تحریر سید جواد نقوی ( تحریک بیداری امت مصطفٰی )
بڑا المیہ ایام عید کے اندر اور ماہ مبارک رمضان میں خصوصاً یوم القدس سے
شروع ہوا اور ابھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے،فلسطین کے اوپر صہیونی ازم کی
یلغار ہے بہت شدت کے ساتھ ، چند دن انہوں نے مسلسل نمازیوں پر ظلم ڈھایا ،
ستم کیا اور پھر اس کے بعددائرۂ ستم بڑھاکر باقی فلسطین کے علاقو ں کی طرف
پھیلادیا خصوصاً غزا کو اپنے ظلم کی آماجگاہ بنایا اور آپ سن رہے ہیں خبروں
میں کہ ساٹھ سے زیادہ اورستر کے قریب ابھی تک شہادتیں ہوچکی ہیں اور
سینکڑوں بچے خواتین بزرگ جوان شدید مجروح ہیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے
اور اس میں شدت ہے ، یہ بہت ہی تکلیف دہ ماجرہ ہے اور زخم ہے دیرینہ
مسلمانوں کا ، اسلام کا، ہر چند ابھی پاکستانی میڈیاپہلی دفعہ اتنا توجہ کے
ساتھ فلسطین کے مسئلے کو پیش کر رہاہے،حکومت بھی دلچسپی کے ساتھ ، اس سے
پہلے عموماً اتنی دلچسپی فلسطین کی خبروں کو موضوع کو نہیں دی جاتی تھی ،
بڑی چھوٹی چھوٹی ، بڑے بڑے حادثات کو چھوٹی سی خبروں کے ساتھ گزار دیاجاتا
تھایا صرف ذکر بھی نہیں کرتے تھے ، اس دفعہ یہ توجہ بھر پور ہورہی ہے لیکن
اس توجہ میں سارارخ مذمت کا ہے ، اول تو مذمتی حد تک ہے اور مذمت کا رخ بھی
اسرائیل کے اوپر ہے باقی اس ظلم کے شرکاء جرم ، اصل بانی ، محرک ان کا کہیں
بھی ، پاکستان کے میڈیا میں ، حکومت کے بیانات میں اور باقی جو سلسلے ہیں
سیاسی اور مذہبی اس کا ذکر نہیں آتا ، اس کو فراموش کر دیتے ہیں، یہ ستم
یہاں تک پہنچا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے آیا یہ فلسطین پریہ آخری حملہ
ہے ، ستر سال سے یہی روز، ہر روز فلسطینی یہ دن دیکھ رہے ہیں اور جو مقابلے
میں مذمتی لوگ ہیں وہ اسرائیل کی اور ان اسرائیلی قاتلوں کی مذمت کرکے
سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیاہے، جس سے اسرائیل کو دوبارہ
موقع ملتا ہے اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ فلسطینیوں پر ظلم کرتا ہے اور
اب تو اس نے یلغار کا دائرہ بڑھاکر سوریا، لبنان ،ایران اور ان ممالک تک
بھی بڑھا دیاہے اور ہرروز کاروائیاں کر رہاہے ، اس میں صہیونی تو مسلم ہیں
کہ وہ جنایت کار ہیں، انسانیت دشمن ہیں ،وہ اسلام دشمن ہیں ، یہ دشمن
خونخوار ، یہ بھیڑیا تیار کس نے کیا ہے، ان کے ساتھ دوستی ہے سارے مسلمانوں
کی ، پاکستان سمیت ، یہ برطانیہ کا لگایا ہوا شجرۂ خبیثہ ہے اور امریکہ نے
اس کو پرورش کی ہے اور ابھی تک کھل کے ڈھٹائی کے ساتھ ، ہرامریکی صدر ،ہر
دور میں آکر ، کھل کے اور بلا قید و شرط اس کی حمایت کرتے ہیں، اسرائیل جو
کرے اس کی حمایت کرتے ہیں، خصوصاً ٹرمپ نے جس حد تک اس کی حمایت کی ، کسی
اسلامی ملک نے ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔عید کا موقع
تھا مگر یہ خوشی بہت سے دکھوں سے بھری ہوئی تھی۔سب سے بڑا غم جو امت مسلمہ
کے لئے ہے صیہونی درندوں کا غزہ کے اوپر ظلم کی ایک نئی لہر کا ایجاد کرنا
ہے۔جہاں بہت قتل عام ہو رہا ہے اور باقی ساری دنیااس ظلم پر تماشائی بنی
ہوئی ہے۔ایک طرف اتنی شدت اور دوسری طرف لاتعلقی۔ سلامتی کونسل کااجلاس
بلایا گیا لیکن امریکہ نے منع کردیا جب بھی کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے امریکہ
وہ کام نہیں ہونے دیتا۔ابھی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا ہے جس کا سربراہ
سعودی عرب ہے اور وہ بھی صدور مملکت کا نہیں بلکہ وزرائے خارجہ کی سطح پر ،جو
پہلے غزہ میں ہورہا تھا وہ اب عرب ممالک کے تعاون سے ہو رہا ہے اور جو ابھی
ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر انہی کی ایما پر ہو رہا ہے۔ابھی یہ امریکہ نے ایک
پورا اسلحے کا ذخیرہ اسرائیل کی طرف بھیجا ہے۔مختلف اسلامی ممالک ہیں کہ جن
کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں لیکن کسی ملک نے بھی ایک سپاہی بھیجنے
کا اشارہ تک بھی نہیں کیا۔39 ممالک کی فوج جسکا سربراہ پاکستان سے ہے بنا
کر رکھی ہوئی ہے۔ یہ بے غیرتی کی فوج ان ممالک نے بنا کر رکھی ہوئی ہے۔اور
خود ان ممالک نے صرف بیانات ہی دیے ہیں اردگان ٹیلی فون کر دیتا ہے باقی اس
کو ٹیلی فون کر دیتے ہیں، جیسے اسرائیل زبانی گولا باری کر رہا ہو۔مذمتوں
سے تو اسرائیل کا خاتمہ نہیں ہوگا۔اگر یہ سب ایک ایک دستہ بھی روانہ کر
دیتے تو یہ سلسلہ رک جاتا۔پچھلے سالوں میں جب 2006 میں یہی ماحول بنا تھا
تو حزب اﷲ نے ان کا ایک فوجی اغوا کرکے ساری جنگ کا رخ اپنی طرف کر دیا۔اور
وہ جنگ جیت لی۔پھر انہوں نے سوریا کا محاذ کھول دیا ہے ان عربوں کی خیانت
کے ساتھ یہ میدان مقتل میں تبدیل ہو گیا ہے۔سب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات
ہیں دوستیاں ہیں لین دین ہے۔اور سب کے امریکہ کے ساتھ بھی جسکو انہوں نے
کچھ بھی نہیں کہا۔ انہوں نے نہیں سنا کہ جو بائیڈن نے جو کہا ہے کہ اسرائیل
جو بھی کر رہا ہے یہ اس کا حق ہے۔جس پر کسی نے بھی امریکہ کو کچھ نہیں کہا
اگر یہ منافق نہ ہوتے تو یہ سب اتنا دردناک نہ ہوتا۔ منافقت سے یہ مسئلہ
یہاں تک آیا ہے۔فلسطین نے الحمدﷲ اس سے پہلے کبھی اتنی مقاومت نہیں دیکھائی
مگر ابھی سولہ سو میزائل راکٹ اسرائیل کو مار چکے ہیں جن میں سے بہت سارے
اسرائیل کے ٹھکانوں پر جاکر لگے اور کئی انہوں نے روک لیے ہیں۔اور اس کی
دلیل یہ ہے کہ جب سے یہ کاروائی شروع ہوئی ہے سارے اسرائیلی پناہ گاہوں میں
ہیں گھروں میں نہیں ہیں۔ یہ سب مسلمان حکمرانوں کے خیانت کے باوجود ہے۔یہاں
سے سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطین کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آگئی یہ درک
اور شعور ہونا چاہیے۔یہ مقاومت پوری تاریخ پر بھاری ہے۔جب بھی اقوام متحدہ
نے چاہا کہ قدم اٹھائے امریکہ نے روک دیا اجلاس نہیں ہونے دیا۔ اور ساتھ یہ
کہا کہ اقوام متحدہ ایسے بیان نہ دے کہ جس سے اشتعال اٹھتا ہے اس کے باوجود
اقوام متحدہ نے یہ بیان دیا ہے کہ جنگ کا شدید خطرہ ہیں۔ اور یہ سخت ترین
محاذ ہے۔اگر یہ جنگ شروع ہوتی ہے تو کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر طرح
کی حمایت مسلمانوں پر واجب ہے مالی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی۔ کل
اگر لوگوں نے حرم بچایا ہے تو آج قبلہ اول بچانا مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|