الیکشن نتائج نے پوری ریاست کو
بدترین صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ دھاندلی تو ہمارے ہاں ہمیشہ ہوتی ہے۔
کبھی فوجی بیرکوں میں نتائج تبدیل ہوتے ہیں ، کبھی ریٹرنگ آفیسرز کے دفاتر
میں ڈنڈی ماری جاتی ہے اور کبھی پولنگ سٹیشنوں پر ون وے پولنگ اور ووٹوں کی
تقسیم ہو تی رہی ہے۔ کبھی پول شدہ ووٹوں کے تھیلے راستے میں لوٹے جاتے ہیں۔
1981 سے 2011 تک کے سارے انتخابات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ 1996 ،
2001 ،2006اور 2011 کے انتخابی عمل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔میرے
مشاہدے کے مطابق اکثر حلقوں میں نتائج دھاندلی سے ہی مرتب ہوتے رہے ہیں۔
انتخابات میں برادری ازم، ووٹروں کی خریدو فروخت ، پولنگ سٹیشنوں پر مرضی
کی پولنگ کا رواج تو عام ہے، جو مختلف علاقوں اور مقامی حالات کے مطابق
اکثر امیدوار من مرضی سے کرتے ہیں لیکن ریاستی سطح پر بھی دھاندلی کبھی
ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں پر تو ہمیشہ انتظامی
مداخلت کے ذریعے من پسند افراد کو منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ اب کی بار ایم
کیو ایم اور پی پی پی میں دو سیٹوں میںحصہ داری پر تنازعہ کھڑا ہوا، جو سب
کے سامنے ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ اسی وجہ سے مہاجرین کے حلقوں
میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگ تو پولنگ سٹیشنوں پر آتے ہی نہیں۔
حالیہ انتخابات جن ووٹر لسٹوں پر منعقد ہوئے ، ان پر سیاسی جماعتیں کیا خود
الیکشن کمیشن کا بھی اطمینان نہیں تھا۔ حد تو یہ ہے کہ تمام اضلاع میں
پولنگ سے تین چار روز قبل جو انداراجات (ضمنی) ہوئے وہ ۰۹ فیصد جعلی ہیں۔
حلقہ وسطی باغ میں تو دس اور بارہ سال کے بچوں کے نام بھی درج تھے، جو ون
وے پولنگ کے دوران پول کر دئے گئے۔ سرکاری مداخلت کے ثبوت دیکھنے ہوں تو
حکومت پاکستان کی طرف سے بینظیر انکم سپورٹ فنڈز اور حکومت آزادکشمیر سے
زکواة فنڈ اور دیگر مدات سے ماہ جون میں ہونے والی ادائیگیوں کا ریکارڈ
ملاظہ کیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ دونوں حکومتوں نے سرکاری وسائل کو
ووٹ خریدنے کے لیے کس بیدردی سے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح تمام پول شدہ بیلٹ
پیپرز پر لگائے کے انگوٹھے کے نشانات کو نادرہ سے چیک کروایا جائے تو پتہ
چل جائے گا کہ کتنے جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ بعض پولنگ سٹیشنوں پر سو فیصد
ووٹ پول ہوئے ہیں جبکہ بعض مقامات پر درج شدہ ووٹوں سے زیادہ پول ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ ملاظہ کرنے کے لیے کسی اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کا قیام ضروری
ہے۔
انتخابات سے پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ فوج اور رینجرز تعنیات کیے جائیں
گے، آخری وقت میں یہ کہا گیا کہ فوج نہیں آئے گی۔ یوں ایک پولنگ سٹیشن پر
دو اور زیادہ سے زیادہ چار پولیس اہل کار مامور کیے گئے، جو کسی بھی صورت
میں بدامنی کو نہیں روک سکتے تھے۔ میں نے جن پولنگ سٹیشنوں کو اپنی آنکھوں
سے دیکھا وہاں پولنگ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ بہت سارے پولنگ
سٹیشنوں پر مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کو بیٹھنے ہی نہیں دیا گیا،
کہیں تو بیلٹ پیپرز پر انگوٹھا لگانے کے بعد بیلٹ پیپر چھین لیا جاتا تھا
اور کہیں ووٹرز کو ووٹ پول کرنے کی زحمت ہی نہیں دی گئی بلکہ دو ، تین لوگ
انتخابی عملے کی ملی بھگت سے درج شدہ تمام ووٹ پول کر دیتے تھے۔ اس صورت
حال پر جس نے ریٹرنگ آفیسراور انتظامیہ سے رابطہ کیا تو کہیں کسی کو قانون
کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ اکثر مقامات پر لڑائی جھگڑوں کی صورت میں ایف
آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔ انتظامیہ مخصوص امیدواروں کی کامیابی کے لیے
حالات سازگار بنانے میں مصروف رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر کی تاریخ میں
پہلی بار عوام نے قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے دفاتر پر
حملے کیے اور بعض مقامات پر دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ تصادم میں کئی جانیں
ضائع ہوئیں اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ الیکشن کے بعد بھی
تصادم جاری ہے اور مختلف علاقوں میں صورت حال دن بدن کشیدہ ہو رہی ہے۔
آزادکشمیر میں نظریاتی سیاست تقریبا دم توڑ چکی ہے اور تمام جماعتیں برادری
کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پورا خطہ قبیلائی جنگ کی لپیٹ
میں ہے۔ حویلی، عباس پور، نکیال، باغ، کھوئی رٹہ، سماہنی ، مظفر آباد سمیت
ریاست کے اکثر علاقوں میں مختلف قبائل ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔
مسلم لیگ، مسلم کانفرنس، جماعت اسلامی، جموں کشمیر پیپلز پارٹی سمیت تمام
آزاد امیدواروں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے
بعد نشستوں پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی انتخابات ملتوی کر
دئے تھے اور چار حلقوں میں دھاندلی کی شکایات پر دوبارہ پولنگ کا شیڈول دیا
گیا ہے۔ اس طرح ساتھ حلقوں میں پولنگ ہونا باقی ہے۔ دیگر علاقوں میں جس طرح
کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات بتدریج بے قابو
ہوتے جائیں گے اور حکومتی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ۶۲ جون کو یہ بیان دے کر پوری ریاست کو حیران کر
دیا کہ کہیں سے دھاندلی کی شکایت نہیں ملی۔ اب وہ کس منہ سے چار حلقوں میں
دوبارہ انتخابات کروا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں چیف الیکشن کمشنر کو مداخلت
کرتے ہوئے تمام انتخابی نتائج کو روک کر تمام نشستوں پر دوبارہ فوج کی
نگرانی میں پولنگ کا انتظام کرنا چاہیے یا اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا
چاہیے۔کشمیری قوم نے ماضی میں دھاندی کے باوجود سسٹم چلانے کی غرض سے غلط
نتائج بھی تسلیم کیے ہیں لیکن اب کی بار دھاندلی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ
جانے کی وجہ سے قوم نے سسٹم کی پرواہ کیے بغیر نتائج کو تسلیم کرنے سے
انکار کر دیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس صورت حال میں حالیہ الیکشن کمیشن
اور جانبدار انتظامیہ کا غلیظ بوجھ قوم کے کندھوں پر مسلط کیا جائے۔
انتظامیہ میں موجود تمام جانبدار، حالات کے سامنے جھکنے والے اور کرپٹ
عناصر سے پاک کیا جائے ورنہ اب عوام اس سسٹم کو قبول نہیں کریں گے۔
ہمارے مقتدر اداروں اور سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد
کروانے کا نعرہ لگانا چھوڑ دیں اور پہلے آزادی کشمیر کی معصوم شہریوں کو
بنیادی حقوق دلوائیں ورنہ عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی ہوگی اور ہمارا
موقف بری طرح متاثر ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی براہ
راست مداخلت نے کشمیری عوام کے دلوں کو زخمی کر دیا ہے۔ اس نازک مرحلے پر
پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو کشمیر ی عوام کو مایوس نہیں کرنا
چاہیے۔ ان سے انصاف کی توقع عبث ہے تاہم اگر یہ غیر متعلق رہیں تو شائید
حالات میں بہتری آجائے۔
آزادکشمیر میں بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کرکے براہ راست
مداخلت کا دروازہ کھولا تھا اور اب نواز لیگ نے مسلم کانفرنس کی سرپرستی
چھوڑ کر نواز لیگ قائم کرکے بھٹو صاحب کی روایت کو آگے بڑھایا اور دونوں
بڑی جماعتوں نے اہل کشمیر کے حق رائے دہی کو پامال کیا ہے۔ دو طاقتور
جماعتوں نے کشمیر انتظامیہ کو جو پہلے ہی مفلوج ہو چکی ہے کو برے طریقے سے
استعمال کیا اور حالات کو تقریبا بغاوت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ قوم کے اہل
دانش کو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے فوری توجہ دینی چاہیے ورنہ حالات پر
قابو پانا دن بدن ناممکن ہوتا چلا جائے گا۔ |