سندھ ہو یا بلوچستان یاہوپنجاب جا بجا ریاست باپ کی حیثیت
رکھتی ہےاور حکومت ماں کی سوچ اور اکثرگھر میں ماں سے کسی نا کسی بات پر
کسی اولاد کوماں سے گلہ ہوتاہی ہےاورہونے بھی چاہیےاور ماں کو بتانا بھی
چاہیے یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اپنا دکھ بھی اسی کو
بتاتا ہے یہ الگ بات ہےہمارے معاشرے میں ماں سے شکوہ کو ماں کی توہین
گردانا جاتا ہے اورماں اپنے رعب و دبدبے کو قائم رکھنے کی خاطر کسی ایک کو
بلا وجہ مار کر اپنے اقتدار کو قائم رکھتی ہے اور ایسی صورت حال مڈل کلاس
خاندانوں یا غریب گھر کی ماں کے ساتھ ضرور ہوتی ہے جو عام طور پر مجبوری
میں اپنی ہی اولاد کے ساتھ ناانصافی بھی کر لیتی ہے اور اپنی کی نا انصافی
کو جانتی بھی ہے اور کسی نا کسی طرح سے اُس کی بھرپائی کی کوشیش بھی کرتی
ہے لیکن مجبوری ایسا نا کرنے دیتی ہے اور ہماری حکومت جو ریاست مدینہ کا
نعرہ لگا کر مغربی سوچ اور اندازِ حکمرانی کو ہم سے بہتر سمجھتی ہے اور اس
کو ہماری ریاست پر نافظ کرنے کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر عوام کو بے
وقوف بنانے کی کوشیش اور تجربہ کر رہے ہیں اس ریاست مدینہ کے شاہ کی سوچ
اورارادوں کی عکاس اور منہ بولتی تصویر ہےموجودہ نظام کی یہ حالت جوماضی
میں بھی خامیوں سے بھرا پڑا تھا اورکسی بھی حکومت کے لئےپاکستان کے شہریوں
کوآئینی حق سے مرحوم کرنا کچھ مشکل تو تھا مگرنا ممکن نہیں تھا مگر اب
نشانہ بنانااور قانون کے طابع کرنے کی غرض سے کس شہری کے ساتھ نا روا
ماورائے قانون سلوک کرنا کا جواز صرف قانون کی بالا دستی ہے پھر ایسا کرنے
کے لئے خواہ خون بہانا پڑ جائے یا کسی کی چادر اور چار دیواری کا تقدس
پامال کرنا پڑئے پولیس مقابلہ کرنا مقصود ہو یا اغوا کرکے اپنی مرضی کا
بیان پر دستخط کروانا مقصود ہو توبہت آسان ہوگیا ہے اور ایسا کرنےکے لئے
قانون کے محافظوں کے لئے قانون کے تابع لانے کی تاویل کافی ہےاوراب یہ کام
انتہائی آسان ہے اگرآئین پاکستان پرلگی قانون کی قدغن نا ہوتی تو شائید
مشکل ہوتا لیکن آئین پاکستان کو 85فی صدعوام جو نا تو جانتی ہے اور نا ہی
اُن کی زندگی سے اس کا کوئی واسطہ ہے اوراس لفظ قانون جس کی تشریح ہرحکومتی
مشیرخود سے کرتے ہے اورقانون جو حکومتی حواریوں کے قلم سے لکھی تحریر کا
نام سمجھا جاتا ہے اور بسا اوقات تو تحریرکے بغیر ہی کام چلتا ہے اور کبھی
کبھی تحریر بعد میں آتی ہے اور تکمیل پہلے ہی ہو جاتی ہے اور ایسے شاہ سے
وفادری نبھانے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہےاوراگر ضروری نا بھی سمجھا جائے
توہمارے نظام میں نوکری بچانے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے
انتہائی اہم ہے ایسے میں ملازمِ باکمال اور ماں کے وفادار کو دیکھنا یہ
ضروری ہے کہ دو فریقین میں سے پلا کس کا بھاری ہے اور سفارش کس کی ہے اگر
اس میں کوئی غلطی ہو جائے تو جس قدر شاباش کی امید ہوتی ہے اسی قدر سزا بھی
تجویز ہو سکتی ہے دار اصل اس وقت قارئین کی توجہ گزیشتہ دنوں ہو نے
والےلائق تحسین خبرکی جانب دلوانا چاہتا ہوں قطع نظراس کے کہ قانون کہتا
کیا ہے اور ہمارے معاشرے میں ہوتا کیا ہے لیکن جوخبرریاست مدینہ کے نشریاتی
اداروں نے عکس بند کر کے عوام کے سامنے پیش کی کے مطابق وہ کچھ اس طرح ہے
کہ ایک مظلوم خاتون عائشہ بی بی نے وزیراعظم پاکستان کو لائیو کال کرروتے
روتے بتایا کے اپنےنجی سوسائٹی میں موجود گھر کو ایک حاضر ڈیوٹی پولیس
آفیسر ذیشان اصغر کےبھائی عمران اصغرکوکرائے پردیا اوردسمبر 2020 میں ایف
ای آردرج کروائی گئی تھی اورسابقہ سی سی پی او اس کا قبضہ مدعییہ کو دلوا
چکے تھے مگر مسلسل ادارے کی گولی اور گیرے سے تنگ آئی خاتون نےریاست مدینہ
کے شاہ کواچانک کال کی اورسربراہ پنجاب پولیس نے ایک ہی دن میں پانچ لاکھ
میں ڈیل فائنل کردی خاتون نے مقدمات واپس لے لئے اورہرقسم کی کاروائی سے
دستبرداری ہو گئی جبکہ سول مقدمہ زیر سماعت عدالت ابھی موجود تھااب اس میں
میں اپنی رائے شامل کروں وہ بھی حامد میرصاحب جیسے با رعب صحافی پر لگی
قدغن کے بعد صرف اتنا قارئین کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حاکمیت سے پہلے اور
انصاف کا نام لینے والوں نے کس چیز کا نام انصاف رکھا ہوا ہے اگر حکومتی
ادارہ پولیس سے مصالحت درکار ہے تو ان کو اسی پر معمور کردیں تاکہ باقی
رعایا کو بھی اپنے مسائل حل کروانے کے لئے ادارہ میسر آجائے ورنہ سفارش اور
رشوت کے بغیر تو عام انسان کی ایف آئی آر کی درخواست ہی داخل دفتر ہو جاتی
ہے اور اگر ایف آی آر درج ہو بھی جائے تو ملظمان دندانتے پھرتے ہیں اور
مددعی چکرحصول گرفتاری اور تفتیش کے چکر میں پڑئے رہتے ہیں افسوس قانون کے
محافظوں کو اس معاملے کو نمٹانے کی شاباش وصول کرتے شرم ضرور آنی چاہیے کہ
پولیس میں اصلاحات اگر یہ ہیں تو اس سے بہتر نیا ادارہ بنا دیا جائے کیونکہ
اسی دن جناب نے قوم کو بتایا تھا کہ پرانے نظام کو درست کرنے میں وقت درکار
ہے نسبتاً نیا ادارہ بنانا آسان ہوتا ہے ویسے میں ایسے ہی الفاظ نکمے مرمت
ساز سے بار ہا مرتبہ سن چکا ہوں اور کئی اعلی ڈگری یافتہ ڈاکٹرز سے بھی جو
مریض کو ٹھیک کرنے کی پوری فیس بلکے زیادہ فیس بھی لیتے ہیں اور تکلیف رفاع
نا ہونے پرذمہ داری قبول کرنے کی بجائےاس سے ہی ملتی جلتی باتیں بتا کر
مریض کو تسلی دیتے ہیں۔
|