زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
ہماری قسمت میں شاید ماتم ہی رہ گیا ہے۔ رونا دھونا۔ گریہ و زاری کرنا اور
یہ سمجھ لینا کہ بس ہمارا فرض پورا ہو گیا ہے۔
فلسطینیوں پر مظالم کے جو پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں وہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے
دیکھ رہی ہے۔ وہ دنیا جس میں ہر مذہب، ہر تہذیب ، ہر کلچر، ہر طرح کے سیاسی
نظام کے لوگ شامل ہیں۔ وہ بھی جو جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ جو ساری دنیا کو
انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہیں۔ انسانیت
کے احترام کے وعظ سناتے ہیں۔ بڑی بڑی رپورٹیں چھاپتے ہیں کہ دنیا میں
انسانی حقوق، آزادی، انصاف اور جمہوریت کا کیا حال ہے۔ انہیں فخر ہے کہ وہ
ان اعلیٰ اخلاقی انسانی قدروں پر یقین رکھنے والے معاشرے ہیں۔ اس میں کسی
حد تک صداقت ہے کہ یہ ممالک اپنے ہاں، اپنے معاشرے یا عوام کی حد تک ان
اصولوں اور قدروں پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن جب معاملہ دوسروں تک پہنچتا ہے
تو ان کے سارے اصول، سارے نظریے، ساری قدریں اور ساری اخلاقیات ختم ہو جاتی
ہیں۔ پھر یہ انسانوں کی قتل و غارت گری کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
معصوم بچوں کی چیخیں بھی ان تک نہیں پہنچتیں۔ انسانی بستیوں پر بمباری اور
کھنڈر ہوتے گھر بھی انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی
ان کے نزدیک بے معنی ہو جاتی ہیں۔ انتہاء یہ ہے کہ جب اس کھلی ریاستی دہشت
گردی اور فلسطینیوں پر مظالم کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک
پہنچتا ہے تو یہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی ڈھال بن جاتے ہیں۔ انہیں یہ
بھی قابل قبول نہیں ہوتا کہ ظالم کی مذمت کی جائے۔ او ر اس کی بربریت کو
روکنے کے لئے کردار ادا کیا جائے۔ انہوں نے عراق میں خود ہی کھیل کھیلا۔
بیس برس تک افغانستان میں وہی کچھ کرتے رہے جو اسرائیل کر رہا ہے۔ ان سے
کیا توقع رکھی جائے کہ اپنے مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے انسانیت کے نام
پر، ظالم نہیں مظلوم کا ساتھ دیں گے۔ ان کے اپنے مظالم کی کہانیاں لکھنے پہ
آئیں تو کئی کتابیں ناکافی ہوں۔
اور اسی دنیا میں وہ قوم بھی بستی ہے جو اسلام کی پیروکار ہے۔ جو خود کو
مسلمان کہتے ہیں۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ اسے امت مسلمہ کا نام دیتے ہیں۔ اس
امت مسلمہ کی آبادی دنیا بھر کی ایک چوتھائی آبادی کے لگ بھگ ہے۔ محتاط
اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اہل اسلام کی تعداد ایک ارب اسی کروڑ کے لگ
بھگ ہے۔ ستاون ممالک جو اسلامی ہونے کے دعویدار ہیں، اپنے اپنے رنگا رنگ
پرچم رکھتے ہیں، اپنے اپنے ترانے بجاتے ہیں۔ کہیں کوئی بادشاہ حکمران ہے،
کہیں جمہوریت کے وسیلے سے کوئی صدر یا وزیر اعظم بیٹھا ہے۔ لیکن ان سب کی
اپنی اپنی پالیسیاں، اپنے اپنے مفادات اور اپنی اپنی حکمت عملی ہے۔ ایسا
ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لئے کہ ہر ملک اپنی پالیسیاں بنانے کا حق
رکھتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممالک کسی خطے میں اپنے بھائیوں پر ہونے والے مظالم
پر بھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔ اسلام کے ناتے نہ سہی، انسانیت کے ناتے بھی
کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں اپنا سکتے۔ ہم نے بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ او
۔آئی۔ سی تشکیل دی۔ اس کو تشکیل پائے باون برس ہو چکے ہیں۔ یعنی نصف صدی سے
بھی زائد عرصہ۔ ستاون ممالک اس تنظیم کا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے بعد یہ
مختلف ممالک کے باہمی اشتراک کی دوسری بڑی عالمی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔
اس کے منشور میں لکھا ہے
it is the collective voice of the Muslim world and works to safeguard
and protect the interests of Muslim world in the spirit of promoting
international peace and harmony.
ـیہ( تنظیم) عالم اسلام کی مشترکہ آواز ہے۔ عالمی امن و خیر سگالی کے فروغ
کے لئے اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ اس کا فریضہ ہے۔
اس بات کو جانے دیجیے کہ گزشتہ باون سالوں کے دوران اس تنظیم نے مسلمانان
عالم کے مفادات کے تحفظ کے لئے کیا کیا؟ کون سی مشترکہ آواز اٹھائی؟ کیا
ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ تمام مسلم ممالک پوری یکسوئی کے ساتھ غلامی
میں جکڑے مظلوم مسلمانوں کی طاقت بنیں؟ سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ
عرب لیگ کی طرح اسلامی کانفرنس تنظیم ناکارہ ہو چکی ہے۔ ہم نے بارہا دیکھا
کہ اس کانفرنس کے ممبر اسلامی ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر بھارتی مظالم کے
خلاف قرارداد منظور نہ ہونے دی۔ 2019 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ
کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔ ہم نے بہت دوڑ دھوپ کی لیکن بھارت کے خلاف قرار داد
کے لئے مطلوبہ ارکان کی حمایت بھی حاصل نہ کر سکے۔ ستم یہ تھا کہ ہمارے
دیرینہ دوست بھی بھارت کے حامی ہو گئے۔ آپ نے شاید ہی کبھی سنا ہو کہ
اسلامی ممالک نے کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہو یا کسی بھی
بین الاقوامی پلیٹ فارم پر وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہوں۔
یہی حال اسرائیل کا ہے۔ رمضان المبارک میں فلسطینی بستیوں پر ہونے والی
بمباری کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ سنا ہے اسلامی کانفرنس کوئی قرار داد
منظور کر کے سرخرو ہو گئی ہے۔ گویا اس کی ذمہ داری صرف اسی قدر تھی۔
پاکستان بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ پر جوش
تقریریں ہوئیں۔ ایک قرارداد کی منظوری دی گئی اور حساب بے باق ہو گیا۔ اب
ہمارے وزیر خارجہ پتہ نہیں کون سی مہم سر کرنے نیویارک پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ
روز ) کسی اور ملک نہیں( پاکستانی سفارت خانے نے وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی کے لئے خصوصی عشائیے کا اہتمام کیا، جس میں تیونس، ترکی اور فلسطین
کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی۔ واپس آ کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
یقینا اپنی کارکردگی کا تفصیلی ذکر کریں گے ۔ لیکن زمینی حقائق جوں کے توں
رہیں گے۔
اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ پونے دو ارب سے زائد مسلمان، قیادت سے محروم
ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک، زبانی کلامی جو مرضی کہیں، عملا ایک دوسرے کے
ساتھ اسلامی اخوت و محبت، اتحاد و یکجہتی کا کوئی رشتہ نہیں رکھتے۔ وہ آپس
میں کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب بھی لڑ رہے ہیں۔ کئی ایک دوسرے کے وجود کو
برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سب امریکہ، چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے
گرد گھومتے رہتے ہیں۔ آج کل امریکہ خود کو واحد سپر پاور کہلاتا ہے۔ سو
اسلامی ممالک اسی کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسیاں بھی
امریکیوں کے مفادات کے مطابق بنتی ہیں۔ کبھی سعودی عرب سے اسرائیل کے خلاف
سب سے بلند آواز اٹھتی تھی۔ ا ب ایسا نہیں ہو رہا۔ اسرائیل کو اس نے اپنی
فضاوں میں اڑنے کی اجازت دے دی۔ حال ہی میں چار اسلامی ممالک ، متحدہ عرب
امارات، سوڈان، مراکش اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے
سفارتی روابط قائم کر لئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں براہ راست اسرائیلی
پروازوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہزاروں اسرائیلیوں نے دبئی کو اہم سیاحتی
مرکز بنا لیا ہے۔ جلد ہی نام نہاد اسلامی امہ کے کئی اور ممالک اسرائیل سے
رشتہ جوڑنے والے ہیں۔ خود، پاکستان میں بھی گزشتہ دنوں اس طرح کی آوازیں
اٹھی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ہم بھی زمینی حقائق کی بنیاد پر، قومی مفادات
کے لئے کوئی ایسا ہی فیصلہ کرنے کو نا گزیر قرار دیں گے۔
سو اس وقت تک تقریروں، نعروں، قراردادوں، جلسوں اور جلوسوں سے دل بہلانے
میں کوئی ہرج نہیں۔ آخر خود فریبی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور جذباتی عوام کی
تسلی بھی اہمیت رکھتی ہے۔
|