تو پھر پچھلے کچھ چھ سات سال سے ہزاروں عورتوں کی طرح وہ
بھی اپنی مرضی سے ایک بناوٹی زندگی گزار رہی تھی ۔ اور یہ تو نہیں کہہ سکتے
کہ وہ خوش تھی ۔کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے کیا لیا ضروری ہے ؟ اس میں خوش
ہونا شامل نہیں ہے ۔پر اس زندگی میں اس کی رضا شامل تھی ۔
وہ جو صبح ناشتے میں توے سے اترا پہلا پراٹھا ہی کھاتی تھی ۔اگر پہلا نہیں
ملے تو گھر کا ہر فرد جانتا تھا کہ پھر وہ چپ چاپ چائے کا کپ پی کر اُٹھ
جاتی تھی ۔ اور گھر کا ہر فرد کوشش کرتا تھا کہ ناشتہ اس کے بعد ہی کرے ۔
وہ جو سکول میں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی تو پرائز جیتتی یا نہیں پر اس
کی تقریر کے انداز پر سب کو مزا ضرور آتا ۔ سب کو لگتا تھا اسے بات کرنا
آتا ہے ۔
اب اسے اپنے اندازِ گفتگو پر خود شک تھا ۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود وہ
کسی کو اپنا نہیں بنا سکی تھی ۔ یقیناً کمی اسی میں ہوگی ۔ اب وہ اکثر چپ
رہتی تھی ۔ اپنی حالات زندگی یا یوں کہہ لیں کہ زندگی میں اپنی اوقات
دیکھتے ہوئے وہ مسکرانے سے بھی ڈرتی تھی پھر یہ بھی تھا کہ مسکرانے کی کوئی
وجہ بھی نہ تھی ۔
وہ سانولی سلونی سی گھنگھریلے بالوں والی عام سی لڑکی ۔ اسے یقین ہو چلا
تھا کہ وہ ایک بدصورت ، بے عقل اور بد قسمت عورت ہے ۔جو ٹھیک سے کچھ نہیں
کر سکتی اس لیے اسے چاہئے کہ جو کہا جاے وہ کرے ۔ اور اس نے وقت کا یہ
فیصلہ مان لیا جانتے ہیں کیوں ۔
مانتی بھی کیوں ناں آخر کو ایک ماں تھی ۔
|