شام میں سنیوں کا قتل عام

پاکستانی اخبارات اورٹی وی چینلز بھی ایک عجیب طرح کے کردار کا حامل ہیں ، کسی بھی ایشو کو ایک دم اٹھا کر آسمان پر لے جایا جاتا ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے اسے زمین پر پٹخ کر پاش پاش کر کے ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیا جاتا ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عرب ممالک میں جاری شورش جسے عوامی بیداری لہر کا نام دیا جاتا رہا ہے اور خاص طور پر بحرین اور شام کی گھمبیر صورتحال کہ جس پر چند روز پیشتر تک اخبارات میں خبروں ، تجزیوں اور تبصروں کی بھر مار تھی لیکن اب ان ممالک کی خبریں اچانک کچھ اس طرح سے غائب ہو گئیں ہیں جس طرح کہ گدھے کے سر سے سینگ ۔ تو کیا پاکستانی میڈیا کے اس انداز صحافت سے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کر لینا چاہیے کہ بحرین اور خاص طور پر شام میں اب ہر سو امن کی فاختہ چہچہار ہی ہے ؟ سر زمین بحرین پر چند سو افراد کی بغاوت کو عوامی بیدار ی کا نام دینے والے ہمارے دانش ور اب کیوں خاموش ہو گئے ہیں ؟ چلو مان لیا کہ بحرین میں تو پھر بھی سیکیورٹی فورسز نے سعودی عرب کی بہادر اور جری افواج اور کمانڈوز کی مدد سے باغیوں کو کچل ڈالا اور کافی حدتک حکومتی رٹ بھی بحال ہو چکی مگر شام کی صورتحال تو اس کے با لکل برعکس ہے ، وہاں پر کشت وخون کا جو بازار گرم ہے اس کی تپش میں تو اضافہ ہو تا جا رہا ہے ، آج ہی مورخہ 28جون کے اخبارات میں خبروں کی بھیڑ میں اندر کے صفحات پر ایک چھوٹی سی خبر لگی ہے کہ شام کے دارلحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے قصوا اور ضلع بارزہ میں نو افراد کو سیکیورٹی فورسز نے شہید کر دیا ہے جس پر شام میں ہیومن رائٹس کے سربراہ عبد الرحمن نے احتجا ج کر تے ہوئے کہا ہے کہ شامی گورنمنٹ سنیوں کا بے دریغ قتل عام کر رہی ہے جس پر عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے ۔ یا د رہے کہ شام ایک غالب سنی اکثریتی ملک ہے جس پر ایک اقلیتی علوی فرقہ گزشتہ کئی عشروں سے مسلط ہے ،شام کے صدر بشار الاسد سابق صدر حافظ الاسد کے بیٹے ہیں اوران کا تعلق اسی شیعہ فرقے علوی سے ہے اور یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہرگز نہیں ، شام کا یہ حکمران طبقہ شروع دن سے ہی سنیوں کے سخت خلاف ہے اور اسی پرخاش کی وجہ سے آج وہاں کا سنی مسلمان ان کے تشدد، غیض اور غضب کا نشانہ بن رہے ہیں اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے کیونکہ شامی صدر کے گمراہ کن مذہبی عقائد اور سیاسی مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کے سنی ہیں۔ شام میں سنیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں ان کے جائز حقوق دیے جائیں مگر بشار الاسد حکومت کی سنگدلی کی صرف ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ ان حالیہ مظاہروں میں صدر کے حکم پر سیکیورٹی فورسز نے تاریخی العمری مسجد کو شہید کر ڈالا ، روایت ہے کہ یہ مسجد خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ نے تعمیر کروائی تھی اور یہ مسجد شامی صدر کے خلاف جاری تحریک میں مرکز کی سی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور شام کے سنیوں کو اس سے ایک عجیب طرح کی والہانہ عقیدت ، محبت اور چاہت تھی، شام کے صدر کے خلاف سنیوں کی اس تحریک سے اسرائیل اور ایران کو بھی کافی حد تک پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ اسرائیلی و ایرانی مفادات کا تحفظ جس قدر وہاں کا علوی اور نصیری فرقہ کر رہا ہے کوئی اور اس طرح کی وفادار ی کا ثبوت نہیں دے سکتا ۔شام کی عوام اور اپوزیشن میں اسرائیل اور ایران کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے یہ بات دونوں ممالک بھی بخوبی جانتے ہیں اور ان کے اخبارات بڑے واشگاف الفاظ میں ایسی خبروں کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں کہ شامی سیکیورٹی فورسز سنی اکثریتی علاقوں میں زبردست کاروائیوں میں مصروف ہیں اور وہ جلد سنی شدت پسندوں پر قابو پالیں گی، ایک پاکستانی معاصر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل تو اب دن رات ان سوچوں میں مگن ہے کہ کس طرح شام کے سنیوں کو اقتدار میں آنے سے روکے ۔بشار الاسد کے خلاف اس تحریک میں بڑا عنصر یہی نمایاں ہے کہ انہوں نے سنیوں سے کئے گئے وعدے ایفا ءنہیں کیے اور الٹا ان پر شام کی سر زمین تنگ کر دی گئی ۔ سنی اکثریتی علاقوں اور اہل سنت علماءکے مرکز اور محور، ورعا شہر کی مکمل ناکہ بند ی کر کے فورسز نے اسے گھیر رکھا ہے جس سے شہریوں کو شدید غذائی قلت اور کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے مگر ان حالات میں بھی وہ شامی صدر کے خلاف تحریک کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو قتل کیا جا چکا ہے اور لاتعداد افراد کو جیلوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔

یوں تو پوری دنیا بشار الاسد کو اس ظلم پر لعن طعن کر رہی ہے تاہم اب تک سب سے زیادہ سخت موقف ترکی کا آیا ہے ، ترک صدر نے شام کو عوام کے خلاف طاقت کے استعمال پر متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر شامی حکومت اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہ آئی تو اسے سعودی عرب ، ترکی اور دیگر عرب ممالک کی مخالفت کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ مسئلے کا حل اسی میں مضمر ہے کہ سنی مظاہرین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ ایک پاکستانی معاصرنے بتایا کہ شام کے علوی اور نصیریوں کو سب سے زیادہ بغض وہاں کے سنیوں سے ہے ، وہاں کی یہ شیعہ اقلیت یہودیوں اور عیسائیوں کو تو اپنا بھائی گردانتی ہے مگر سنیوں کو ایک آنکھ بھی دیکھنا اسے گوارا نہیں یہی وجہ ہے کہ شام کی اسرائیل اور ایران کے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے اور وہ ان ممالک کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے سنیوں کے خون ناحق سے اپنے ہا تھ رنگین کر رہاہے۔ایک واضح سنی اکثریتی ملک میں ایک اقلیتی فرقے کی اس ہٹ دھرمی اور دہشت گردی سے دنیا بھر میں بشار الاسد کے فرقہ سے وابستہ لوگ بھی حوصلہ کرتے ہوئے اپنے اپنے خطے میں سنیوں کے خلاف میدان میں اترنے کے لیے پر تولنے لگے ہیں اور ایران کی ایماءپر سعودی عرب اور پاکستان ان کی زد پر ہیں اور بالخصوص وطن عزیز میں اس مخصوص نظریات کے حامل فرقے کے لوگوں کی طرف سے مختلف شہروں میں احتجاجی کانفرنسز اور فنکشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں ایک طرف تو سعودی عرب کو بحرین میں فوج اتارنے پر تضحیک کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے تو وہیں شامی حکومت کی حمایت میں بھی کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرکے پاکستان کے سادہ لوح عوام کو یہ پیغام دینے کی سعی کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے سنی تو امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سر گرم ہیں جب کہ در حقیقت شام ،ایران کی یہ تمام تر کوششیں دین اسلام کی ترقی و ترویج کی خاطر ہیں۔اس وقت میرے سامنے پاکستان سے شائع ہونے والے اس فرقے کے مختلف رسائل و جرائد رکھے ہوئے ہیں جن میں سعودی عرب کے خلاف کھل کر زہر اگلا جا رہا ہے اور انہوں نے اپنا موقف بڑے ٹھوس الفاظ میں بیان کیا ہے کہ بحرین اور شام میں سنیوں کی پشت پناہی کے لیے سعودی عرب سر مایہ کاری کر رہا ہے اور انہیں پاکستان کی ہمدردیاں حاصل ہیں ۔ میرا پاکستان کی اس غالب اکثریت سنی عوام سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر بحرین کے باغی اور شر پسند عناصر اور شامی حکومت کی حمایت میں وطن عزیز میں ایک اقلیتی طبقہ اپنی گمراہ کن تحریک بڑے زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے تو انہیں شام کے مظلوم سنی مسلمانوں اور ان کے پشتی بان آل سعود کی کھل کر حمایت کرنے میں کیا چیز مانع ہے ؟کیا یہ اہم ترین ذمہ داری بھی صرف اور صرف تحریک تحفظ ناموس صحابہ ؓ پر ہی عائد ہوتی ہے جو کہ اپنے قیام سے لے کر آج تک ہر دور کے حکمرانوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کی چکی کے دوپاٹوں میں پس پس کر ایک بہت بڑی لیڈر شپ سے محروم ہو چکی ہے اور مسلسل جاں گسل وادیوں سے گزر کر اب اپنے بھی اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔آج حالت یہ ہے کہ اس ملک کے در و دیوار کو ”آل سعود مثل یہود“جیسے گمراہ کن نعروں سے رنگین کیا جا رہا ہے مگر حیف ہے اس دھرتی کی غالب اکثریت پر کہ ان کے پرگرامز ، کانفرنسز اور رسائل و جرا د میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔کیا یہ سب میرے اور آپ کے لیے فکر اور احتساب کی گھڑی نہیں ہے ؟ کیا ہم بھی ایسے ہی کسی وقت کے انتظار میں کہ جب شام کے چند فیصد گمر اہ فرقے علوی اور نصیریوں کی طرح یہاں پر بھی اسی قماش کے لوگ اس دھرتی کے کروڑوں سنیوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیں گے اور یہ سر زمین ان کے لیے تنگ کر دی جائے گی ۔۔۔۔؟فیصلہ اب وطن عزیز کی درجنوں سنی تنظیموں کے ہاتھ میں ہے ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 36992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.