اسرائیلی و حماس نے مصر کی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان
کردیا ، اسرائیل کے مطابق اس نے اپنی ایداف حاصل کرلئے ہیں ، جب کہ حماس کے
ساتھ جھڑپوں میں 230 فلسطینی جاں بحق ہوئے جس میں 56 بچے بھی شامل ہیں ۔اسرائیلی
جارحیت کی وجہ سے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا
پڑا۔مقبوضہ فلسطینی علاقوں (او پی ٹی) کے مشرقی یروشلم میں، شیخ جراح سے
تعلق رکھنے والے 77برس کے نبیل الکرد اور23برس کی مونا کا کہنا تھا کہ
’ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک جنگی جرم ہے، یہ صرف بے دخلی نہیں‘۔
اسرائیلی فوجیں مقبوضہ مشرقی یروشلم کے شیخ جراح محلے اور اطراف میں مقیم
فلسطینی مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، اسرائیلی
اقدامات سے جبری نقل مکانی، غیر قانونی بستیوں کا قیام اور او پی ٹی میں
تشدد سے لاتعداد فلسطینیوں کی زندگیاں تباہ ہوتی رہی ہیں۔افسوس کہ امریکہ
نے اپنے دیرینہ اتحادی کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں سے روکنے میں اثر
رسوخ استعمال نہیں کیابلکہ سلامتی کونسل میں نرم ترین قرارد کوویٹو کرنے پر
پیش پیش نظر آئے۔ یقیناََ امریکہ سمیت 25ممالک کے اسرائیل کا ساتھ دینے کے
رویئے نے مایوس کیا اوراسرائیل نے ان کا شکریہ ادا کرکے انسانیت کے زخمی
وجود پر نمک پاشی کی اور اب اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس
کا کہنا تھا کہ اسرائیل امن پسند ملک ہے ۔ اس امن پسند ملک نے جہاں میڈیا
ہاؤسز کے دفاتر کو مہندم کرکے ثابت کیا کہ اس کی فسطائی سوچ کے آگے کسی بھی
قسم کے مذمت آڑے نہیں آتی۔ امریکہ و فرانس نے اسرائیل سے میڈیا ہاؤسز کے
دفاتر مسمار کئے جانے پر تفصیلات طلب کیں لیکن اسرائیل عام شہریوں سمیت
مفاد عامہ کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا کر عالمی برداری کو چیلنج کرتارہا
کہ اُسے کوئی روک کر دکھائے، گیارہ دن وہ وحشت ناک کھیل کھیلتا رہا ۔
امت ِ مسلمہ کے مسلم اکثریتی ممالک کے روایتی و رسمی مذمتی بیانات احساس
دلاتے ہیں کہ اسلامی اتحاد کتنا کمزور ہے کہ ظالم کے ہاتھ کو روک بھی نہیں
سکتا۔ ابھی دنیا میڈیا ہاؤسز پر اسرائیلی جارحیت پر حیران تھی کہ بربریت کی
اس روش پر کیا ردعمل دیا جائے کہ امدادی سرگرمیاں انجام دینے والے بڑے
ادارے ہلال احمر کے مرکزی دفتر کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا، بتایا
جاتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں کہ جنگ کے دوران ہلال احمر کے دفاتر کو کبھی
نشانہ بنایا گیا ہو، لیکن اسرائیل نے انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے دینے کی
قسم اٹھائی ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کی مطابق اسرائیلی بمباریوں سے
کئی کثیر منزلہ عمارات تباہ ہوئی تو 57 ہزار سے زائد فلسطینی بے گھر و
سینکڑوں جاں بحق و زخمی ہوئے، جس میں آدھے سے زیادہ خواتین و بچے شامل
ہیں۔میڈیا ہاؤسز اور ہلال احمر جیسے اداروں کو نشانہ بنانا کا واحد مقصد
فلسطینیوں کی آواز کو دبانا اور امداد کی فراہمی میں رکاؤٹ پیدا کرنا ہے،
اسرائیلی بربریت نے کئی ایسے انسانیت سوز واقعات کو جنم دیا جسے دیکھ کر
روح کانپ جاتی ہے۔ سکتے میں مبتلا ایک بچے کی وائرل ویڈیو انسانی حقوق کے
نام نہاد ٹھیکداروں کو بیدار نہ کرسکی۔ انسانیت آج بھی سکتے میں ہے،
انسانیت ملبے میں دبی ہوئی تھی اور جب کئی گھنٹوں سے دبے فلسطینی کو نکالا
جارہا تھا تو اس کے فضا میں بلند ہوتے، فتح کا نشانہ بناتے ہاتھ ثابت کررہے
تھے کہ بمباریوں کے سامنے بھی عزم و جرت کا بلند ترین پہاڑ موجود ہے، جسے
کوئی استعماری طاقت مسمار نہیں کرسکتی۔
امریکی رویہ نفرتوں کا فروغ دیتا ہے کہ ایک جانب اس کا دیرینہ اتحادی
انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہو اور اُسے روکنے کے بجائے مزید جنگی اسلحہ
اسرائیل کو دیا جارہا ہو، ان حالات میں اگر امریکہ مذمت بھی کرتا ہے تو اس
کے قول و فعل میں تضاد کو، منافقت سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ غزہ میں جنگ
بندی کے بعد جشن کا سما ہے ، اس سے زیادہ کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ
دنیا بھر میں تمام مسلم اکثریتی ممالک فروعی مفادات کی وجہ سے اسرائیل کے
خلاف منظم حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ اسرائیل جیسے ملک کے خلاف احتجاج کرنا
بے سود ہی ہے کیونکہ صہونیت کے پیروکاروں کو زبان سے نہیں ہاتھ سے سمجھانا
ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم عالمی برداری میں ایمان کے کمزور ترین درجے
کے ساتھ رسمی آواز اٹھانا بھی اس وجہ سے غنیمت ہے کہ کچھ تو کررہے ہیں،
لیکن یہ بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ان رسمی احتجاجوں کا گراثر ہوتا تو
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکا جاسکتا تھا، لیکن کچھ ممالک انتہا
پسند سوچ کے ساتھ اس قدر ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کہ انہیں احتجاجوں و مظاہروں
سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ وہ ان جذباتی مظاہروں میں شریک نادان دوستوں
کی حد درجے جذباتیت کا فائدہ اٹھا کر عالمی برداری کو گمراہ کرتے ہیں اور
ان فوٹیجز کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ فرانس کے خلاف
ہونے والے مظاہروں کے مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ کیا کبھی اسرائیل کو اس کے خوف ناک عزائم پر عمل
کرنے سے روکا جاسکے گا، تو شاید اس کا جواب متفقہ ہو کہ’نہیں‘۔ تو پھر ان
حالات میں کیا ہونا چاہیے تو اس کا جواب ہمیں اسلامی تعاون تنظیم اور 41
ممالک پر مشتمل اسلامی اتحاد فوج سے درکار ہوگا کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے
لئے اسلام نے کیا حکم دیا ہے۔عام مسلمان مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان
تنازعات کی باریکیوں سے اتنا واقف نہیں ہوتا کہ وہ ان ممالک کی ’مجبوریوں‘
کو سمجھ سکیں کہ انہیں عالمی سطح پر کن مصائب کا سامنا ہوسکتا ہے، لیکن
عوام اتنا ضرور جانتی ہے کہ جب تک مسلم اکثریتی ممالک میں اتفاق نہیں
ہوگا،اسرائیل کا اچانک جنگ بندی کا اعلان کرنا دراصل اس کے دفاعی نظام کی
ناکامی تھی جس نے روایتی جنگ میں راکٹ حملوں میں شدید نقصان پہنچایا ، راکٹ
حملوں کے بعد اسرائیل کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ایک نئی جنگ کی
تیاریوں کے لئے وقفہ کرلیا ہے ، غزہ میں جشن منانے کچھ وقت اپنی تباہ حال
عمارتوں کو دوبارہ بمباری کا نشانہ بنانے کے لئے تعمیر کریں گے اور مسلم
اکثریتی ممالک اپنا راگ الاپتے رہیں گے ، جیسا کہ اقوام متحدہ کے جنرل
اسمبلی میں تقریروں کے مقابلے ہوئے اور سب کامیاب قرار پائے جس پر غزہ میں
جشن منایا جارہا ہے۔
|