیا ۔لیکن ان انسانی مسائل سے زیادہ ملک کے سربراہ کواپنی ذاتی امیج بنانے کی فکررہی۔ ہر انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنے مفاد پرست، مغرور ، سیاسی بصیرت سے خالی اور ناعاقبت اندیش دوست ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے لئے راستہ ہموار کرنے کی خاطر گجرات میں 24-25) فروری 20 ء )خیر مقدمی تقریب کا اہتمام کو اولّیت اور اہمیت دی گئی ۔ایک سو کروڑ کی خیر مقدمی تقریب اور لاکھوں کی بھیڑ بھاڑ کی شرکت ہوئی ،جس میں امریکہ اور دیگر کئی ممالک سے لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا ، جبکہ اس وقت تک کئی ممالک عام پسنجر فلائٹس کو منسوخ کر چکے تھے ۔ لیکن انڈیا میں مسلسل لوگ آتے جاتے ہے اور کورونا کو یہاں پھیلاتے رہے ۔ ٹرمپ کی واپسی کے بعد حکومت کے سربراہ کو کووڈ کنٹرول کرنے سے زیادہ فکر مدھیہ پردیش میں کی کانگریس کی حکومت گرانے اور اپنی حکومت قائم کرنے کی تھی، ساتھ ہی ساتھ دلّی کی شکست کا بدلہ لینے اوردلّی کے مسلمانوں کوسبق سکھانے کے لئے فرقہ وارانہ فساد کو بھی ضروری سمجھا گیا ۔ بی جے پی کے لوگ کھلم کھلّا’ دیش کے غدّاروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ کے نعروں کے درمیان مسلمانوں کوگولی مارتے رہے ان کی املاک کو خاکستر کرتے رہے۔ ان سب سے جب اطمینان ہو گیا،تب ملک میں تیزی سے اپنے پیر جما چکے کورونا وبا پر دھیان گیا اور اچانک ٹی وی پر صاحب نمودار ہوئے اور بغیر سوچے سمجھے ، بغیر کسی منصوبہ اور کسی سے مشور لئے بغیر نوٹ بندی کی طرح ’ملک بندی‘ کا اعلان کر دیا ۔ اس اچانک ملک بندی کے نتیجے میں ملک کے لوگوں نے جس طرح خمیازہ بھگتا ۔ وہ سب الگ خون کے آنسو رُلانے والی داستان ہے ۔ ٹھیک اسی طرح دوسری لہر ، حالانکہ میرا خیال ہے کہ پہلی لہر کچھ کم ہوئی تھی ختم کہاں ہوئی تھی ۔ پھر بھی دوسری لہر ہی مان لیا جائے تو پہلی لہر اور دوسری لہر کے درمیان ایک سال کا وقفہ ملا ۔ لیکن اس مدّت میں کووڈ سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے یا انھیں طبی سہولیات مہیا کرانے کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آئی ۔ بلکہ جب دوسری لہر کی دستک تیز ہونے لگی تو اس وقت دیگر کئی ریاستوں کے ساتھ بنگال میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے آٹھ آٹھ مرحلوں میں انتخاب کرانے ، خود اور اپنے رفقأ کے ساتھ بنگال میں گھوم گھوم کرمسلسل انتخابی ریلیوں کو ضروری سمجھا گیا ۔ سرکاری اشتہار دے کر لاکھوں لاکھ افراد کو کمبھ میلہ میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔راہل گاندھی ، سونیا گاندھی ، من موہن سنگھ ، بعض دیگر رہنماوں اور ذرائع ابلاغ ، اقوام متحدہ ،آل انڈیا میڈیکل ایسوسیئشن وغیرہ کی بار بار کورانا کی سونامی لہر پر قابو پانے کے لئے طبی سہولیات مہیا کرانے کی گزارشات کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا اور پوری طرح انھیں نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا کہ لوگ ملک کے عوام کو خوف زدہ کر رہے ہیں ۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ نریندر مودی نے ورلڈ اکنامک فورم پر اپنی پیٹھ خود تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ ہم نے کورونا پر پر اس حد قابو پا لیا ہے کہ ہم اپنے ملک کے سائنسدانوں کے ذریعہ تیار کردہ ویکسن کو سینکڑوں ملکوں میں بھیج کر ان کی مدد کرنے کے اہل ہوگئے ہیں ۔ یعنی اب ہم ’وشو گرو ‘ ہو گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی وشو گرو بننے کی ناکام کوشش میں ملک کے سائنسدانوں کے تیار کردہ کوروناویکسن میں سے 6کروڑ60 لاکھ ویکسن بیرون ممالک میں بھیج یا بیچ دیا گیا اور اپنے ملک کے عوام کے لئے 5 کروڑ 40 لاکھ ویکسن رکھ کر اپنے ملک کے عوام پر احسان عظیم کیا ۔

ادھر اپنے ملک میں کووڈ نے پوری طرح پاؤں پسار لیا، ہر چہار جانب اس مہلک وبا سے لوگ تیزی سے متاثر ہونے لگے اور طبّی سہولیات وآلات کی عدم فراہمی کے باعث لوگ سڑکوں پر، اسپتالوں میں ، گھروں میں تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ ایمبولینس ،اسپتال ، بیڈ ، وینٹی لیٹر وغیرہ ملک کی آبادی کے تناسب میں ندارد ہیں ۔ ویکسن کے لئے بار بار جھوٹا اعلان کیا جارہا ہے اور جھوٹے اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں ۔ویکسن کی عدم فراہمی کا اندازہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودریا کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ وکیسن کی کمی کے باعث دہلی کے تقریاََ سو ویکسن مراکز کو بند کرنا پڑا ہے۔ ایسی ہی صورت حال ملک کی بیشتر ریاستوں میں ہے۔ اموات کا سلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ بہار کے مظفرپور میں 24 گھنٹے میں 50 لوگوں کی قیمتی جان چلی گئی ۔ ہر روز ملک میں اموات چار ہزار سے تجاوز کر چکا ہے ۔ گجرات میں مرنے والوں کا سرکاری اعدادد و شمار اس کووڈ کی مدت میں چار ہزار کے آس پاس بتایا گیاہے لیکن ریاست سے جو اس مدّت میں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کئے گئے ہیں وہ ایک لاکھ تئیس ہزار کی تعداد میں ہے۔ ملک میں ہر طرف موت کا بھیانک منظر نامہ ہے ۔ افسوسناک اور شرمناک منظر نامہ یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بے پناہی اور بے بسی کے عالم میں مرنے والوں کو ان کی آخری مذہبی رسومات بھی نہیں ہوپا رہی ہیں ۔ اتنی زیادہ اموات کا سلسلہ ہے کہ شمسان اور قبرستان بھی تنگ پڑ گئے ہیں۔ جس وجہ کر بڑی بے دردی اور بے حرمتی کے ساتھ انسانی لا شوں کو جل سمادھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اتر پردیش اور بہار کی ندیوں نالوں میں سو دو سو نہیں دو ہزار سے زائد انسانی لاشیں بکھری ہوئی ہیں ۔ جنھیں کتّے کوّے نوچ کھسوٹ رہے ہیں ۔ ایسے بھیانک منظر کو دیکھ کر انسانی سر شرم سے جھک جا رہا ہے کہ آج ہماری حکومت میں اتنی بھی مذہبی اور انسانی رواداری نہیں ہے کہ بے بسی اور بے پناہی کے عالم میں دواؤں اور آکسیجن کی کمی سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی آخری رسومات بھی نہ ہو سکے ۔ان سب حالات کے پیش نظر عالمی سطح پر جس طرح کے بیانات ، مضامین و اداریئے مختلف اخبارات و رسائل میں سامنے آ رہے ہیں ، وہ ملک کی حکومت اور سربراہ کی ناکامیوں اور بے توجہی کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہیں ۔ انڈین میڈیکل ایسوسیئشن نے بھی اپنے ایک خط میں الزام عائد کیا ہے کہ اس کے اراکین کی تجاویز کو کوڑے دان میں ڈال دیا گیا اور کورونا وائرس سے متعلق فیصلے زمینی حقائق کو سمجھے بغیر لئے جا رہے ہیں ۔ معروف وائرولوجسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل نے بھی بد دل ہو کر کورونا ایڈوائزری گروپ سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ بس زر خرید گودی میڈیا اپنی تمام تر صحافتی دیانتداری اور ذمّہ داریوں کو طاق پر رکھتے ہوئے حکومت کو ان تمام تر کمیوں ،خامیوں اور مجرمانہ غفلت کا ذمّہ دار قرار دینے کی بجائے سسٹم کو مورد الزام قرار دے رہا ہے، جبکہ انھیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ سسٹم حکومت کے منصوبہ اور احکامات کے طابع ہوتا ہے۔ گودی میڈیا بتائے کہ ملک کے عوام کی طبی سہولیات و آلات کے لئے گزشتہ سال کی کورونا وبا کی ہلاکتوں اور تباہ و برباد ہوتی معیشت کو دیکھنے کے بعد بھی کتنا بجٹ مختص کیا گیا تھا ۔دنیا کا مشہور میڈیکل جریدہ ’لانسیٹ ‘نے اپنے 8 مئی کے اداریہ میں نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بہت ساری باتوں کے ساتھ لکھا ہے کہ’ مودی کے ذریعہ اپنی تنقید اور کھلی بحث کو دبانے کی کوشش معافی کے لائق نہیں ہے‘۔یہ بات ممکن ہے اس لئے عالمی سطح پر محسوس کی گئی کہ حکومت کی ناکامیوں اور کوتاہیوں پر تنقید کرنے والے کو ’دیش دروہی ‘ قراردینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی جاتی ہے ۔ ابھی ابھی دہلی میں ’ میرے بچّوں کے حصے کا ویکسن ودیش کیوں بھیج دیا ‘ جیسے پوسٹر سوال پر پچیسوں نوجوانوں کو گرفتا کیا گیا اور ان پر ایف آئی آر درج کیا گیا ۔ یوگی تو پہلے ہی سے اپنی ریاست کے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ، بات بات پر ان سے سوال کرنے والوں کی جائداد ہی ضبط کر لینے کی دھمکی دیتے ہیں ۔ اس کورونا وبا کے درمیان جب ریاست میں آکسیجن کے لئے ہاہاکار مچی اور اس کی کمی سے لوگ تڑپ تڑپ کر کر مرنے لگے تو یوگی کا فرمان جاری ہوا کہ جو کوئی آکسیجن کی کمی پر سوال اٹھائے گا ان کی جائداد ضبط کر لی جائے گی ،یعنی ناکامیوں پر بھی لوگ واہ واہ کرو اور تالیاں بجاو۔ بہار میں ایمبولینس کی شدت سے ہو رہی کمی کی وجہ کر مریضوں اور لاشوں کو کوڑا گاڑی، رکشہ، ٹھیلہ اور ٹیمپو پر لے جاتے دیکھا گیا ۔ سابق ممبر پارلیامنٹ اور جاپ کے رہنما ٔ پپو یادونے بی جے پی کے ممبر پارلیامنٹ راجیو پرتاپ روڑھی کے ذریعہ رفاہ عام کے نام پرایم پی فنڈ سے خریدے گئے پچاسوں ایمبولینس کو خود روڈھی کے ذریعہ اپنے گھر امنور میں چوری چھپائے بیٹھے نیز دربھنگہ میڈیکل کالج اسپتال کے احاطہ میں درجنوں ہائی ٹیک سپورٹ سسٹم والے نئے ایمبولینس،جن میں ایک ایک ایمبولنس کی قیمت 32 لاکھ ہے ،کو سڑتے ہوئے، عوام کو دکھائے جانے کی پاداش میں انھیں گرفتار کرجیل میں ڈال دیا گیا ۔ یہ گرفتاری اس لئے بھی ہوئی کہ پپو یادو جگہ جگہ گھوم کر اپنی جانب سے پریشان حال لوگوں کی مدد کر رہے تھے ۔ یہی حال ابھی دلّی میں بھی دیکھنے کو ملا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر بعض ریاستوں کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے ملک میں طبّی سہولیات کی سخت کمی، حکومت کی صحت عامّہ کے تئیں مجرمانہ غفلت او رہر شہر میں اموات کی بڑھتی تعداد پر خود نوٹس نہ لی ہوتی اور سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے یہ نہ کہا ہوتا کہ مرکزی حکومت اندھی ہو سکتی ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے ،تو شاید حکومت پوری طرح سوئی ہی رہتی اور ملک کی دواؤں اور دیگر طبی آلات و سہولیات کو ملک سے باہر بھیجنے (بیچنے) کا سلسلہ جاری ہی رہتا ۔ سپریم کورٹ نے تو حکومت کی شدید ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے کورونا سے متاثرین کو طبّی سہولیات فراہم کرنے اور ان پر نگاہ رکھنے کے لئے ماہرین کی کمیٹی بنا دی ہے، جو حکومت کو مشورے دینے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو حالات سے مطلع کرتی رہے گی۔ سپریم کورٹ کے اس حکم نامہ نے در حقیقت مرکزی حکومت کی ناکامی اور نا اہلی پر قانونی مہر لگا دی ہے ۔ بھارت میں ہلاکتوں کا سلسلہ دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ، امریکہ، فرانس،جرمنی، انگلینڈ،سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات،سنگا پور،تھائی لینڈ،روس، کناڈا،وغیرہ سے کورونا وبا کو شکست دینے کے لئے طبیّ اشیأ اور خطیر رقم بھیجی جا رہی ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کوروناپر قابو پانے اور ملک کی معیشت اور معاشرت کو پٹری پر لانے میں کافی وقت لگے گا اور وہ بھی حکومت نے سنجیدگی سے توجہ دی ، تبھی یہ ممکن ہے ۔ایک بہت ہی تشویشناک بات یہ ہے کہ کورونا جیسے مہلک مرض کے ساتھ ساتھ ایک نئی خطرناک بیماری ’بلیک فنگس‘ نے ملک کے کئی حصوں میں دستک دے دی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ بیماری زور پکڑے، حکومت کو جنگی سطح پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے ۔
٭٭٭٭٭
 
Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 122368 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More