زرعی پیداوار میں کمی کے سنگین نتائج

پاکستان گنا پیداکرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔مگرپاکستان کو اب برازیل، بھارت، تھائی لینڈ اور چین نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آم کی پیداوار میں بھی پاکستان سب سے آگے تھا ۔مگر اب بھارت، انڈونیشیا، چین اور میکسیکو نے پاکستان پر سبقت لے لی ہے۔بھارت کا پنجاب سونا اگل رہا ہے، بھارت کی تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی کی خوراک ضروریات پورا کرنے کے ساتھ برآمدات سے کثیر زرمبادلہ کمائی پنجاب کی مرہون منت ہے اورپاکستان کا پنجاب جہاں فصلیں لہلہاتی تھیں ، اب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی آماجگاہ بن رہا ہے۔ زرعی اراضی پر تعمیرات سنگین جرم کے زمرے میں آنا چاہیئے ،مگردھڑلے سے تعمیرات جاری ہیں اور حکومت مستقبل سے بے خبر تماشا دیکھ رہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت آئندہ بجٹ میں 110 ارب روپے کے زرعی اصلاحات پر مبنی پیکج بھی متعارف کرے تو اس کا کیا فائدہ ہو گا۔عمران خان حکومت آئیندہ 3 سال میں فصلوں کی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافے کے لیے قرضے میں 80 فیصد یا 27 کھرب روپے تک کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ وزیر اعظم ٹاسک فورس برائے زراعت جمشید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس میں جو کہا گیا وہ محض سیاست ہی ہے جیسے کہ کسان کارڈ۔جمشید اقبال چیمہ کے مطابق وفاقی حکومت آنے والے بجٹ میں پہلے سال کے لیے تقریباً 25-30 ارب روپے مختص کرے گی۔ اس پیکج میں چار اہم عناصر ہوں گے جن میں لائیو اسٹاک کی بہتر افزائش کے لیے 3 برس میں 40 ارب روپے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ دوسرا عنصر نائٹروجن اور فاسفورک کھادوں کی 4 کروڑ بیگ پر ہزار روپے فی بیگ امداد فراہم کی جائے گی اور اس پیکج کا ججم 40 ارب روپیرکھا گیا ہے اور اس میں تین بڑی فصلوں یعنی گندم، چاول اور مکئی کا احاطہ ہوگا۔
حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ گندم اور چاول کی پیداوار میں بھارت کا پنجاب دنیا میں سب سے زیادہ پیداواری خطہ کیسے بن گیا ہے۔ چیمہ صاحب اپنی پیکج کا تیسرا پہلو 30 ارب پر مشتمل تین سالہ پیکج قرار دیتے ہیں جو مونگ، آلو اور پھلیاں سمیت دیگر اجناس کی 3 ماہ کی پختگی کی مدت کے ساتھ فصلوں کی تعداد کو موجودہ ڈیڑھ سال سے ڈھائی سال تک بڑھائی جائے گی۔وہ آئیندہ 2 برس میں زراعت کا کریڈٹ رواں سال کے 15 کھرب سے بڑھا کر 27 کھرب ارب روپے کردیا جائے گا جوکہ دو سال پہلے تقریباً 900 ارب روپے تھا۔جمشیجب کہ عالمی بینک کے تخمینے سے معلوم ہوتا ہے کہ زراعت میں سرمایہ کاری نے غربت میں کمی کو کسی بھی دوسرے شعبے سے 4 گنا زیادہ متاثر کیا ہے۔حکومت کا اعتراف ہے کہ رواں سال زراعت کے شعبے سے دیہی معیشت میں تقریباً 11 کھرب روپے اضافی آمدنی ہوئی ، پھر زراعت کو نظر انداز کرنے کی کیا وجوہات ہیں۔ زراعت کے قدیم طریقوں پر انحصارسے کمرشل بنیادوں پر زراعت میں حصہ نہیں لیا جا سکتا اور چند فصلوں پر توجہ دینے سے مسلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔سب یہ مانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ملک نہ صرف کھانے میں بلکہ کیلوری کی مقدار میں بھی کمی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں انسانی دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں زرعی پیداوار دگنی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے وہ زرعی شعبے کی سربراہی خود کرنے گا اور ہر ہفتے نئے اقدام کی تفصیلات ٹائم فریم کے ساتھ فراہم کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ملتان میں کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا ء کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم جو کہا، اس پر عمل کب ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے ،اسے جتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔وہ سمجھتے ہیں کہ کسان کارڈ پاکستان کو تبدیل کردے گا اور جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی طرف جاتے رہیں گے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔پی ٹی آئی کے دور میں کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 500 روپے کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس 500 ارب روپیہ آیا۔مگر ملک پیداوار میں خود کفالت کی جانب کب سفر شروع کرے گا۔اگر کسانوں کو ملنے والی گندم، مونگی، مکئی اور دودھ کی قیمت سے کسانوں کے پاس اضافی 11 سو ارب روپے گئے ہیں، تو ملک تخفیف غربت کے ہدف کی جانب کیوں نہ بڑھ سکا ہے۔حکومت کا فیسلہ ہے کہ کسان کارڈ پر ایک ہزار کی ڈی ایل پی پر سبسڈی دی جائے گی جس میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی ملے گی۔ کسان کارڈ کے ذریعے قرضے دینے اور قدرتی آفات کے سبب فصل تباہ ہونے پر کارڈ کے ذریعے مدد کرنے کا پروگرام احسن قدم ہے۔حکومت نے آبپاشی کے لئے بڑے ڈیمز تعمیر کرنے پر کوئی توجہ نہ دی کہ جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے، چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی تعمیر کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی۔موجودہ حکومت کے 30 ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200 ارب روپے نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، زراعت کو سی پیک میں شامل کیا گیاہے ۔ چین میں پاکستان سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ چین چاول، گندم، مکئی، ٹماٹر، پیاز، گاجر، مولی، آلو، دالیں، سبزیاں پیدا کرنے و الاسب سے بڑا ملک ہے۔ ا س لئے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے بہترین زرعی تحقیقاتی ادارے توجہ نہ ملنے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ تعجب ہے کہ پاکستان دال، تیل کے بیج، سویابین، اسپغول باہر سے درآمدہو رہے ہیں۔عمران خان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں زیادہ تر علاقہ پیداوار کے لیے موافق درجہ حرارت یعنی 15 سے 38 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر چیز اگا سکتے ہیں، ہم اﷲ کی نعمتوں کا بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی چیز درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کے نقصانات 50 فیصد ہیں۔ اناج میں ہونے والے نقصانات 20 فیصد ہیں، اگر نصف پھل اور سبزیاں ضائع نہ ہوں تو سستا پھل اور سبزیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔

اسلام آباد ہریالی کے لئے معروف ہے ۔ مگر ہم نے یہاں دیدہ زیب،ایور گرین پیر پودے لگائے ہیں۔ یہاں پھلدار درخت لگا دیئے جائیں تو نسف پاکستان کی پھل ، سبزیوں کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ ملک میں اسٹوریج اور فوڈ پروسیسنگ پلانٹ تیار ہو تو پھل، سبزیوں کے گل سڑ جانے کے نقصانات سے بچاجا سکتا ہے۔یہ بھی تعجب ہے کہ ملک میں کھادتیار کرنے کے لیے پوٹاشیئم اور فاسفیٹ درآمد کی جاتی ہیں جب کہ یہ دونوں پاکستان میں موجود ہیں۔ میانوالی اور کالا باغ میں 6 ارب ٹن پوٹاشیئم، ہزارہ میں 27 ملین ٹن فاسفیٹ ہے۔مگر ہم اپنی ضرورت خود پوری کرنے کے صرف اعلانات اور دعوے کرتے ہیں۔حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ زراعت انسانی بقا کی بنیادی ضرورت ہے اور دنیا کے کئی ممالک خوراک کے خطرے سے دو چار ہیں ۔ زراعت کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری ہو تو زرعی پیداوار اور غذائی اجناس کی فراہمی ہو سکتی ہے۔ چین کی بنائی گئی گرین لینڈ بڑی مثال ہے۔ زرعی اور غذائی اجناس کی مناسب قیمت کو یقینی بنانے پر توجہ دی جائے۔ مارکیٹ اجارہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں سے متاثر ہو رہے ہیں، کسانوں کو کارپوریشن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار کے لیے نئی زرعی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے، پانی اور زمین کے سود مند استعمال کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ زراعت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر معاشی شعبوں کی طرح نہایت اہم ہے، دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ کی فراہمی کو یقینی بنانا عالمی سطح پر سپلائی چین کو مستحکم کرنے کے لیے اہم ہوگا۔ جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں آلودگی کو ختم کرنے سے خطرناک کیمکلز کے بجائے کم پانی سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ کووڈ-19 اور ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے پاکستان کی زراعت کو بڑا نقصان پہنچا ۔ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت زرعی اصلاحات شامل کی گئی ہیں۔مگر سارے معاملے کی اصل جڑ ہے وہ لوگ ہیں جو زراعت کی ترقی کے لیے مامور ہیں، جائزہ لیا جا نا چاہیئے کہ ان کا زراعت کی ترقی میں کیا کردار رہا ہے۔محکمہ زراعت کے زیادہ تر افسران و ملازمین کیا کر رہے ہیں۔نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) اور ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کیا کر رہا ہے۔جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ برسوں میں ان اداروں نے کیا کام کیا۔ محکمہ زراعت و توسیع (ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ) کا یہ کام ہے کہ جو بھی جدید ریسرچ ہو اس کوکسان تک پہنچایا جائے۔ یہ محکمہ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ اور کسان کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے لیکن عملی طور پر اس شعبے کا کام ٹھپ پڑا ہے۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل سبزی کا ایک بھی ہائیبرڈ بیج بھی نہیں دے سکی ہے۔ الٹا یہ پرائیوٹ اداروں سے بیج مانگتے ہیں اور ان افسران کی اپنی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں۔ ان کی جیپیں، ان کے پیٹرول اور ادارے کے اپنے تمام اخراجات بے شمار ہیں۔ جتنے فنڈز اس ادارے کو ملتے ہیں، اگر اس میں سے دس فیصد بھی یہ ریسرچ پر خرچ کرنا شروع کر دیں، تو شاید ادارے کی شکل و صورت بہتر ہو جائے۔اس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے لئے تعلیم کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ سینکڑوں لوگ غیر قانونی طریقے سے بھرتی کئے گئے، پھر عدالت کے حکم پر سب کو نکالا گیا۔ پھر ان کو دوبارہ بھرتی کیا گیا، پھر دوبارہ نکالا گیا، یعنی کئی دفعہ ان کو نکالا جاتا رہا ہے، کئی بار ان کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔اگر ایک زرعی سائنسدان یا ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ کسان تک معلومات نہیں پہنچاتا، کسان کی رہنمائی نہیں کرتا تو اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔حکومت اگر فوری طور پر ز رعی پالیسی نہیں بناتی ، ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں بیوروکریٹس کے بجائے ٹیکنو کریٹس کو نہیں بٹھایا جاتا تو اس کے دعوے اور وعدے کبھی وفا نہ ہوں گے۔ حکومت کامیاب کاشتکاروں سے راہنمائی لے کہ زرعی پالیسی کیسے بنانی ہے۔زرعی پالیسی تب تک کامیاب نہیں ہو گی جب تک اس میں ان لوگوں کی رائے شامل نہ ہو جن سے متعلق پالیسی بنائی جارہی ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے اور ترقی کے لئے تجربہ کار کاشتکاروں کا پالیسی سازی میں شامل ہونا لازمی ہے۔ملکی زرعی پیداوار بڑھانی ہے تو خانہ پری کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ تا کہ ملک خود کفیل بن سکے۔ زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے تو پھر زرعی اراضی پر تعمیرات پر سخت پابندی لگ سکتی ہے۔ سدا بہار پیڑ پودے لگانے کے ساتھ پھلدار درخت لگائے جائیں تو میوہ جات سستے داموں دستیاب ہوں گے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483913 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More