پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے
ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع
چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام
سے موسوم کیا گیا ۔ 28مئی یوم تکبیرکے طور پر پاکستان میں منایا جاتا ہے
اور 14اگست 1947ء کے بعد یہ دوسرا قومی دن ہے کیونکہ 14اگست کو پاکستان بنا
تھا اور 28مئی کوپاکستان نے اپنی بقا کی جنگ جیتی تھی۔یہ دونوں دن پاکستان
کے سب سے تاریخی اور اہمیت کے حامل ہیں۔ ایاّم منانے میں بہت ساری حکمتیں
پوشیدہ ہیں، جب کسی دن کو منایا جاتا ہے تو نئی نسل کو اس دن کی اہمیت کا
پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں یوم عید قربان، یوم عید فطر، یوم عید میلاد النبیﷺ،
یوم عاشور، یوم آزادی، یوم اقبال، یوم قائداعظم، یوم کشمیر، یوم تکبیر اور
یومِ قدس سمیت متعدد ایّام منائے جاتے ہیں۔ یہ ایّام ہمیں ہماری تاریخ،
ہمارے رول ماڈلز، ہمارے ہیروز اور ہمارے اسلاف کی جدوجہد اور قربانیوں کی
یاد دلاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ہمیں یاد دلاتے ہیں بلکہ یہ ایّام ہماری
تاریخ، عقیدت اور عقیدے کے مطابق ہماری تربیت بھی کرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ” اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت
تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ
جو اللہ کے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں
جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں
پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے” (سورۃ انفال )اللہ
تعالی کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے ایٹمی ملک بننے کا فیصلہ
کیا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اس وقت پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی
خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بھارت نے ہمیشہ کی طرح خود کو خطے کا ٹھیکدار سمجھتے
ہوئے 11مئی 1998 ء کو ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے
لئے خطرات پیدا کردیئے تھے ۔ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی
کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا
پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ایسا کیوں نا ہوتا ؟ بھارت نے چند
دن قبل ایک ساتھ 5 ایٹمی دھماکے کیے تھے ،اور پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا
دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بنا ۔اس وجہ سے اس نے ہر محاذ
پر پاکستان کو دبانا شروع کر دیا ۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیئے تو
پاکستان پر امریکہ نے پابندی لگا دی کیونکہ پاکستان نے مسلم ملک ہو کر اتنی
ہمت کیسے کی کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کر لی ۔پاکستان کے دشمنوں کے ہاں اس دن
صف ماتم بچھی ہوئی تھی، دوسری طرف مسلم ممالک خوشیوں سے نہال تھے ۔ سعودی
عرب کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر پاکستان کو فوری
طور پر 50ہزار بیرل تیل مفت اور مسلسل دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ ہی حال
دیگر مسلم ممالک کا تھا ۔ایٹم بم بنانے میں بھی مسلم ممالک نے پاکستان کا
بھر پور ساتھ دیا۔
’’اگر ہندوستان ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہ لیں گے
لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ
نہیں۔‘‘
یہ تاریخی الفاظ اس وقت کے وزیر خارجہ، جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء
میں مانچسٹر گارجیئن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔بھارت 1954ء سے ہی ’’ہومی
بھابھا‘‘ کی سربراہی میں اپنا نیوکلیائی تحقیقی پروگرام شروع کرچکا تھا۔
1954ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم، مشہور زمانہ ایٹمی سائنسدان نیلز
بوہر سے ملنے کوپن ہیگن بھی گئے۔ جناب ذولفقار علی بھٹو نے 1966ء میں تجدید
اسلحہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا لیا
تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے ، ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے۔ایٹم بم بنانے کے
لیے ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ کا چارج، انہوں نے 31 دسمبر 1971ء کو
خود سنبھالا ۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 نومبر 1972ء کو کراچی
نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خرید کے
معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ 300 ملین ڈالر
کے اس منصوبے کے لئے سرمائے کا حصول تھا۔
پاکستان 1986ء تک ا یٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا،مگر جب 11 مئی8
199ء کو بھارت نے راجستھان کے صحرا پوکھران میں ایک بار پھر 5 ایٹمی دھماکے
کر کے خطے میں امن کے تواز ن کو بگاڑ دیا، اس کے کئی دن بعد تک جب پاکستان
کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو عالمی سطح پر یہ تاثر جنم لینے لگا کہ
پاکستان کے پاس شائد ایٹم بم ہے ہی نہیں ،یہاں تک کے اس وقت کے بھارتی وزیر
داخلہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی
کھو کھلی دھمکیاں سب کے سامنے آچکی ہیں ،پاکستان کے پاس نہ کوئی ایٹم بم ہے
اور نہ کوئی دھماکہ کرے گا ۔لیکن دوسری طرف حکومت میں موجود کچھ لوگوں
کاخیال تھا کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دئیے تو عالمی برادری
پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے جس کے ملکی معیشت پر بہت برے
اثرات پڑیں گے،اس کے علاوہ امریکا بھی پاکستان پر کافی دباؤ ڈالے ہوئے تھا
اور پاکستان کی حکومت کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ لالچ بھی دے رہا تھا ۔ ایٹمی
دھماکے کے فیصلے کے وقت دو راستوں پر غور و خوص تھا۔ پہلا راستہ دھماکہ نہ
کرنے کا تھا جس کا ملک کو کافی بڑا معاشی فائدہ ہوسکتا تھا۔ صدر کلنٹن نے
نواز شریف کو دھماکہ نہ کرنے کی صورت میں پانچ بلین ڈالرز کی اقتصادی امداد
دینے کا وعدہ کیا۔ یہ بہت خطیر رقم تھی اور اس سے ملک کے کئی معاشی مسائل
حل ہوسکتے تھے۔ دوسرا راستہ ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا تھا اور اس
وقت کی سویلین قیادت نے یہ راستہ چنا۔
پاکستان کے کامیاب جوہری تجربات کے بعد پاکستانی قوم اور فوج کا مورال
بلندیوں کو چھونے لگا ،ان تجربات نے ارض وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا
دیااور بھارتی حکمرانوں کا اکھنڈ بھارت کا خواب ہمیشہ کیلئے چکنا چور کر
دیا جو اپنے ایٹمی دھماکوں کے بعد اپنی اوقات سے بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہا
تھا اور کشمیر پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا ، پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر
کے نہ صرف بھارت کا غرور مٹی میں ملا دیا بلکہ بھارت کو یہ باور بھی کروا
دیا کے ہم سو نہیں رہے ہم ارض وطن کا دفاع کرنا جانتے ہیں ۔۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیئے اس وقت بھارت میں بی جی پی کی حکومت تھی
۔۔ بی جی پی کا شکریہ کا اس نے پاکستان کی اس طرف توجہ دلائی کہ اب پاکستان
کو ایٹمی پاور بن کر ابھرنا چاہیے ۔ اور پاکستان نے بھی اسلئیے ایٹم بم
بنائے کہ ایٹم بم کسی بھی جنگ سے بچنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر
بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ء کو
آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران
و ششدر رہ گئی ۔۔ ہر سال 28مئی کو چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی یاد
میں ملک بھر میں ’’یوم تکبیر‘‘ منایا جاتا ہے اور تقریبات، جلسوں اور
جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی دھماکے اس وقت کیے جب
اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ
وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرینگے
اور ایٹم بم گرانے پڑا تو بھی گریز نہیں کرینگے۔واجپائی نے برسر اقتدار آنے
کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور 11مئی 1998 کو
تین اور 13 مئی کو مزید دو دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت
اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ اٹل بہاری
واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار
کرچکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے
جواب دیا جائے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں نے عسکری اور سیاسی قیادت کے
فیصلے پر چاغی کے مقام پر 28 مئی 1998 کو پانچ اور 30 مئی کو کھاران میں
ایک وسیع صحرائی وادی میں پانچ ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کی جارحیت کا
بھرپور انداز میں جواب دیا۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت
پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان
ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔ قارئین کو ذہن نشین
رہنا چاہیے کہ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتیٰ کہ
مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں اس حد تک بنا
رکھا ہے کہ بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک پاکستان اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے کا
اعلان کرکے بھارتی آنکھ کے اشارے پر یہ اعلان واپس لے لیتا ہے۔
جب سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا
چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور
پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے
مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنادیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنادیا ہے کہ
بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرسکے گا۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، کسی
کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے
اسے بار بار جنگیں لڑنا پڑیں۔ پاکستان اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی
معاشی حالت بہتر بنانے اور انہیں خوراک، تعلیم اور علاج و معالجے سمیت
زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنے کا شدت سے آرزو مند ہے مگر
دہشتگردی اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے غافل
نہیں رہ سکتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر اس کی سلامتی کے لئے خطرات آج بھی
موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد
کررہا ہے۔پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور خطے میں امن چاہتا ہے ۔ پاکستان کا
نیوکلئیر سسٹم مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔28مئی 1998پاکستان کے ایٹمی
دھماکوں سے دھنک کی طرح رنگ بدلتے چاغی کے پہاڑنے ملت اسلامیہ نئی صُبح دی
بلکہ بھارت کو اپنی اوقات میں رہنے کی وارئنگ بھی دی ۔ کوئی بھی دن منانے
کا ایک بڑا مقصد ہوتا ہے اور یہ مقصد ہمارے عہد کو دوبارہ سے زندہ کرتاہوتا
ہے ۔تجدید عہد کا دن ہوتا ہے ۔ یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ وہ یادگار لمحہ تھا
جب دنیا کے تقر یباً 2ارب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔
28 مئی 1998 ء کا دن پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فخر دن تھاجب
اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور امت مسلمہ کے ممالک
کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔ پاکستان سمیت ترکی ،سعود ی عرب ، مشرق وسطیٰ کے
تمام ممالک ، افریقی مسلم ممالک ، انڈونیشیا حتیٰ کہ سوویت یونین سے الگ ہو
کر آزاد مسلم ریاستوں کے لوگ بڑی آن شان سے یہی کہتے تھے کہ پاکستان کا
ایٹمی قوت بننا ایسا ہی ہے جسے ہم خود ایٹمی قوت بن گئے ہیں، کیونکہ مسلمان
عقیدے کے اعتبار سے ’’جسد واحد‘‘ ہیں۔ پاکستان نے اپنے ازلی و ابدی دشمن
بھارت کو 5دھماکوں کا جواب دے دیا تھا اور اب اسی لئے تو پاکستان کے دشمنوں
کے ہاں ماتم بپا تھا۔ پاکستان پر امریکی پابندیاں لگ چکی تھیں کہ تمہاری
اتنی جرأت…؟ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ کسی کی یہ مجال
اور وہ بھی کسی مسلمان کی کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو ایٹمی قوت بنا اور
کہلا سکے۔ ’’گستاخ‘‘ پر حد ادب لگ چکی تھی لیکن دوسری طرف عالم اسلام
خوشیوں سے نہال تھا۔ ملت اسلامیہ پاکستان کا ہر طبقہ سجدۂ شکر ، نوافل اور
ملی جذبات کا اظہار کر رہاتھا تو مشرقی بارڈر پر بھارت اور بھارتی فوج کے
اوسان خطا ہو گئے۔ امریکہ بھی پاکستان کے کامیاب ایٹمی دھماکوں کو برداشت
نہ کر سکا اور فوراً ہی پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی ،
یورپی، بھارتی چینلوں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کو اسلامی بم قرار دے
دیا، حالانکہ پاکستان نے تو 6 ملکوں کے بعد ایٹمی دھماکے کئے ان چھ ممالک
میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو کسی نے نہیں کہاکہ
یہ عیسائی ایٹم بم ، روس کا کمیونزم بم ، اسرائیل کا یہودی بم ، بھارت کا
ہندو بم ہیں، لیکن جب پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور ُ پر امن
مقاصد کے لئے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے ایٹم بم کو اسلامی بم قرار دے کر
غیر مسلم سازش کر رہے تھے اور مسلمان سجدہ شکر ۔ لیبیا‘ سعودی عرب‘ متحدہ
عرب امارات‘ کویت اور عراق وغیرہ نے بھرپور مالی تعاون کیا ۔جس کی بدولت
پاکستان ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے قابل ہوا ۔ جس دن انڈونیشیا سے لے کر
مراکش تک مسلمانوں نے چراغاں کیا۔۔۔خوشیاں منائیں ۔ جب ہاتھ میں پتھر
اٹھائے فلسطینی بچے نے اسرائیلی فوجی کو کہا تھا کہ اس پتھر کو مت دیکھو
ہمارا ایٹم بم پاکستان میں رکھا ہے ۔۔آج وہ بم کہاں ہے اس بچے کی مدد کو
کیوں نہیں پہنچ پا رہا پاکستان اور مسلمانوں کے چاہتے ہوئے بھی ؟ اسکی وجہ
مسلم اتحاد نہ ہونا ہے ۔ پاکستان کے باشندے، عرب دنیا کے عیاش بادشاہوں کے
بجائے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔مگر مکمل مسلم اتحاد کے بغیر فلسطین میں
امن ممکن نہیں ۔ جب اسرائیل ایٹمی طاقت بنا۔۔ کہیں پر نہیں کہا گیا یہودی
بم، ہندوستان کے نیوکلیئر ٹیسٹ پر کسی نے ہندو بم کا نعرہ نہیں لگایا لیکن
جب پاکستان نیوکلئر طاقت بنا اور ایٹم بم کا تجربہ کیا، پوری عالم اسلام
اور پوری دنیا میں اسلامی بم کا نعرہ بلند ہوا۔عرب کے کئی اخباروں میں اگلے
دن اسلامی بم کی شہ سرخیاں آویزاں تھیں۔ فلسطینی روزنامہ عرب الیوم میں خبر
اسطرح چھپی تھی کہ اس خطہ میں ہم اسلامی نیوکلئر بم کی پیدائش پر اندرونی
طور پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ لبنانی روزنامہ النحر نے اپنے شہ سرخی پر یہ
خبر چھاپی کہ پاکستان دنیا اسلام کی پہلی نیوکلئر طاقت ہے۔ایک اور لبنانی
روزنامہ الحیات کہتا ہے کہ پاکستان دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا
نیوکلئر طاقت کا حامل ملک ہے۔ ایک اور عرب روزنامہ اشراق میں ایک مضمون
چھپا جس کا موضوع تھا اسلامی بم، ایک خواب جو شرمندہ تعبیر ہوا کویتی اخبار
القباس اور الوطن کے مطابق پاکستان کے نیوکلئر تجربہ کی وجہ سے اسلامی دنیا
مضبوط ہوئی ہے۔ الغرض پورے عالم اسلام میں اس طرح کی کئی سرخیاں، خبریں،
مضامین اور لوگوں میں مسرت اور جذبہ پایا گیا جو پاکستان کے نیوکلئر طاقت
بننے کی وجہ سے تھا۔امریکہ نے جاپان میں ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹم بم گرا
کر لاکھوں جاپانیوں کو لقمۂ اجل بنا دیا اور آج وہ انسانی حقوق کا چمپئن
بناہواہے، حالانکہ حقیقت میں انسانیت کا قاتل اور شیطانی حقوق کا چمپئن ہے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھاہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر
پر غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے اور سیاچن پر بھی ناجائز تسلط جمائے ہوئے ہے۔
پوری دنیا میں امریکہ ، اسرائیل ، بھارت، روس اور یورپی ممالک نے مسلمانوں
پر عرصۂ حیات تنگ کررکھاہے۔ مسلمان ممالک کی آزادی ، خود مختاری ، قومی
سلامتی پر ہر طرح سے حملہ آور ہیں۔ افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں
نے غاصبانہ قبضہ کیا اور کہتے ہیں کہ ہم تو افغانستان میں امن و استحکام کے
لئے آئے ہیں۔ اسے کہتے ہیں’’ نالے چور نالے چتر ‘‘۔ قیام پاکستان کے لئے
لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا گیا، مگر پاکستانیوں نے کسی بے گناہ پر ظلم
نہیں کیا صرف دفاع کیا ہے ۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر ہمیں پھر سے ایک ہو
جاناچاہیے، ہمیں اس پاک سرزمین پر پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں
ملانا ہوگا۔ پاکستان کی بری ، بحری ، فضائی افواج نے پاکستان کی جغرافیائی
و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے اس لئے پیش نہیں کیے تھے
کہ یہاں بھارت کی بالادستی کے قصیدے سنائے جائیں۔ اسے بڑا ملک قرار دے کر
ہمارے اوپر رعب جمایا جائے۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام ُ پرامن ، پاکستان
سمیت دنیا کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ امریکہ بھارت انسانیت کے قاتل ہیں۔ پاکستان
نے ایٹمی طاقت بننے کے بعد ہمیشہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جبکہ اس کے برعکس
بھارت نے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر ایٹمی جنگ کی دھمکی دی۔
اب کئی سال گزر جانے کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی ملک بن کر جو
ضروریات تھیں وہ پوری ہوئیں یا نہیں۔ کئی سال بعد بھی اس اسلحے کی دوڑ میں
کوئی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن ہے بلکہ اس وقت خطے کے
امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔دھماکوں کے اگلے سال ہی کارگل کا واقعہ ہوا جس
نے دونوں ملکوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا تھا اور صرف امریکی مداخلت سے
اس خوفناک تنازع کا اختتام ہوا ورنہ یہ ایک بہت بڑی جنگ کی صورت اختیار کر
سکتا تھا ۔ اور ’کولڈ سٹارٹ‘ جیسے نظریات اور ٹیکٹیکل ایٹمی میزائل کی ایک
نئی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ان دھماکوں نے ہمیں ایٹمی
قوت تو بنا دیا لیکن نہ تو ہمیں پائیدار امن دیا اور نہ ہی ’امن منافع‘
حاصل ہوا جس سے دونوں ملکوں کے عوام کے لیے سماجی سہولتوں میں اضافہ ہو
سکتا تھا۔ایک امید یہ بھی تھی کہ دھماکے ہمیں بھارت کے ساتھ دفاعی میدان
میں برابری کی سطح پر لے آئیں گے اور اس طرح ہم موثر طریقے سے بھارت کے
توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھ سکیں گے۔ جبکہ بھارت کا آئے روز
سرجیکل سٹرائیکس کرنے کے خواب دیکھتا ہے ، بالاکوٹ واقع ابھیننددھن کا
پاکستان آنا اور پاکستان کا امن کی خاطر ابھینندن کا واپس بھیجنا اور بھارت
کے موجودہ توسیع پسندانہ ارادے اور کشمیر کی حیثیت بدلنے کے اقدامات نے اس
امید کو بھی غیر مؤثر کر دیا ہے۔اور امید یہ بھی تھی کہ اس سے دنیا میں
ہمارے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آج دنیا میں ہماری
بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ FATF بھارت کے اشاروں پر کام کر رہی ہے
۔ ہمارے اپنے مسلمان دوست ممالک ہمارے مقابلے میں بھارت کے ساتھ اپنے
تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک اور کمزورامید یہ بھی دی جاتی رہی کہ جوہری طاقت بڑھانے سے ہمیں سستی
بجلی مل پائے گی۔ ہماری کل بجلی کی پیداواری صلاحیت35 ہزار میگاواٹ ہے اس
میں صرف 485 میگاواٹ یعنی صرف 4.5 فیصد ایٹمی ذرائع سے پیدا کی جا رہی ہے۔
1965 میں جب امریکہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی تھی تو کیا پاکستان
مفلوج ہوگیا تھا؟ بالکل نہیں۔ سپر پاور کا دعویٰ کرنے والا ملک روس جس نے
پاکستان کے خلاف انڈیا کی مدد کی آج وہ خود کئی ریاستوں میں بٹ چکا ہے‘
تقسیم ہو چکا ہے لیکن بفضلِ تعالیٰ پاکستان جو خدا کے رازوں میں سے ایک راز
ہے۔ وہ تھا‘ وہ ہے اور انشاء اﷲ قیامت تک رہے گا۔ تاریخ اپنے آپ کو ہمیشہ
دہراتی رہے گی‘ زندہ رکھے گی۔ غوری کے سامنے ہمیشہ پرتھوی شکست کھائے
گا۔پاکستان کا دفاع یقیناًناقابلِ تسخیر ہے۔ اب دشمن ہم پر براہِ راست وار
نہیں کر پارہا لیکن معصوم عوام کے ذہنوں میں خوف پھیلانے کی مجرمانہ کوشش
ضرور کررہا ہے اور نہ جانے کیوں کچھ لوگ کم علمی اور کچھ بددیانتی کی وجہ
سے پروپیگنڈا کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے کچھ فوائد ہیں اور شاید
ہمارے خطے میں ہماری سلامتی کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔ لیکن تنہا یہ قوت
ہماری مجموعی قومی طاقت اور ترقی کے لیے کافی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہماری
قومی طاقت کا متبادل ہے۔ اس کے لیے کئی دیگر شعبوں میں بھی ہمیں ترقی اور
سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی قومی طاقت بڑھانے میں ناکامیوں کو اپنی
ایٹمی طاقت ہونے میں نہیں چھپانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ضروری کئی
شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری قومی طاقت ہماری معاشی
اور انسانی ترقی میں پوشیدہ ہے اور ایک ایٹمی طاقت کے لیے ان شعبوں کو
نظرانداز کرنا اس کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ یہی چیلنج
شام، لیبیا، یمن اور عراق کو بھی در پیش تھا لیکن یہ تمام ممالک ان خطرات
کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔ اسی طرح
افغانستان میں امریکہ اور ستر ملکوں کا فوجی اتحاد سترہ سال میں بھی مسلح
گروہوں کو شکست نہیں دے سکا۔رہی بات ہماری پاکستان کی تو پاکستان وہ واحد
ملک ہے جس نے دہشتگردی کے اندرونی نیٹ ورک کو دس سال سے بھی کم عرصے میں
کچل کر رکھ دیا۔۔ پاکستان دنیا کے ان طاقتور ممالک میں شامل ہے جو تھرڈ اور
فورتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے، آبدوزیں، جنگی بحری جہاز اور سیٹیلائٹس بھی
تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر ہمیں مزید محنت کی ضرورت ہے ۔ یوم
تکبیر ہمیں خود انحصاری کا درس دیتاہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ نعرہ تکبیر کی
صدائوں سے میدان مارے ،یوم تکبیر ملت اسلامیہ کے لیے مسرت و شادمانی کا دن
ہے۔
پوری قوم 28مئی کو یوم تکبیر پر مساجد میں خصوصی نوافل میں ملکی سلامتی کے
لئے دعائیں اور اپنے عسکری اداروں سے والہانہ محبت ، شہدا کے مزاروں پر
فاتحہ خوانی اور قومی پرچم سے لبریز ریلیوں کا انعقاد کریں ۔ آج کے دن
ہمارے سیاستدانوں کوبھی یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر
ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ہر اقدام اٹھائیں گے ۔ پاکستان
پائندہ باد ، افواج پاکستان اور اس کا ایٹمی پروگرام زندہ باد !!۔۔۔ قوم
28مئی کو یوم تکبیر کے طور پر منائے گی اورپاکستان کے دشمن یوم تکلیف کے
طور پر کڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا ۔ انشاءاللہ
!!
|